سسٹم فعال ہے
بابر ستار
قوم بظاہر دو مختلف، لیکن درحقیقت ایک جیسی چیزوں کے درمیان انتخاب کی الجھن میں گرفتار ہے۔ ایک طرف کم کوش، اخلاقیات سے بوجھل مجسم اچھائی ہے جو احتساب اور قانون کی حکمرانی کے سنہرے دور کی نوید سنارہی ہے۔ دوسری طرف انقلاب کا معرکہ گرم کرتے ہوئے ووٹ کے تقدس کو مبینہ سازشوں سے رہائی دلانے والے نعروں کی گونج ہے۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ درمیانی راستہ اپنانا کم ظرفی کی علامت ہے، نیز اصولوں پر اسٹینڈ لینے کا وقت آگیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ طرفین کے توشہ خانے میں بیک وقت اصول بھی ہیں اور دکھاوا بھی۔ سچ پوچھیں تو اعلیٰ و ارفع اصولوں کے نام پر دہرے رویے اختیار کرنے سے ہمارے ’’نظام ‘‘ کی منافقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
نوازشریف کی پارلیمانی سیاست سے بے دخلی سے ہوسکتا ہے کہ ہماری جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اور عین ممکن ہے کہ یہ پی ایم ایل (ن) کے ارتقا کے لیے بہترین تبدیلی ثابت ہو۔ سیاسی نظام کے تسلسل کے حق میں مضبوط ترین دلیل یہ نہیں کہ اس نے شہریوں کے لیے ساز گار اور موثر گورننس یقینی بنائی تھی، بلکہ یہ کہ اس کا کوئی موزوں متبادل موجود نہیں۔ اگر نواز شریف کی تیسری مدت کی کوئی قابل ذکر خوبی تلاش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ اس دوران اُنھوں نے خود کو ہر قسم کے تخیلات اور تفکرات سے محفوظ رکھا۔ انھوں نے سوچنے کی زحمت صرف اُس وقت کی جب اُن کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا یا پانی سر سے گزر گیا۔
موجودہ وزیر اعظم کے لیے پارٹی اور اداروں کی حمایت اشد ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے طور پر فیصلے نہیں کرسکیں گے۔ اُنہیں اہم معاملات اور بہتر گورننس کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔ اگر نواز شریف بادشاہ گر کا کردار ادا کریں لیکن خود بادشاہ نہ بن سکیں اور نہ ہی پارٹی اور اقتدار کو اپنے خاندان کے پسندیدہ وارث کے حوالے کر سکیں تو اُنہیں اپنی سیاسی وراثت کی تلاش میں مفاد پرستی کی بجائے اصولوں کی سیاست کرنی پڑے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس طرح پی ایم ایل (ن) نواز شریف کی انا کے ترازو پر تُلنے کی بجائے ایک بہتر اور وسیع تر امکانات کی حامل جماعت بن کر ابھر سکے۔
لیکن انقلابی تبدیلیوں کی لگام باہر بیٹھے ہوئے ہاتھوں میں نہیں ہوتی۔ ہمارے نظام نے بار ہا اس کا تجربہ کیا اور ہر بار ناکامی کو اپنا منتظر پایا۔ ہمارا نظام من مانی کرنے اور بے صبری دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ تسلیم، کہ غیر منتخب شدہ ادارے اس پر غالب ہیں لیکن اسے بھی آزاد فضاؤں میں سانس لینے یا عوام پر بھروسا کرنے کی عادت نہیں۔
نوازشریف کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں سسٹم نے انہیں ایک ’’شجر ممنوعہ‘‘ بنا ڈالا۔ جی ٹی روڈ ریلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی اُن میں لڑنے کی سکت باقی ہے۔ اور یہ کہ اب وہ فاؤل کھیلنے سے بھی گریز نہیں کریں گے کیونکہ اُن کے پاس کھونے کے لیے اب کچھ نہیں۔ اُن کا جو نقصان ہونا تھا، ہو چکا۔
اگر نواز شریف کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سیاسی صفحات سے غائب ہوجاتے، لیکن اب ہم نے اُنہیں زخمی کر کے شیر بنا دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سسٹم نے اپنے تئیں اُن پر ہزاروں گھاؤ لگا دیے ہوں، لیکن نواز شریف میں ابھی بھی سیاسی دم خم موجود ہے۔
