
ملکُ الشّعراء سے بات چیت (فسانہ و فسوں)
از، نصیر احمد
ملک الشعراء سے بھی بات چیت اکثر پر لطف ہوتی ہے۔ وہ صاحب ایمان اور ہم گم گشتہ راہ مقصود۔ معاشرت، سیاست، فلسفہ، ہنر و سخن کے معاملات میں بھی اختلافات ہیں۔ بس کچھ روسو اور ہیوم (ہم لوگ ویسے اتنے بڑی فلسفی شاید نہیں ہیں ،ھاھا) جیسا سین ہے بس معاملات زیادہ خوش کن اور فرحت بخش رہتے ہیں۔کبھی کبھی کچھ تندی بھی آ جاتی ہے، لیکن ایک گہری دوستی اور بہت سی ہنسی ٹھٹھولی تندی ترشی کو آوارہ نہیں ہونے دیتی۔
ابھی تو فون پر بات چیت ہونے کا وقت لگ جاتا ہے۔ اس معاملے میں دونوں طرف ایک سا مزاج ہے۔ ہم تو اب مبتلا ہونے کے بعد تھوڑی زیادہ فون پر بات چیت کرنے لگے ہیں۔ پھر بھی ان سے بات ہوتے ایک سال لگ ہی جاتا ہے۔ لیکن بات ہو جائے تو مہر و ماہ طلوع ہونے لگتے ہیں، ستارے چمکنے لگتے ہیں اور شمعیں فروزاں ہو جاتی ہیں۔
آج پھر ان سے رابطہ کر ہی لیا۔
صحت کا پوچھنے لگے
ہم نے کہا
بس گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں
وہ کہنے لگے
تم نے کون سے گناہ کیے ہوں گے؟
ہم نے کہا
وہ تو ہم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ گناہ وغیرہ ہم نے کیے نہیں پھر کیوں مبتلا ہو گئے لیکن جس پارٹی نے سزا و جزا کا فیصلہ کرنا ہے، وہ ہماری تفہیم سے شاید متفق نہیں ہے۔
ابھی تک وہی حال ہے، اب سزا تو پا ہی لی ہے، ایمان بھی لے آو۔ افادی تو بڑے بنے پھرتے ہو۔
ارے سر جی، افادیت تو آپ جانتے ہیں حقائق سے منسلک ہو تی ہے۔ ویسے کاغذی طور پر تو ہیں ناں اہل ایمان اور کہتے بھی ہیں اور کہتے رہیں گے بھی۔ ابھی تو ہم سے اتنا ہی ہو پا رہا ہے۔کبھی ہوش و حواس کھو بیٹھے تو پھر شاید کوئی تبدیلی آ جائے۔ لیکن اس معاملے میں ایک تکنیکی خرابی بھی ہے؟
بھلا وہ کیا؟
یہ جو کاندھوں پر فرشتے بیٹھے ہوتے ہیں، یہ لگتا ہے جب ہم کوئی نیکی کرتے ہیں تو سوئے رہتے ہیں، اور کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو مقالوں کے مقالے لکھ دیتے ہیں۔
تو تم ایسا کیا کرو ناں کہ جیسی ہو کوئی نیکی سرزد ہو جائے تو انھیں لکھنے کا کہہ دیا کرو، لکھ اوئے، نیکی ہو گئی اے
یاد رکھنے کی کوشش کریں لیکن نیکی سرزد ہونے میں تاخیر بھی تو ہو جاتی ہے، ایسے میں کہاں یاد رہے گا۔
تو رشوت کا کوئی سسٹم فرشتوں کا بھی ہو گا؟
ہے ناں، پاکستانی ذہن فرشتوں کو بھی کرپٹ کرنے کی جگاڑ کر رہا ہے۔
تو تھے ناں وہ سدوم و گومارہ کے فرشتے
ہاروت و ماروت بھی
شاید اسی لیے فرشتے خفیہ کر دیے گئے ہیں کہ نہ نظر آئیں نہ انھیں کوئی کرپٹ کر سکے
تو دنیا میں بھی تو خفیہ والے ہیں، کرپٹ تو وہ بھی ہیں، کرنے کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں پڑتی
چھوڑو، کل رمضان مبارک شروع ہو جائے گا اور تم قید ہونے سے پہلے مجھے گم راہ کر کے ہی چھوڑو گے کہ تنہائی کم ہو۔
