جب ٹیگور نے سوچا کہ خوب صورتی کیا ہے…، از، اوشو

Osho via Pinterest
Osho base illustration via Pinterest

جب ٹیگور نے سوچا کہ خوب صورتی کیا ہے…، از، اوشو

ترجمہ از، نیّر عباس 

ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ رہ نمائے کامل کو تلاش کرے گا اس نے بہت سی کتابیں پڑھیں لیکن کیا تم صرف کتابیں پڑھ کر کیسے رہ نمائے کامل کو پا سکتے ہو؟ تم زیادہ سے زیادہ علم سے بھرتے جاؤ گے اور یہ چیز ایک رکاوٹ بنے گی۔ لیکن ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی شخص خدا یا سچائی یا خوب صورتی کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے، تو وہ کتابیں پڑھنے کا آغاز کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ان کو پانے کا یہی طریقہ ہے۔

مجھے عظیم ہندوستانی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی یاد آ رہی ہے۔ وہ مسلسل خوب صورتی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ یہ کیا ہے۔ ایک شاعر فطری طور پر خوب صورتی میں دل چسپی رکھتا ہے۔ اس کا ذہن ہمیشہ اس مراقبے میں مشغول رہتا ہے کہ خوب صورتی کیا ہے۔ ایک رات جب چودھویں کا چاند چمک رہا تھا، وہ اپنی کشتی میں سوار تھے اور وہ پُر شِکَوہ رات تھی۔ آسمان پر پورا چاند، اور دریا اور اس کے گرد جنگل کی خاموشی۔ اور وہ کشتی میں اکیلے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی پرندے کی چہچہانے کی آواز آتی اور بس، اور پھر خاموشی پہلے سے زیادہ گہری ہو جاتی۔

ومع ذلك ، نظرًا لأنها النسخة العامة من الدواء ، بدلاً من العلامة التجارية ، فإن الفياجرا العامة أرخص بكثير. ومع ذلك ، تجدر الإشارة إلى أن بعض الأدوية المستخدمة لعلاج ضعف الانتصاب ، والتي تشمل الفياجرا وسياليس العامة ، ستتاح للأطباء لوصف مرضاهم.


متعلقہ تحریر:

سچ کہانی مانگتا ہے  ترجمہ از، نیّر عباس


لیکن ٹیگور اس سوال پر غور کر رہے تھے کہ خوب صورتی کیا ہے۔ اور وہ ایک قدیم صحیفے کو دیکھ رہے تھے۔ اور ان کی کٹیا میں صرف ایک چراغ جل رہا تھا۔ آدھی رات کے وقت وہ تھکاوٹ کا شکار اور مایوس تھے کیوں کہ اس صحیفے  میں بھی وہ خوب صورتی کے بارے میں کوئی حقیقی چیز تلاش نہیں کر سکے، ما سوائے لفاظی کے، انھوں نے چراغ بجھا دیا اور پھر انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔

اچانک جب انھوں نے چراغ بجھایا تو فورًاکھڑکیوں سے، دروازے سے چاند کی روشنی اندر آئی۔ وہ دوسری دنیا میں منتقل ہو گئے۔ وہ جلدی سے باہر چلے گئے۔ انھوں نے چاند کو دیکھا، اور رات کی خاموشی کو، اور دریا میں چاند کے عکس کو، اور دریا کے چاندی جیسے رنگ کو اور دریا کنارے گہرے گھنے جنگل کو، اور یہ خوب صورتی تھی۔

لیکن وہ کتاب میں دیکھتے رہے تھے، اور خوب صورتی ان کا انتظار کر رہی تھی، دروازے پر انتظار کر رہی تھی۔ لیکن وہ چھوٹا پیلی روشنی والا چراغِ شب شان و شوکت کو روک رہا تھا۔ اور وہ اس کتاب کے خیالات میں اس قدر مگن تھے کہ انہیں یہ بھول ہی گیا کہ یہ چودھویں کے چاند کی رات تھی۔