اب آپ ہزار کہہ لیں کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے، وہ جھوٹے اور بدعنوان ہیں لیکن ان کی سیاسی بنیاد اپنی جگہ پر موجود ہے، اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اُن کا ووٹ بنک محفوظ رہا اور 2018ء کے عام انتخابات میں جوش غالب آگیا اور اُن کی جماعت کو قومی اسمبلی میں بھرپور اکثریت مل گئی تو کیا ہوگا؟ یہ عوامی اکثریت اُن کے بازوؤں کو وہ طاقت عطا کرے گی جس سے سسٹم کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور نواز شریف کو اسی وقت کا انتظار ہے۔
انیسویں صدی کے فرانسیسی سیاست دان اور مورخ، Tocqueville نے کہا تھا، ’’امریکہ میں ایسا کوئی سیاسی ایشو نہیں جو جلد یا بدیر جوڈیشل ایشو نہ بن جاتا ہو۔‘‘ سیاسی اکھاڑے کی رسہ کشی کا حصہ بننے سے بچنے کے لیے امریکی سپریم کورٹ نے سیاسی ڈاکٹرائن کا اصول وضع کرلیا۔ جیسا کہ اس نے ’’Baker v. Carr‘‘ کیس میں لکھا کہ اگر تنازع بنیادی طور پر سیاسی ہو تو اس کے حل کے لیے عدالت مناسب فورم نہیں۔
لیکن جس طریقے سے ہماری سپریم کورٹ نے پاناما کیس کو ڈیل کیا، یہ کیس قانونی سے زیادہ سیاسی بن گیا ہے۔ ’’Baker v. Carr‘‘ کیس میں سیاسی تنازع کی مندرجہ ذیل شناخت کی گئی:
’’جب کسی ادارے کا تحریری معاہدہ موجود ہو، مسئلے کے حل کے لیے جوڈیشل معیار کا فقدان مانع ہو، کیس کو حل کرنے کی کوشش میں عدالت میں کسی اور ریاستی ادارے کی بے توقیری کا خدشہ موجود ہو، پالیسی سازی کے بغیر کیس کا حل موجود نہ ہو، عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہو، کسی سیاسی فیصلے کی پیروی کی لازمی ضرورت، یا کسی ایک سوال پر مختلف ریاستی اداروں کی ممکنہ شرمندگی کا باعث بننے والے اعلانات کی ضرورت پائی جائے۔‘‘
پاناما کیس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سپریم کورٹ نے شاید اس اصول کو مسترد کردیا۔ اب، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، فیصلے نے پہلے سے زیادہ قانونی اور سیاسی غیر یقینی پن میں اضافہ کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اُس کیس کو ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا، اور ایسا کرتے ہوئے ایک ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے کی وجہ یہی تھی کہ اُسے دیگر ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں تھا۔
یہ فیصلہ ایسا کوئی جوڈیشل معیار طے نہیں کرتا جس کی مثال دیگر کیسز میں پیش کی جاسکے۔ اس میں اپنایا گیا قانونی استدلال بھی نہایت ناقص ہے۔ اس سے تاثریہ ملتا ہے جیسے کسی پالیسی کے تحت فیصلے کے لیے ایک ناقص طریق کار روا رکھا گیا ہو۔
قانونی احتساب اور عوامی نمائندگی کے حق کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ، لیکن پاناما فیصلے میں احتساب اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو کس طرح استعمال کیا گیا ؟ عدلیہ کو حاصل قانونی طاقت کی جڑیں اس کی ساکھ اور غیر جانبداری میں پیوست ہیں، لیکن جب قانون کی حکمرانی کے معانی پر جج صاحبان کی داخلی ترجیحات کا رنگ غالب دکھائی دے تو پھر جسٹس سسٹم کی آواز منقسم ہوجاتی ہے۔ جب فیصلوں کے سیاسی مضمرات بہت گہرے ہوں تو عدلیہ سیاسی کھلاڑی بن جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسے اپنی ساکھ کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