او سر جی، اب قیدیوں کا قحط نہیں ہے۔
اس کے بعد بات کا رخ جانے کیوں میڈیا، سوشل میڈیا اور یو ٹیوبرز کی طرف پھر گیا
اسے دیکھو، اس نے مذہب اور سائنس فکشن آمیزہ بنا کر اپنی دکان چمکا لی ہے۔
تکنیکیں وغیرہ سمجھتے ہیں ناں کہ بات حقائق سے دور ہو، اور کبھی حقائق کی ترجمانی بھی کرے تو شدید جذبات کا وفور بڑھائے، یہ توجہ کھنچتی رومانوی سی بات ہو، یا نفرت سے بھری خطرناک، یا بہت ہی گھٹیا بات۔ سوشل میڈیا فروغ ہی ایسی باتوں کو دے رہا ہوتا ہے۔
ہمیں بھی کرنی چاہیے تھی۔معاملات بہت سہل ہو جاتے۔ لیکن ہم سے دانشی بد دیانتی بھی تو نہیں ہوتی۔
لوگ کر لیتے ہیں اور اگر ہم کر بھی لیتے لیکن ہمارا یہ بھی تو مسئلہ ہے کہ بہت زیادہ لوگ بھی تو برداشت نہیں ہوتے۔ ایسی نوٹنکی کریں تو مداحوں کے ارد گرد ہجوم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے ایک جگہ چار پانچ اکٹھے ہو جائیں تو ہمارا دَم گھٹنے لگتا ہے۔
ھاھا یہ تو ہے لیکن باتیں لوگ بڑی عجیب کرتے ہیں۔ کل کوئی مجھے واصف علی واصف کا قصہ سنا رہا تھا کہ جناب لکھتے ہیں کہ شاہین اور گدھ آسمان اکٹھے پرواز کر رہے تھے کہ گدھ کو مردار نظر آیا تو گدھ نے کہا ہماری تو غذا آ گئی ، ہم تو چلے، اب خود ہی بتاو یہ باتیں بھی کوئی ہونے والی باتیں ہیں۔
وہ اصل میں گدھ کو پہلے نظر آ گیا، شاہین بھی تو مردار خور ہی ہوتا ہے، اس کو نظر آجاتا تو وہ گدھ کو بتائے بغیر ہی اس پر جھپٹ پڑتا۔ اور پھر شاہین اور مردار خور ہوتے ہیں، فرق بس ٹوہر ٹپے کا ہوتا ہے۔ شاہین مردار خوری کے بعد اطوار ذرا شاہانہ کر لیتا ہے۔
ھاھا، ویسے اس واصف علی واصف نے بڑی بے وقوفی کی باتیں لکھی ہیں۔ کبھی دل کرتا ہے تمھارے ساتھ مل کر ایک ایک سطر کا تجزیہ کریں، خود بھی ہنسیں، دنیا کو بھی ہنسائیں۔
تو پھر مولوی رومی سے ہی کیوں نہ شروع کریں؟
ارے یار، یہ واصف پر جھگڑ پڑتے ہیں، مولانا پر تنقید کہاں برداشت کریں گے۔
چلیں، ٹھیک ہوئے تو یہ پروجیکٹ کرتے ہیں۔اس پر وہ محبتیں، دعائیں اور نیک تمنائیں نچھاور کرنے لگے اور ہمارے بغیر تنہائی کے شاعرانہ شکوے کرنے لگے۔
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اور ہم بھی ادھر انھیں بہت مس کرتے ہیں۔ یہاں بھی ہمارا بہت سماں بہت سارے موضوعات پر کافی عالمانہ سی گفتگو کرتے ہوئے اور ہنسی ٹھٹھولی کرتے گزرا ہے۔
لیکن یار زندہ صحبت باقی۔
کچھ مشترک درد و غم کے قصے بھی چھڑے۔ ہم بہت آہ و زاری نہیں کر پاتے، پھر ہنسی ٹھٹھولی کرنے لگتے ہیں۔
اولاد اگر تیر طعنہ بنی ہوئی ہے تو قصور اپنا ہی ہے
وہ بھلا کیسے؟
ہم تو فانی تھے، ہمیں دیویوں سے بیاہ تو نہیں رچانے چاہییں تھے۔
ھاھا، یہ تو ہے اور اگلی نسل ہائبرڈ سی ہو گئی ہے
ایکلیز کی طرح اور ایکلیز سے کون لڑے۔