تقسیم کا منٹو اور طارق علی کا قلق
آصف فرخی
اس طرح نہیں۔
اس نے ایسا تو نہیں چاہا تھا۔ اس کے اندیشے دُرست ثابت ہوتے جارہے ہیں۔
ہزاروں من مٹّی کے نیچے بھی جہاں وہ اپنی ختم نہ ہونے والی تخلیقی بے چینی میں سوچتا رہتا تھا کہ سعادت حسن منٹو بڑا افسانہ نگار ہے یا خُدا ____ لیکن وہ ایسا کیوں سوچتا تھا؟ اسے تو پہلے ہی معلوم تھا، معلوم نہ ہوتا تو وہ یہ سب پھر کیسے لکھتا؟ ____ اس نے خُدا کی لکھی ہوئی زندگی میں عمر بسر کی، اپنے افسانے میں نہیں۔ مگر خدا کی اس زندگی کو اپنے افسانے کے مطابق ایک الگ طور سے دوبارہ لکھ دینے کی پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔
اس نے اپنی زندگی کی شرائط خود طے کر دیں۔ زمانے کی روش کے برخلاف اس کی زندگی کی جدوجہد یہ نہیں تھی کہ اس کے اپنے زمانے یا بعد میں آنے والے زمانوں کا ادبی وسماجی اشرافیہ اسے کسی نہ کسی طرح قبول کرلے۔ اس کے بجائے وہ ان کو زہرخند کا نشانہ بنائے گیا، زندگی گزارنے کے اپنے ڈھنگ سے لے کر افسانوں کے موضوعات تک ایسے عناصر کو سینے سے لگائے رہا جو دوسروں کے لئے ناپسندیدہ بلکہ ناقابلِ برداشت تھے، ناقابلِ معافی۔
اپنے اس انتخاب کی قیمت اس نے دی۔ ایک مقام پر آکر وہ رنج وغم سے چیخ اٹھا اور غیرافسانوی مضمون جیسے پیمانے کی طرح چھلک اٹھا مگر اس نے مفاہمت نہ کی۔ مرتے دم تک، اور شاید موت کے بعد بھی اسے اس عذاب سے نجات نہیں حاصل ہوسکی۔ اس نے شکایت کی تو ساتھ ہی یہ خدشتہ بھی ظاہر کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو، مت کے بعد اسے عزت واحترام کی کسی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ خود اس کے الفاظ میں ڈرائی کلین کرکے رحمت اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دیا جائے۔ اس طرح کا سلوک ایسے اقبال کے ساتھ بھی گوارا نہ تھی۔ وہ اس سلوک کے خلاف جیتے جی اپنا احتجاج درج کرایا گیا تھا۔ اس نے اپنے افسانے میں اپنے لیے عزّت وتکریم کا ایسا کوئی مقام نہیں تحریر کیا تھا۔ یہ کہانی ایسا رُخ اختیار نہ کرلے۔ اس کی پوری روک تھام کا بندوبست اس نے کر لیا تھا۔
اس طرح کا سلوک اسے راس نہیں آتا تھا کہ پڑھے بغیر احترام کے درجے پر فائز کردیا جائے۔ اگر منٹو آج بھی کسی عزّت کا متقاضی ہے تو پڑھے جانے گا۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ اس کا افسانہ آج بھی برمحل اور مناسب ہے۔ اور شاید اسی لیے زمانہ اس کو نہ پڑھنے، نہ سمجھنے کے لیے نت نئے بہانے تلاش کررہا ہے۔ ان نئے بہانوں میں خود اس کا ایک نمائشی مطالعہ بھی شامل ہے۔
ایسا مطالعہ جو منٹو سے منٹو نکال کر کیا جائے، اردو تنقید میں وقتاً فوقتاً پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن اب منٹو کی صد سالہ سالگرہ کے ہنگام میں یہ تماشا ایک نئے طمطراق اور اہتمام کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ اس طرح کی ’’برائے موقع‘‘ تحریروں میں ایک الگ رنگ ڈھنگ کے منٹو سے متصادم ہوتے ہوئے مجھے ڈبلیو بی ژیٹس کی وہ بے مثال سطریں یاد آنے لگتی ہیں جہاں وہ اپنے گناہ بھلا دینے والے، گنجے سروں والے علماء کی شکایت کررہا ہے کہ وہ تخلیق کار کا کرب کیا جانیں:
Lord, what would they say
Did their Catallus walk that way?