اب پاناما فیصلہ حتمی ہے، اور پی ایم ایل (ن) کو اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن فیصلے کے حتمی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر تنقید کے راستے بھی بند ہوجائیں گے۔ عدالتی فیصلوں کو اپنایا گیا قانونی استدلال تقویت دیتا ہے، انہیں توہین عدالت کی دھمکیوں سے مدلل نہیں بنایا جاسکتا۔
سچی بات یہ ہے کہ پاناما فیصلے نے ہم میں سے زیادہ تر کو مایوس کیا ہے کیونکہ یہ احتساب اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو شفاف طریقے سے استعمال کرتے ہوئے قانونی نظام کو مستحکم کرنے میں ناکام رہا۔ کیا ہمارا نیا قانونی نظام تمام کیسز میں سپریم کورٹ کو تفتیش کار، استغاثہ، منصف اور جلادکے تمام اختیارات تفویض کرتا ہے؟
رائے عامہ کو عدلیہ کے خلاف اکساتے ہوئے نواز شریف اُسی طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو ہمارے گلے سڑے نظام کا خاصہ ہے۔ وکلا کی تحریک نے ایسا سماں باندھا جس میں رائے عامہ ’’پی سی او ‘‘ججوں کے خلاف نفرت سے بھر گئی، حالانکہ بہت سے ’’غیر پی سی او ‘‘ جج بھی کبھی پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ جب عدلیہ نے مشرف غداری کیس شروع کیا تو اس پر ہر طرف سے منظم حملے شروع ہوگئے۔ مشرف کو کمر درد کے بہانے ملک سے فرار ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ سسٹم نے دکھایا کہ اُس کے پاس طاقت ہے اور وہ بچا سکتا ہے۔
ہم نے دھرنا نمبر 1 کے دوران عدالت پر وحشیانہ حملے ہوتے دیکھے کیونکہ اس نے 2013 ء کے عام انتخابات ’’چرانے‘‘ کی پاداش میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہیں دیا تھا۔ ہماری نظروں کے سامنے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے شاہراہ دستور پر چیک پوسٹیں قائم کرلیں اور سپریم کورٹ میں داخلہ ناممکن بنا دیا۔ حتیٰ کہ محترم جج صاحبان کو کسی خفیہ راستے سے عدالت میں داخل ہونا پڑتا۔
اب آخر کار عدالت پر حملہ آور ہونے والے جیت گئے ہیں۔ اگرچہ اصول یہ ہے کہ ریاستی اداروں، جیسا کہ سپریم کورٹ، کو حتمی اور مقدم سمجھا جائے لیکن عملی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو اس اصول کو پامال کرتے ہیں، وہی آخر کار انعام پاتے ہیں۔
اب نااہلی کے بعد نوازشریف کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ پہلا آپشن تو یہ ہے کہ وہ مزید دلدل میں دھنستے چلے جائیں یہاں تک کہ اُن کا نام سیاست میں ایک بوجھ بن جائے اور وہ اپنی نظروں کے سامنے اپنی جماعت کو دم توڑتا دیکھیں۔ اس صورت میں یہ بات طے ہوجائے گی کہ جو بھی سسٹم کے خلاف چلے گا اُس کا حشر نواز شریف اور ان کی فیملی جیسا ہوگا۔
اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ نوازشریف کو چلتا کرنے کے بعد ہمارے ادارے راتوں رات ہر قسم کی خرابیوں سے پاک ہوجائیں گے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ نواز شریف لڑائی جاری رکھیں، کیونکہ جب تک وہ ایسا کرتے رہیں گے، اُن کی واپسی کا امکان ختم نہیں ہوگا، اور یہ چیز اُن کی پارٹی کا شیرازہ بکھرنے سے بچائے گی۔ اگر وہ اپنی سیاسی بنیاد کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میڈیا رات دن اُن کی کتنی ہی کردار کشی کرلے، وہ 2018ء میں ایک سیاسی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔
حاصل ہونے والی سیاسی طاقت اُنہیں مستقبل میں سسٹم کے ساتھ ڈیل کرنے کا موقع دے گی۔ لیکن یہ ایک نازک کھیل ہے۔ اُنہیں سسٹم کو براہ راست چیلنج کرنے کی بجائے اپنی لڑائی عقل اور احتیاط سے لڑنی ہوگی۔ یہ جنگ جیتنے کے لیے نہیں، اپنی جگہ بنانے کے لیے ہے۔