انھوں نے کتاب کو دریا میں پھینکا اور یہ آخری دن تھا جب انھوں نے خوب صورتی کے بارے میں سوچا۔ انھوں نے کہا: سوچنے سے کام نہیں بنے گا۔ خوب صورتی موجود ہے، ہمیں صرف اپنی دست یابی ظاہر کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: ہمیں شمع بجھانا پڑتی ہے، انا پرستی کی چھوٹی سی شمع، پھر بہت سی صورتوں میں خدا کا ظہور ہوتا ہے، اور خوب صورتی تمہارے اندر سرایت کر جاتی ہے۔

مگر ہوتا یوں ہے کہ اگر تم رہ نمائے کامل کو پانے کے لیے غور کرنا شروع کرو گے تو یہ جاننے کے لیے کہ کون رہ نمائے کامل ہے تم کتابوں کی ورق گردانی کرو گے۔ یہ کتابیں تمھیں مضطرب کر دیں گی کیوں کہ ہر کتاب ایک مختلف کہانی بیان کرے گی۔ اگر تم جائین کی کتاب پڑہو گے تو وہ صرف مہاور کی صفات کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ رہ نمائے کامل کی یہی خوبیاں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ خوبیاں ایک خاص رہ نمائے کامل سے منسوب ہیں یعنی مہاور سے۔ اگر تم بدھ مت کی کتاب پڑھو گے تو وہ بھی رہ نمائے کامل کی صفات بیان کرے گی، لیکن وہ بھی نہیں ہیں، بل کہ صرف ایک رہ نمائے کامل (یعنی) بدھا کی تجلی کا ظہور ہے۔

اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہے۔ اور جب تم  کتابوں سے کچھ نتائج اخذ کر کے ان میں مگن ہو جاتے ہو تو پھر تم تلاش شروع کر دیتے ہو لیکن اس تلاش کے آغاز سے ہی نا کامی تمہارا مقدر بنے گی۔ تمہارے اندر پہلے ہی تعصب موجود ہے۔

اب تم بدھا کی تلاش میں ہو اور بدھا کبھی بھی دو بارہ نہیں آئے گا۔ اب تم زرتسرا کی تلاش میں ہو اور زرتسرا صرف ایک دفعہ آتا ہے اور پھر نہیں۔ اب تم لاؤ زو کے انتظار میں ہو اور لاؤزو دو بارہ نہیں آتا۔ ایک دفعہ آنا ہی کامل آنا ہے۔ کبھی بھی کسی چیز کی تکرار نہیں ہوتی۔ خدا کی قوتِ تخلیق لا محدود ہے۔ وہ تکرار نہیں کرتا۔

اور اگر تم بدھ مت، کنفیوشس اور تاؤ مت کو پڑھتے ہو تو پھر تم زیادہ اضطراب کا شکار ہو گے کیوں کہ یہ سب مختلف چیزیں بیان کرتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے آپ بہت چالاک انسان ہوں، بہت ذھین، اور سمجھ دار اور تم ان ساری خصوصیات کو یک جا کر لو۔ اب تم کبھی بھی رہ نمائے کامل کو نہیں پا سکو گے۔ اب تمہارے پاس ایک ایسا نظریہ ہے جو بالکل فضول ہے۔ یہ ایسا ہی  ہے جیسے بیل گاڑی کا ایک حصہ لے لیا جائے، اور ایک حصہ رَولز روئس* کار کا لیا جائے اور پھر دونوں کو جوڑ دیا جائے، اسی طرح کچھ حصے سائیکل کے اور کچھ انجنوں کے لیے جائیں۔ آپ کے پاس ایک عجیب و غریب سی چیز وجود میں آئے گی اور وہ کسی کام کی نہیں ہو گی۔ اس سے بہتر تو بیل گاڑی ہے اگر چِہ وہ آہستہ چلتی ہے لیکن تمہارا کا سفر جاری رہتا ہے اور تم کہیں پہنچ جاتے ہو، تم اسے استعمال کر سکتے ہو۔ لیکن وہ بھاری بھرکم چیز جو تم نے بنائی ہے بالکل بے کار ہے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔

جو لوگ زیادہ صحف اور کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ رہ نمائے کامل سے متعلق ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں۔ اور یہ نظریہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ صفات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایسے انسان کا وجود کبھی نہیں رہا اور نہ ہی ہو گا۔ اب تم سراب کی تلاش میں ہو، اور اسے کبھی نہیں پا سکو گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ تم کئی رہ نماؤں سے ملو لیکن اپنے نظریے کی بنیاد پر تم انہیں مسترد کرتے رہو گے، کیوں کہ اس میں کسی نہ کسی چیز کی کمی ہو گی۔ ایسا نہیں ہے کہ رہ نما موجود نہیں  ہیں، وہ تو ہر وقت موجود ہیں، تم اپنے نظریہ کی وجہ سے محروم ہو۔

