(اکرم پرویز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)
جدید اردو افسانے کا سب سے اہم معمہ بن سلجھے سدا کے لیے معدوم ہو گیا۔ یوں بھی بلراج مین را کی موت اس کے بیانیہ کے مانند ہی طلسماتی ہے اورجیسا کہ ایک طلسم توڑنے سے نیا طلسم خود بخود قائم ہو جاتا ہے، کہا نہیں جا سکتا کہ مین راکا1971کا قائم کیا ہواطلسم آج بھی برقرار ہے یا وہ طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس نے طلسم کے اوپرایک اور طلسم چڑھا دیا ہے یوں بھی طلسم کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ کبھی بھی مکمل طور پر کھل نہیں سکتا۔ یا رلوگوں نے سوشل میڈیا پر مین را کی موت کا تازیانہ پڑھنا شروع کر دیا یہ جانے بغیر کہ مین را کی موت عرصہ قبل واقع ہو چکی تھی۔ اب جو مسئلہ تھا وہ اس کے پنجر کے انتم سنسکار کا تھا۔ موت خاموشی ہوتی ہےاور بلراج مین را کی تخلیقی موت1971میں واقع ہو چکی تھی۔ اردو کے نام نہاد ادبی سنجیدہ حلقوں میں کبھی بھی مین را کی موت کا ماتم نہیں منایا گیا۔
اور منایا بھی کیوں کر جاتا جو شخص کھل کر پوری نام نہاد ادبی برادری کو دوغلا کہتا ہو اس کی تخلیقی خاموشی یعنی موت کا ماتم منانے کے بجائے شادیانے بجنے چاہئیں تھے اور بجے بھی۔ مین را کی تخلیقی خاموشی کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا لیکن جن لوگوں نے بھی یہ خاموشی محسوس کی وہ جانتے تھے کہ مین را نےاس زمین سے اپنا رشتہ توڑکر کسی اجنبی جزیرے کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ اس کی روح اس اجنبی جزیرہ پر بہت پہلے یعنی1971میں پہنچ چکی تھی اور دھیان گیان میں مگن تھی۔اب اسے اپنی جون/یونی کا انتظار تھا جو اب وہاں پہنچی ہے۔میرے نزدیک مین را کی موت اس کی تخلیقی سرگرمیوں سےبرأت کے اظہار سے وابستہ ہے۔ اس لیے اس کی موت ایک معمہ ہے جو شاید کبھی بھی نہ سلجھ سکے۔ بلراج مین را جدید اردو افسانے کا سب سے توانا طلسم ہے جس کی کنجی دریافت کرنانام نہاد اردو برادری کے بس کے باہر کی چیز ہے۔
بلراج مین را کی تخلیقی موت کا ایک معنی اور بھی ہےاور اس معنی کونام نہاد ادبی برادری کے تشکیل کردہ اصولوں کی اساس پر کھولنا ناممکن ہے۔ یوں میں بلراج مین را کی تخلیقی خاموشی میں ہندوستان کے سیاسی سماجی معاشرے کی شونیتا کے احساس کو کشید کرتا ہوں اورمن ہی من میں اس کی خاموشی کے معنی متعین کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اس کی تخلیقی چُپ سے آتمیتا کا احساس یوں بھی ہوتا ہے کہ اس میں مادی معاشرے اورسیاسی اجارہ داری کے خلاف احتجاج کی صدائے بازگشت مسلسل گونجتی رہتی ہے۔ ہم نے مین را کی چپی میں معاشرتی اور سیاسی استبداد کی کہانی اگر نہیں سنی تو پھر ہمیں اس کی موت پر چھاتی پیٹنے کا کوئی حق نہیں۔
مین را کی چپی میں تخلیق کی موت کا احساس تو ہوتا ہی ہے ایک ایسے سکہ بند جمہوری معاشرے کی قلعی بھی کھلتی نظر آتی ہے جس میں فن اور فن کار کی موت کا کوئی معنی نہیں۔ مادی معاشرے کی سیاسی توجیہات کے سہارے مین را کی موت کو حل کیا ہی نہیں جا سکتا اور ایک ایسے شخص کی تخلیقی موت کے طلسم کو توڑنا یوں بھی مشکل نظر آتا ہےجو سیاہ کاغذ پر سیاہ قلم سے سیاہ عبارتیں لکھتا ہو۔ مین را کی کہانی کمپوزیشن۲ کا کردار معاشرے کے متعین کردہ اعتباطی اخلاقی نظام کے اصولوں کو پلٹ دینا چاہتا ہے۔
وہ ہر اس تثنیتی تخالف کو مٹا دینا چاہتا ہے جس کی اساس پر معاشرے میں سیاسی استبداد کی کہانی لکھی جاتی ہے۔ سیاہ کاغذ پر لکھی ہوئی سیاہ عبارتیں مین را کے اس تخلیقی ویژن کے اظہار سے وابستہ ہے جس میں وہ ثقافت کے لسانی نظام کے من مانے اصولوں کو توڑ کر ایک ایسےلسانی کل کی تشکیل کا خواہاں ہے جس میں ہر چیز واضح ہو اور کسی بھی مخصوص تصور کو اس کی Binary میں دریافت کرنے کے بجائےاس کی حقیقی ساخت میں توڑا جا سکے۔ لہٰذا مین را کی موت کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ اسے ہم نام نہاد جمہوری سیاسی اور معاشرتی نظام میں نہیں سلجھا سکتے۔ یوں مین را کی تخلیقی چپی/موت ہمارے لیے لاینحل ہے کہ ہم ثقافت کے تثنیتی تخالف میں ہی جینے والے حقیر کیڑے ہیں۔