تقدیر کے قاضی اور کچھ میوزیکل سوالات
نصیر احمد
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضیعفی کی سزا مر گ مفاجات
علامہ اقبال
شعر تو علامہ کا ہے لیکن علامہ کہتے ہیں بات ابوالعلا معری کی ہے۔ کہتے ہیں معری سبزی خور تھا لیکن کسی دن کوئی بے چارہ مرغ سامنے آ گیا ، تو اس نے علامہ کے مطابق اوپر درج جواز گھڑا اور مرغ ہڑپ کر گیا۔ اس بات کا کھوج لگانا تو بہت مشکل ہو گیا ہے کہ معری نے واقعی ایسا کچھ کہا کیونکہ صدیوں پہلے کی بات ہے اور اس طرح کے واقعات کی سچائی کا پتا لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ہمیں کچھ یاد آتا ہے، معری کچھ زندیق بھی تھا اور کچھ سیانا بھی، اور آپ تو جانتے ہی ہیں، سیانے زندیق اپنی حرکتوں کا کوئی جواز گھڑ ہی لیتے ہیں۔مرغ دیکھ کے بیچارے سے رہا نہ گیا ہو گا ، بعد میں فلسفے جھاڑنے لگا، لیکن نظم میں شاہین کی موجودی بتلاتی ہے، علامہ نے واقعے کی تفسیر کے ساتھ کچھ واقعے کے ساتھ تخلیقی تجربہ بھی کیا ہے،جو کہ اچھی بات ہے۔
لیکن بات بھی دیکھنا ضروری ہوتا پے، کس نے کہی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے اور بات یہ ہے بڑھاپے اور کمزوری کے نتیجے میں اچانک موت ہو جاتی ہے لیکن بات کے ارد گرد جو ڈراما ہے، وہ علمی قسم کی زیادتی ہے، اب علامہ نے کی کہ معری نے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ تقدیر کے قاضی کے ازلی فتووں سے محرمی، یہ تو بڑی بناوٹ کی بات ہے کہ تھوڑی سی عمر میں ارادہ ازلی سے آگاہ ہو جانا، اور اس بنیاد پر تقدیر کے قاضی کو ایک منفی طور پر پیش کرنا، یعنی کمزوری یا ضیعفی کے نتیجے میں زیادتی کو تقدیر کی رضا قرار دینا، اب زیادتی کی تائید کرتی تقدیر سے سمجھوتا کرنا تو زیادتی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، بچے ، بوڑھے، بیمار، معذور، سب ضیعف ہی ہوتے ہیں، تو سب کے ضعف کو توانائی کی وجہ بنانے کے لیے انھیں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟کم از کم لوڈ شیڈنگ تو کم ہو گی؟
ہم نہیں پگلائے، بات کا نتیجہ ہی یہی نکلتا ہے،ہٹلر نے اور کیا کیا تھا؟ طاقت کے ناجائز استعمال کو تقدیر کا فتوی قرار دیا تھا، سٹالن نے اسی فتوے کو تاریخ کا ازلی ارادہ قرار دیا تھا اور لاکھوں کروڑوں کی جانیں ضائع ہو گئیں اور درد و اندوہ کا بھی اسی وقت پتا چلتا ہے، جب کسی ستمزدے سے ملاقات ہوتی ہے۔ پھر یہ سب کچھ اپنے اصلی روپ میں نظر آتا ہے اور تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اب معری کے تیتر کے لیے جگ تے جہان اجاڑنے دیں؟ پگلا گئے ہو کیا؟ لگتا ہے معری کو تقدیر کے قاضی سے کچھ اتنی واقفی نہیں تھی اور علامہ بھی شاید ہم آپ سے کچھ زیادہ ہئ نادان تھے۔
دوسرے ضیعفی جرم تب ہوتی ہے، جب افراد اور معاشرے اسے جرم قرار دیتے ہیں، ورنہ ضیعفی زندگی کا ایک حصہ ہے، جس کے ناجئز فائدے اٹھانے والے معاشرے اور افراد گنوار بھی ہوتے ہیں اور ظالم بھی۔
خلیفہ دوم کے ضیعفوں اور غریبوں کے لیے وظائف کا ہم سب لہک لہک کر ذکر کرتے ہیں اور بنتا بھی ہے کہ فلاحی ریاست کی کے سلسلے میں ان کے یہ اقدامات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی اس طرف بھی توجہ ہو کہ یہ جرم ضیعفی والی بات مذہبی نہیں ہے، معری نے پتا نہیں کہی یا نہیں کہی، علامہ مذہب کو اپنے افکار کے ساتھ کنفیوز کر رہے ہیں۔جب آپ خدائے رحیم کہتے ہیں، تو یہ کاملیت پرست بات خود بخود ہی غلط ہو جاتی ہے۔
باقی ملکی اس بات کو مذہبی مانتے ہوئے شاید سچا سمجھتے ہیں، کم از کم ضیعفوں، غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں اور جس سکیل پر ہوتی ہیں، اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن اس بات کی سچائی کا نہ علامہ کا پاس کوئی ثبوت ہے، نہ معری کے پاس، نہ ہٹلر کے پاس، نہ سٹالن کے پاس۔ یہ فکر و عمل کی منافقت اور سستی اور حرص و ہوس کی بات ہے، ہمارے اندازے میں مذہبی بھی نہیں ہے اور اگر ہے، تو مذہب کا دفاع نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ایک اور بات بھی ہے، کنار رکن آباد و گلگشت مصلا کی بات، زندگی سے ، محبت سے، تجربے سے، علم سے جڑی ہوئی بات، خواجہ کی یہ بات، جب سے ہم ملک میں لوٹے ہیں، دہراتے ہی رہتے ہیں۔
دایم گل این بستان شاداب نمیماند
دریاب ضعیفان را در وقت توانایی
کہ طاقت ہمیشہ نہیں رہتی، جب پاس ہو تو ضیعفوں کا خیال رکھو۔
خود دیکھ لیں، خواجہ کی بات وہی ہے جو خلیفہ دوم کے ضعیفوں کی فلاح کے لیے اقدامات ہیں اور جو اقدامات دنیا بھر میں جمہوری فلاحی ریاستیں کرتی رہتی ہیں۔ اور دنیا کے اچھے لوگ طاقت کا یہی استعمال کرتے ہیں ورنہ یاسیت رہ جاتی ہے اور کاملیت پرستوں کے گھناؤنے جرائم۔