دنیا ہمیشہ رہ نماؤں سے بھری ہوئی ہے اور یاد رکھو، خدا کنجوس نہیں ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ دنیا میں بَہ یک وقت صرف چھتیس رہ نما ہوتے ہیں، صرف چھتیس؟ کیا خدا اتنا کنجوس ہے؟ اور چھتیس ہی کیوں؟ لیکن جب آپ دوسرے مذاہب کو دیکھتے ہیں تو یہودی پھر بھی سخی ہیں۔ جین مت (ہندوستان کا ایک مذہب)کہتے ہیں کہ  آغازِ خلقت سے اختتامِ کائنات تک صرف چوبیس کامل رہ نماؤں کا وجود ہے۔ پوری خلقت، آغاز سے اختتام تک، اس کا مطلب ہے کہس لاکھوں سال، صرف چوبیس؟ تو لاکھوں سالوں سے کوئی رہ نما دست یاب نہیں۔

ہندو اس سے کچھ زیادہ کنجوس ہیں: وہ کہتے ہیں کہ صرف دس ہیں۔ عیسائی اس سے بھی زیادہ کنجوس ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خدا کا صرف ایک بیٹا ہے یعنی یسوع مسیح۔ صرف یسوع مسیح رہ نمائے کامل ہے اور کوئی نہیں۔ پھر تم کس طرح رہ نمائے کامل کو تلاش کر سکتے ہو۔

میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا سخی ہے۔ کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص عدد۔ رہ نما گزرتے رہتے ہیں۔ صرف لوگ اندھے ہیں، لوگ بہرے ہیں۔ یہ بات تکلیف دہ ہے۔ یہ جاننا کہ تم اندھے ہو، بہرے ہو، یہ بات تکلیف دہ ہے۔ اس لیے ان تھیوریوں میں بڑا وزن ہے۔ صرف چوبیس، صرف دس، صرف ایک: یاد رکھو، یہ تمہارے لیے بڑی تسلی کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم رہ نمائے کامل کو نہیں پا سکے تو تم کیا کر سکتے ہو۔ یہ تمہاری ذمے داری نہیں ہے۔ رہ نمائے کامل کبھی کبھار ظاہر ہوتا ہے، اور ابھی وہ یہاں نہیں ہے۔ یہ تمہارا قصور نہیں کہ تم اسے نہیں پا سکے۔ اگر کوئی غلطی پر ہے تو وہ خدا ہے، تم نہیں۔ تم پُر سکون ہو جاتے ہو۔

میں تم سے کہتا ہوں: رہ نمائے کامل ہر وقت دست یاب ہو تے ہیں، جس طرح گلاب اور کنول کے پھول ہر وقت دست یاب ہوتے ہیں۔ اور سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے اور لاکھوں ستارے ہر وقت دست یاب ہوتے ہیں۔ تمہیں صرف اپنی آنکھیں کھولنا ہیں، تمہیں اندھا نہیں بننا۔ مگر ہماری حالت بڑی خراب ہے۔ میں ایک کہانی پڑھ رہا تھا، یہ تمہاری کہانی ہے۔

ایک عورت نے بچہ جنا، لیکن اس نے ابھی اسے دیکھا نہیں تھا۔ اس نے ڈاکٹر سے کہا کہ بچے کو اس کے پاس لایا جائے، لیکن اس نے اس کی پیروی نہیں کی۔

مجھے ڈر ہے کہ ابھی اسے دیکھنا آپ  کے لیے بہتر نہ ہو۔

لیکن جب اس عورت نے زیادہ شدت سے اصرار کیا، تو اس نے اپنے انکار کا جواز پیش کرنا شروع کر دیا۔

دیکھیے، محترمہ، بد قسمتی سے آپ کا بیٹا صحیح سلامت پیدا نہیں ہوا، اور میرا خیال ہے آپ کے لیے بہتر ہو گا کہ آپ اپنے بچے کو دیکھنے سے پہلے دردِ زِہ سے مکمل صحت یاب ہو جائیں۔

