تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں

Raees Fatima aik Rozan
رئیس فاطمہ،لکھاری

تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں

رئیس فاطمہ

ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن، فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہے۔ بنیادی وجہ ’’مقابلے‘‘ کا رجحان ہے۔ دوسروں سے آگے نکلنے کی خواہش، آسائش اور تعیشات کی دوڑ نے لوگوں کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ ہمسایوں اور قرابت داروں سے مقابلے کی دوڑ اور حرص و ہوس نے ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ اشیائے خور و نوش سے لے کر استعمال کی چیزوں تک میں نقل کا رجحان مسلسل زور پکڑ رہا ہے۔ دن بہ دن نت نئے کھلتے ہوئے شاپنگ مالز اور سپر مارکیٹوں کا جال بچھا ہے۔ خریدار کم ہیں اور شاپنگ سینٹرز زیادہ۔

اب لوگ تفریح کے لیے باغات یا دیگر تفریح گاہوں پہ جانے کے بجائے شاپنگ مال کی طرف جاتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بہت بڑھ رہی ہے۔ ادھر تنخواہ آتی ہے ادھر قرضوں میں چلی جاتی ہے۔ عجب طرح کا معاشرہ پرورش پا رہا ہے جس میں صرف ظاہری شان و شوکت پہ زور ہے۔ طلاقوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ پہلے لڑکیوں کو ازدواجی زندگی کے لیے مائیں تربیت کرتی تھیں تاکہ بعد میں وہ کسی مشکل کا شکار نہ ہوں۔ آج معاملہ برعکس ہے۔

شادی کے بعد جب کچن کا راستہ بتایا جاتا ہے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ ’’مجھے تو چائے بنانا بھی نہیں آتی‘‘۔ کسی کو انڈا تک ابالنا نہیں آتا۔ کھانا پکانا تو دورکی بات۔ فخریہ اعلان کیا جاتا ہے کہ روٹی تو ان کے میکے میں ہمیشہ تندورکی آتی ہے۔ سحری و افطاری باہر کرتے ہیں۔ کھانے میں زیادہ تر جنک فوڈ سب کھاتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی گھر میں بھی کھانا پک جاتا ہے، لیکن دوپہر میں زیادہ تر بریانی سے کام چلا لیا جاتا ہے۔

شہر کے ہر گلی کوچے اور شاہراہوں پر پکوان ہاؤس، برگر، بن کباب، پیزا اورکباب پراٹھوں کی دکانیں اور ہوٹلوں کی قطاریں ہیں۔ بعض علاقوں کی پہچان ہی فوڈ اسٹریٹ کے نام سے ہوتی ہے۔ ناشتے اور شام کی چائے کے لوازمات الگ ہیں۔ رول، سموسہ، مٹھائی، پراٹھے بھی معدوں میں جانے کے لیے تیار ہیں۔گھریلو زندگی افراتفری اور انتشار کا شکار ہے۔ بچوں کی تعلیم کوچنگ سینٹروں میں ہو رہی ہے۔ تعلیمی لحاظ سے معاشرہ دو طبقوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک سرکاری اسکولوں والا، دوسرا پرائیویٹ اسکولوں والا۔یہ فرق جان بوجھ کر روا رکھا جا رہا ہے تاکہ مظلوم و محکوم رعایا کا وجود بڑھتا جائے۔

گاؤں، گوٹھوں میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مویشی پالے جاتے ہیں یا جاگیردار اور وڈیرے کی چوپال اور اوطاق۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق کراچی میں سرکاری اسکولوں کے صرف 15 طلبا ہی معروف کالجوں میں داخلہ لے سکے ہیں۔ یہ اے اور اے ون گریڈ کے طلبا و طالبات ہیں۔اندرون سندھ صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ مزید خرابی کوٹہ سسٹم نے پیدا کی ہے۔

اندرون سندھ کے ڈومیسائل کے حامل افراد کراچی میں بڑے اور چھوٹے دونوں عہدوں پہ بیٹھے موج اڑا رہے ہیں اور وہ بچے جنھوں نے کراچی میں جنم لیا، کراچی میں پڑھا، کراچی کے تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کیں وہ ڈگریاں لیے خوار ہو رہے ہیں۔ کیونکہ کوٹہ سسٹم نے انھیں دو دھاری تلوار سے قتل کردیا ہے۔ پی پی نے جی بھر کے اندرون سندھ سے کراچی میں ہر شعبے میں بھرتیاں کیں، یقین نہ آئے تو شعبہ تعلیم، سندھ سیکریٹریٹ، اے جی سندھ، اے جی پی آر، سرکاری اسکول اور کالجز کے علاوہ کسی بھی دفتر میں چلے جائیے صورتحال صاف نظر آجائے گی کہ کتنی دگرگوں ہے۔

رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر صوبائی حکومت نے اپنے چہیتوں کو خوب خوب نوازا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت میں شریک جماعت ایم کیو ایم نے بھی کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ ہر بار حکومت کو مطالبات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کرنے کے، جس میں زیادہ تر وزارتوں کا ذکر ہوتا تھا اگر صرف اور صرف کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی بات کی جاتی تو لوگ انھیں سر آنکھوں پہ بٹھاتے، نوجوان طبقہ خواہ لیاری کا ہو، ملیر کا ہو یا ناظم آباد کا سب فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اندرون سندھ یا پنجاب کے ڈومیسائل یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں نہ دی جائیں۔ ضرور دی جائیں لیکن میرٹ پر۔ کھلا مقابلہ ہو۔ جو مقابلے میں سرفہرست ہوں انھیں جاب دی جائے۔ افسران زیادہ تر ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے آنے سے پہلے ہی کمروں کو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے۔ صاحب آتے ہی آرام فرماتے ہیں یا ٹیلی فون پہ دوستوں سے گپ شپ کرتے ہیں۔ باہر درخواست گزاروں کے ہجوم کو کلریکل اسٹاف اور صاحب کا منہ چڑھا چپراسی۔ آتے جاتے سائلین کی طرف مختلف جملے پھینکتا جاتا ہے۔

’’صاحب میٹنگ میں ہیں، چائے پی رہے ہیں، لنچ کر رہے ہیں‘‘ اور پھر دفتر کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے۔ ’’کل آنا وقت ختم ہوگیا‘‘۔ چپراسی کا آخری جملہ ادا ہوتے ہی لوگ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے سارا دن خوار ہونے کے بعد اگلے دن آنے کو واپس چلے جاتے ہیں۔ تمام سرکاری محکموں میں کوٹہ سسٹم کی بدولت کارکردگی صفر ہے۔ کام کسی کو نہیں آتا۔ انھیں کیوں ملازم رکھا گیا ہے؟

انھیں بس یہ پتہ ہے کہ کسی وڈیرے، وزیر یا صوبائی اسمبلی کے ممبر کے پاؤں چھونے اور جھولی بھر رقم دینے کے عوض یہ نوکری انھیں ملی ہے۔ اسی لیے کسی بھی دفتر میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ ان ذہین نوجوانوں میں یہ ناانصافی دیکھ کر سخت احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، لسانی اور صوبائی نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔

میرٹ کس چڑیا کا نام ہے کوئی نہیں جانتا۔ کوٹہ سسٹم نے ہمیں ’’پاکستانی‘‘ نہیں بننے دیا ’’تم پیچھے سے کہاں سے ہو‘‘، ’’تمہاری مدر ٹنگ کیا ہے‘‘ جیسے رکیک سوالات پوچھ کر انھیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ نوکری ان کے لیے نہیں ہے۔ ایسے سوال برسوں سے پوچھے جا رہے ہیں۔ کوئی حکومت کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی بات نہیں کرتی، کیونکہ پی پی اور اس کی حلیف جماعتوں ہی کو نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو بھی یہ ایجنڈا سوٹ کرتا ہے۔ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی 70 سال سے جاری ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ جو جماعت سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم کرانے کا وعدہ کرے اور اسے وفا بھی کرے وہ جماعت ضرور ووٹ لے جائے گی۔ میرٹ کا قتل عام اور اقربا پروری جتنی کرکٹ میں ہے اتنی کسی دوسرے کھیل میں نہیں۔ سارا زور سارا پیسہ شہرت صرف اور صرف گیند بلے کے لیے۔ کرکٹ میں نام نہ بنا سکے تو کیا ہوا، آپ کے چچا، تایا، ماموں آپ کا نام قومی ٹیم میں تو ضرور ڈلوا دیں گے۔ پھر آپ کھیلیں نہ کھیلیں کم ازکم ٹی وی کے کسی گیم شو کے میزبان تو بن ہی جائیں گے۔ آخر فٹبال، ہاکی، باکسنگ اور دوسرے کھیلوں کے ساتھ سوتیلا پن کیوں برتا جاتا ہے؟ لیاری میں بہترین باکسر اور فٹبالر رہتے ہیں، لیکن قومی سطح پر ان کی محنت کو اس طرح نہیں سراہا جاتا جس طرح کرکٹ کو۔ یورپین فٹبال لیگز میں دیکھیں سیاہ فام نوجوان فٹبالرز نمایاں نظر آتے ہیں، آخر یہ امتیازی سلوک کیوں؟

چھوٹی چھوٹی محرومیاں جمع ہو کر کسی بڑے حادثے کا سبب بنتی ہیں۔ شاید ہمیں کسی بڑے سانحے کا انتظار ہے۔ کسی بڑے طوفان کا انتظار ہے جو اپنے ساتھ صوبائی و لسانی تعصب، ذات برادریاں اور اقربا پروروں کو بہا کر لے جائے۔ اب معجزے تو ہوتے نہیں البتہ طوفانوں کا خطرہ ہر دم ہے۔

بشکریہ: ایکسپریس اردو