تنقید ادبی سر گرمی کیسے بن سکتی ہے؟
از، محمد حمید شاہد
کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے نظم نگار دوست اور نقاط کے مدیر قاسم یعقوب نے مجھے فون کرکے اطلاع دی کہ وہ ایک سوال کچھ لکھنے والوں کو بھیج رہے، مجھے بھی بھیج چکے ہیں اور یہ کہ اس کا انہیں فوراً جواب چاہیے تھا۔ میں نے میل باکس سے سوال تلاش کیا، سوال میرے مطلب کا تھا ،اُسے فوراً جواب لکھ بھیجا ۔ ادھر سے وصولی کی رسید بھی مل گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اوروں نے کیا جواب لکھا تھا کہ ہمارے اس نوجوان دوست نے جو مرتب کیا، وہ تاحال کہیں چھپا نہیں ہے۔
خیرہفتہ بھر پہلے اُدھر بھارت سے نثار احمد صدیقی صاحب کا فون آیا، وہ مجھے ایک سوالنامہ بھیجنا چاہتے تھے۔ سوالنامہ ملا تو اس میں بھی ملتا جُلتا سوال شامل تھا۔ لہذاوہی جواب مدد کو آیا جو قاسم یعقوب کے لیے لکھا تھا۔ فکشن کے تنقیدی مباحث کی اس کتاب کا بتدائیہ لکھتے ہوئے بھی اگر مجھے اپنے اس نوجوان دوست کا سوال یاد آگیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ میں اسے بہت اہم سمجھتا رہا ہوں ۔ وہ سوال، جو پوچھا گیا کچھ یوں تھا:
’’تنقید کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟ آپ کے خیال میں تنقیدی تناظر میں کون سے نئے سوالات تنقید کو ادب میں ایک اہم سر گرمی بنا سکتے ہیں ؟‘‘
اس باب میں جو میرا جواب تھا ،عین مین نقل کیے دیتا ہوں:
’’یوں تو میں نے اپنے آپ کو فکشن لکھنے کے لیے وقف کر رکھا ہے ،اپنے لیے اسی کو زندگی کی اہم اور بنیادی سرگرمی سمجھتا ہوں، تاہم اس باب کے تخلیقی بھید بھنور جاننے اورآنکنے کے لیے نئے نئے تنقیدی سوالات کے مقابل ہوتا رہتا ہوں۔جن سوالات کے مقابل مجھے ہونا پڑتا ہے ان میں وہ سوال بھی شامل ہے ، جس کا جواب آپ طلب فرما رہے ہیں۔ بتاتا چلوں کہ تخلیقی عمل کی نرم گرم ٓآغوش میں رہ کر اس کے بھید بھنور کُھلتے ہوئے دیکھنا اور تخلیقی لمحوں کے جا چکنے کے بعد ذرا فاصلے سے اس سارے پراسس کا تجزیہ کرنا ، ہمیشہ ایک سے نتیجے پر نہیں پہنچاتا رہا ہے ۔ یہ تنقیدی حیلے ہی ہیں جو ان فاصلوں کو پاٹتے ہیں ،تخلیقی صورت حال کو دوسری اخذ کردہ صورت حال پر منطبق کرتے ہیں اورمنطق مارے ذہنوں کے لیے کچھ اصول وضع کیے چلے جاتے ہیں۔
خیر، سوال کی طرف آتا ہوں مگر تنقید کی موجودہ صورت حال کو جاننے کے لیے پہلے ہمیں اپنے تنقیدی سفر کو بھی ایک نظر دیکھ لینا چاہیے تب کہیں جاکر ہم ایک تناظر قائم کر سکیں گے اور اس کے لائق اطمینان ہونے یا نہ ہونے کی بابت کسی قسم کا تخمینہ لگا سکیں گے۔ جب بھی اردو تنقید کی بات ہوتی ہے، حالی اور آزاد کا ذکر ضرور ہوتا ہے کہ انہوں نے تخلیق پاروں کی فنی سطح کو آنکنے کے کچھ اصول اپنانے کی طرف راغب کیا اور ہم تذکروں سے آگے نکل پائے۔ اس حوالے سے ’’ مقدمہ شعرو شاعری‘‘ کا رول بہت اہم ہے ۔
اس باب میں امداد امام اثر کی’’ کاشف الحقائق‘‘ کو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے ۔ شبلی نعمانی کی ’’شعرالعجم ‘‘ بھی تذکرے سے آگے کی کتاب ہے ۔ ان تینوں کے ہاں مغرب سے اکتساب اور اپنے روایت سے جڑت ،دونوں کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس عہد کا تنقیدی عمل ،تخلیقی عمل سے جڑا ہوا اور نئے نئے سوالات قائم کرتا نظر آتا ہے جو آج بھی لائق اعتنا ہیں۔ اچھا آگے چلیے ۔ ترقی پسندی کے عروج والے زمانے میں اور اس کے پہلو بہ پہلو حلقہ ارباب ذوق کا موجود ہونا ۔ ترقی پسند تحریک کے مقاصد سیاسی اور غیر ادبی سہی مگر جہاں کہیں اور جب جب وہ تخلیقی عمل کے تابع رہے ان کی ترقی پسندی ادب کا جوہر بنی اور جہاں کہیں تحریکی تقاضے تخلیقی عمل میں رخنے ڈالنے لگے وہیں وہیں مقصدیت اور نعرے بازی نے ادب کو ادب نہ رہنے دیا ۔ مجھے یادپڑتا ہے کہ ایک موقع پر فیض احمد فیض نے فرمایا تھا :