ڈاکٹر صاحب، مجھے بتائیے! مجھے ضرور پتا چلنا چاہیے کہ کیا ہوا ہے۔ میں ضرور اپنے بچے کو دیکھوں گی۔

ڈاکٹر کی خواہش یہ تھی کہ اس خاتون کو اس کے بچے کا نظارہ کرنے سے محفوط رکھے، اس نے ہمت کر کے بچے کی بد نمائی کی وضاحت کی:

“میں صاف گوئی سے کام لوں گا، محترمہ۔ آپ کے بچے کی ٹانگیں نہیں ہیں!”

اس نے گہری سانس لی، لیکن اس تکلیف سے خلاصی پا کر اس نے اپنے آپ کو پر سکون کیا اور بچے کو دیکھنے کا کہا۔

“محترمہ، میں نے چاہا کہ آپ کو مکمل سچ سننے سے بچا لوں، اس لیے میں نے آپ کو ساری صورت حال بتانے سے گریز کیا، آپ کے بچے کی ٹانگیں ہیں نہ بازو۔”

ڈاکٹر، وہ چلائی، میرے بچے کو میرے پاس لے آئیں۔ اس کو میری ٹانگیں اور میرے بازو عطا  ہوں گے۔ میں اسے ضرور دیکھوں گی۔

صحیح، اس نے جواب دیا، مجھے زیادہ سنگ دل ہونا پڑے گا، آپ کے بچے کا دھڑ بھی نہیں ہے۔

نہ ٹانگیں ہیں، نہ بازو، نہ دھڑ، اس نے سسکیاں بھریں۔ اسے میرے پاس لے آئیں۔ اسے میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

آخر کار ڈاکٹر نے بات مان لی اور بچے کو اس کے پاس لے آیا۔ اس نے جب اسے دیکھا تو گھورنا شروع کر دیا۔ تولیے میں لپٹا ہوا اس کا ایک فٹ لمبا کان تھا۔

اس نے کان کو ہاتھ میں لیا اور اسے سہلاتے ہوئے آگے پیچھے حرکت دینا شروع کر دی:”یہ ٹھیک ہو جائے گا میری جان، ہم کسی نہ کسی طرح اسے ٹھیک کر لیں گے۔”

ڈاکٹر نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا، “محترمہ، آپ بے فائدہ گفتگو  کر رہی ہیں۔”

یہی حال انسان کا ہے۔ تم اندھے ہو، بہرے ہو، تمہارے پاس دل نہیں، لیکن اس صورت حال کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ اس کا ادراک کر لینا اور اسے سمجھ لینا انتہائی دردناک ہے۔ اس لیے ہم اپنے بارے میں سچائی کو رد کرنے کیلیے وضاحتیں ڈھوندھتے رہتے ہیں۔

مرید تیار نہیں ہے، اس لیے وہ رہ نما کو نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن وہ مسلسل یہ کہتا رہتا ہے کوئی رہ نما موجود ہی نہیں۔

میں یونی ورسٹی کا طالب علم تھا، اور یہ وہ دن تھا جب بدھا صاحب کشف کے رتبے پر فائز ہوئے تھے، اور یہ دن یونی ورسٹی میں منایا جاتا تھا۔ اور وائس چانسلر نے جوش اور جذبے سے کہا، “اگر میں بدھا کے وقت میں موجود ہوتا تو میں دنیا کو ترک کر دیتا اور اس کے پیروں میں بیٹھ جاتا، اور سایے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلتا۔”

اور میں اس شخص کو جانتا تھا! میں اسے بدھا کی پیروی کرنے والے لوگوں میں سے نہیں سمجھتا۔ مجھے کھڑا ہونا پڑا۔ اور میں نے کہا،” آپ اپنے الفاظ واپس لے لیں، کیوں کہ میں آپ کو  اچھی طرح جانتا ہوں: آپ سب سے آخری شخص ہوتے جو کہ بدھا کی پیروی کرتے۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بدھا ابھی موجود نہیں ہیں۔ کیا آپ کبھی رامانا مہارشی کے پاس گئے ہیں۔

انہیں جواب دینا پڑا، “نہیں۔”