’’موضوع بغیر خوبیء اظہار کے ناقص اور اظہار خوبی موضوع کے بغیر بے معنی ہے ۔ ‘‘
اچھا آپ اس سے جزوی طور پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ کسی خاص موضوع کا پابند ہوئے بغیر کسی صورت حال کی فنی سطح پر کامیاب تظہیر یا پھر حسی لہروں کی تحریک کو گرفت میں لانے والے تخلیقی متن کوادب سے نکال باہر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ذرا خود اندازہ لگائیں کہ جب منٹو، عسکری، ممتاز شریں، وغیرہ جیسے لکھنے والوں کو ’’ادب لطیف‘‘،’’نقوش‘‘ اور ’’سویرا‘‘ جیسے پرچوں میں نہیں چھپنے دیا جا رہا تھا تو نقصان کس کا ہوا۔ خیر ،واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسند بھی تخلیقی عمل کی برتری کے قائل ہوئے لہذاا نہیں تخلیقی عمل سے جڑنا پڑا اور اسی سے انہوں نے وقعت پائی۔ حلقہ ارباب ذوق والوں کا معاملہ تو ادب سے باہر کا تھا ہی نہیں ۔ میراجی، راشد جیسے لوگ اگر نئی نظم کے حوالے سے لائق اعتنا ہیں تو ان کو تخلیقی عمل سے جڑ کر تنقیدی فیصلے کرنے والے بھی کہا جا سکتا ہے۔ شب خون ،فنون اور اوراق نے اپنے اپنے قارئین کے الگ الگ دائرے بنانے کے جتن ضرور کیے مگر شمس الرحمن فاروقی ، احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا ، سب بنیادی طور پر تخلیق کار تھے لہذا ان کا مسئلہ تخلیق رہی ہے ۔
ہمارے ہاں قاسمی صاحب طبقاتی رویوں کی طرف اور وزیر آغا کچھ زیادہ گہرے اور گھمبیر فلسفیانہ سوالات کی طرف نکلے ،ضرور نکلے مگر بالعموم ادب کے تخلیقی علاقے میں ہی رہے۔ اس کے بعد کے زمانے میں تنقید کے حوالے بہت بے چینی دیکھنے میں آتی ہے جدید اور مابعد جدید تنقید میں ہمارے ہاں بہت کام ہوا ۔ گوپی چند نارنگ سے لے کربہ طور خاص مجھے ناصر عباس نیر کا ذکر کرنا ہے ۔ تاہم میں ایک تخلیق کار کے طور پر سمجھتا ہوں کہ لگ بھگ گزشتہ پچیس تیس سال میں ،تخلیق اور تنقید میں وسیع بعد پیدا ہوا ۔ ہمارا سارا زور نئی تنقید کو سمجھنے ، اس کی اصطلاحات کی ترجمہ کاری، ان اصطلاحات کی تشریح اور تھیوریوں کو سمجھنے اور سمجھانے صرف ہو گیا اور وہ رشتہ جو تخلیق اور تنقید کے درمیان ہونا چاہیے تھا وہ ٹوٹ گیا/ قائم نہ ہوا تاہم کچھ عرصے سے صورت حال بدلی ہے ، خود ناصر عباس نیر کے ہاں ایسے مضامین تواتر سے نظر آنے لگے ہیں کہ جی خوش ہوتا ہے۔ پھر ہماری نسل کے تخلیقی سطح پر متحرک لوگ بھی تنقیدلکھ رہے ہیں نئے لوگوں میں آصف فرخی، مبین مرزا، ضیاالحسن،امجد طفیل سے لے کر قاسم یعقوب تک ایک ناموں کا ایک سلسلہ ہے جن کا کام متوجہ کرتا ہے ۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتا ہوں ۔ تنقید کو اگر ادب کی سرگرمی بننا ہے اور محض لسانی یا فلسفیانہ سرگرمی نہیں رہنا تو بہر حال تنقید کو اپنی خود ساختہ خود مختاری سے دست کش ہونا ہوگا ، جی میں ایسی خود مختارتنقیدی ریاست کی بات کر رہا ہوں جس میں ادب کو ویزہ لے کر داخل ہونا ہوتا ہے ۔خیر ماننا ہوگا کہ تنقید تخلیقی تجربے کو آنکنے کے عمل میں اس سے دو قدم آگے نکل کر بسا اوقات اس کی رہنمائی بھی کرنے لگتی ہے۔