میں نے کہا،”لیکن وہ زندہ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ زندہ تھا۔ وہ آپ کے ہم عصر تھے۔”

یہ واقعہ 1955 کا ہے، اور رامانا کا انتقال ’51’ میں ہوا، صرف چار سال پہلے۔ اور وائس چانسلر ستر سال کے ایک بوڑھے آدمی تھے۔ میں نے کہا،”وہ آپ کے ہم عصر تھے۔ اروناچل زیادہ دور نہیں۔ بدھا کے دور میں اس تک سفر کرنے کے لیے آپ کو سالوں لگتے۔ اب تویہ صرف ایک گھنٹے کا ہوائی سفر ہے۔ کیا آپ وہاں گئے؟ کیا آپ کبھی جے۔ کرشنا کی طرف گئے؟ وہ ابھی بھی زندہ ہیں۔ اور آپ اتنے جوش و جذبے سے بات کر رہے  ہیں۔ آپ کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟”

لیکن وہ اچھے شخص تھے۔ انھوں نے بات سمجھ لی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، انھوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ بعد میں انھوں نے مجھے بلایا اور کہا،”سنو، اگر تم نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہو تو تم مجھ سے اکیلے مل سکتے ہو۔”

“اکیلے کیوں؟ آپ نے اتنے لوگوں کی موجودگی میں ایک بیان دیا: مجھے بھی لوگوں کی موجودگی میں اسے کی مخالفت کرنی تھی۔ اور آئندہ ایسا بیان کبھی نہ دیجیے گا کیوں کہ میں اگلے دو تین سال کے لیے  یہیں موجود ہوں گا۔ اس پر غور کریں۔ آپ بدھا کے وقت ہی میں تھے،” میں نے انہیں بتایا۔ وہ حیران ہو گئے۔ انھوں نے کہا،”تمہیں کیسے پتا؟”

میں نے کہا،”میں جانتا ہوں آپ میری آنکھوں میں دیکھیں: آپ بدھا کے وقت بھی موجود تھے، لیکن آپ کبھی نہیں گئے۔ اور اب آپ ایسے جذبات سے بات کر رہے ہیں۔ آپ دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں: آپ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔”

لوگ یہ سمجھتے رہتے  ہیں کہ رہ نما صرف اگلے دور میں ہوا کرتے تھے، اب وہ نہیں ہیں، اب مزید ان کی موجودگی نہیں ہے۔ اور بدھا کے دور میں بھی یہی حال تھا۔ ایسی کہانیاں موجود ہیں کہ لوگ آتے اور بدھا سے سوال کرتے،”کیا آپ  رہ نمائے کامل ہیں؟” ایسے لوگ تھے جو مسیح کے پاس جاتے اور سوال کرتے،”کیا آپ ہی وہ مسیحا ہیں جس کا ہم انتظار کر رہے تھے؟”

مسیحا موجود ہے جو ان کی آنکھوں کے سامنے کھڑا ہے، ان کے سامنے، اور وہ پوچھ رہے ہیں،”کیا آپ مسیحا ہیں؟” اگر وہ کہے گا نہیں تو ان کو خوشی ہو گی۔ اگر وہ کہے گا ہاں تو ان کو غصہ آئے گا۔

مسیح نے کہا ہاں، اس لیے وہ غصے ہو گئے۔ “اچھا تو یہ ریا کار سمجھتا ہے کہ یہ مسیحا ہے؟” یہ بڑھئی کا بیٹا، یوسف؟ اور ہم اسے اس کے بچپن سے جانتے ہیں۔ یہ قصبے کی گلیوں میں کھیلتا رہا ہے، اور اب اچانک یہ مسیحا بن گیا ہے؟”

وہ ہمیشہ سوال کرتے رہے ہیں۔ بدھا کے دور میں وہ کہہ رہے تھے،”ماضی میں کامل رہ نما ہوا کرتے تھے، اوپانیشادس کے دور میں، وداس کے دور میں کامل رہ نما ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان برے دنوں میں، وہ سب غائب ہو گئے ہیں۔”

اور یہی بات وہ اب بھی کہتے ہیں! اور یہی بات ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ حقیقتاً وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔


*انگلستان میں تیار کی جانے والی ایک مہنگی کار Rolls-Royce.1