تخلیقی ادب میں اس وقت سب سے اہم اور بڑا سوال، جو اس کا موضوع ہو رہا ہے ،وہ نوع انسانی اور اس کی تہذیبی روایات کی بقا کاہے۔ اگرچہ ادب میں فن پارے کو خود مکتفی سمجھنا کیٹس سے لے کر ایلیٹ اور ایذراپاؤنڈ تک دیکھا جا سکتا ہے مگر رولاں بارت تک آتے آتے ، جس طرح تخلیقی متن کی تہذیبی لامحدودیت پر قدغن لگائی گئی ہے اور اسے قاری کے فکری انتشار کا آسان شکار بنا دیا گیا ہے ،اُس نے تخلیقی سطح پر انسانی وجود اور روایت کے تسلسل کے امکانات پرسوالات قائم کر دیے ہیں ۔ مثلاً دیکھئے نئی تنقید تخلیقی متن میں معنی کو غیر متعین جان کر اس کی نامیاتی وحدت سے کوئی سروکار نہیں رکھتی رہی ہے یہی سب ہے کہ تخلیقات کی نیوکلس میں موجود بنیادی سوالات کووہ اہمیت نہیں دی جاسکی ہے جو یکجا ہوکر ادبی سوالات بنتے ہیں۔
تنقید کابنیادی وظیفہ یہی ہوتا ہے کہ وہ روح عصر کو تخلیقی متون سے دریافت کرے۔ ایسا متن کی توضیح ہی سے ممکن ہے محض اور صرف قرآت کے نئے تصوارات رائج کرنے سے ایسا نہیں ہوگا۔اچھا ،تنقید کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ادب محض بین المتنی مظہر نہیں ہے۔ انٹر ٹیکسچوئیل کی تشریحات میں ہم ادب کے بنیادی وظیفے سے بہت دور ہو گئے ہیں ۔ بجا کہ ایک متن کا رشتہ دوسرے متن سے قائم کیا جا سکتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ دونوں متون کا بنیادی فرق جس سے قائم ہوتا ہے وہ دو الگ تخلیق کاروں کی توفیقات ہیں ۔ ایک ہی موضوع پر لکھنے والے اگر اپنے اپنے تخلیق پاروں کو یکسر مختلف سطح عطا کر دیتے ہیں تو تخلیق کار کو اور جس زمانے میں وہ تخلیق پارہ وجود میں آتا ہے ،دونوں کو فن پارے سے الگ کیوں کر کیا جا سکتا ہے ۔ ہماری تنقید کو ایک بار پھر تخلیقی متن اور غیر تخلیقی متن پھر تخلیقی متن کے تعیین قدر کے سوال کو بنیادی سوالات میں سے ایک سمجھنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہماری تنقید بھی ادبی سرگرمی بن جائے گی ۔‘‘
تب، بس اتنا ہی کہہ پایا تھا، اور اب بھی اس پر کچھ اضافہ نہیں کرنا سوائے اس کے کہ یہ مضامین بھی تنقید کومحض لسانی اور فلسفیانہ مشغلے کی بہ جائے خالص ادبی سرگرمی بنانے اور اسے تخلیقی عمل کے مقابل ہونے پر مائل کرنے کی ایسی کوششیں ہیں جو کئی برسوں سے میں اپنے تئیں کرتا آیا ہوں۔ امید ہے ، ’’ادبی تنازعات‘‘،’’اردو افسانہ :صورت و معنی‘‘،’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘اور’’سعادت حسن منٹو:جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ‘‘ کی طرح میری یہ کتاب بھی آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
(انتخاب از ’’اُردو فکشن: نئے مباحث)
In my opinion, genuine criticism is always a creative practice in its own right. Criticism is not just interpretation and explanation rather it is a kind of re-writing in which a text is re-created using different critical tools. Secondly, I would disagree with the writer that there exists such a thing as ‘literature for literature sake’. It has been demonstrated that literature is an ‘ideological’ practice and a writer, consciously or unconsciously, reflects the dominant ideologies of the age in his writings. Literature constructs and deconstructs ideologies and a critic should be attentive to this function of literature. A piece of criticism with this kind of focus is also a ‘creative practice’.