اوہ نو، می لارڈ! نہ کیٹلس اس طرح چلا اور نہ سعادت حسن منٹو کی یہ روش رہی۔ آپ بندہ نواز کیا جانیں۔
اس نوع کے ’’فیاضانہ‘‘ سلوک کے بے زاری کے باوجود منٹونے ایک طرح کی عزّت واحترام حاصل نہیں کیا تو ایک اور طرح سے ’’فیشن‘‘ میں ضرور آگئے ہیں جو خود منٹو کو تو ایک آنکھ نہ بھاتا لیکن ان کے یہ نئے دل دادگان بہرطور ان کو موقع بے موقع یاد کرتے رہتے ہیں اور اپنے جاری وساری کھیل تماشے میں ان کا نام لے کر پکارے چلے جاتے ہیں۔ پھرچاہے ان مُریدانِ منٹو کا مکالمہ کتنا ہی باسی تباسی کیوں نہ ہوں، ہمیشہ خالی پیٹ رہنے والا میڈیا اس کو جلدی سے ہڑپ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو، منٹو جو ہے ____ جس کا نام اچھی انگریزی میں بھی ادا ہو جاتا ہے۔ رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔
اچھے وقت میں کم اور بُرے وقت میں منٹو کو زیادہ یاد کرنے والوں میں جناب طارق علی کا نام بھی لیا جاسکتا ہے کہ یہ معروف صحافی اور حالیہ ناول نگار منٹو کو ایسے مواقع پر ضروردھیان میں لاتے ہیں جب اخبار میں سُرخی اچھی طرح سے جم جائے۔ منٹو کی اس صد سالہ سالگرہ پر وہ کیوں نہ بولتے جو ان کے بقول لاہور میں منٹو کے دوست اور مداح خاموشی کے ساتھ منا رہے ہیں، کوئی سرکاری تذکرہ یا پہچان نہیں، اس لیے کہ ’’منٹو تقریباًایک غیرشخص (non- person) بن چکا ہے۔‘‘
خدا جانے اس سناٹے کا احساس طارق علی صاحب کو کیوں کر ہوگیا جب کہ وہ خود منٹو کے بارے میں بول رہے ہیں اور بیچ کھیت بول رہے ہیں۔ سرکاری اعزاز سے منٹو کو خوشی ہوتی، نہ اس کی انہیں ضرورت ہے۔ سرکار کے لیے قابلِ قبول یا منظورِ نظر بن سکنے والا منٹو ____ اگر دائرہ امکان میں آسکے ____ تو خود سرکار کے لیے باعثِ شرم ہوگا۔ پھر ایسا پَرنُچا، ہاتھ پاؤں ٹوٹا ہمارے کس کام کا جب کہ منٹو کے قاری ثابت وسالم کو پڑھ سکتے ہیں، سراہ سکتے ہیں۔
طارق علی کے لئے وہ بھلے کو تنِ بسمل ونیم جاں ہو جسے وہ مصنوعی تنفّس کے ذریعے دوبارہ جی اٹھنے کا سامان کررہے ہوں، عام قارئین کے لیے منٹو کسی بھی طرح شناخت سے محروم و نامشخّص نہیں ہوسکا۔ پچھلے سال فیض صدی کے موقع پر سارا زورِ خطابت فیض کی ’’شخصیت سازی‘‘ بلکہ image-building پر رہا بجائے اس کے کہ ان کی شاعری کو معنی آفرینی کے کسی نئے عمل سے گزارا جاتا۔ مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کی خطابت منٹو پر صرف نہ ہو لیکن مجھے اطمینان ہے کہ منٹو کہیں زیادہ brittle ہے، اسے اتنی آسانی سے ’’پیاری، عظیم شخصیت‘‘ (یہ الفاظ شاہد احمد دہلوی کے ہیں جو انہوں نے کسی اور کے لیے ادا کیے تھے) کے سانچے میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔
منٹو کو یاد کرنے کے لیے کسی جشن کی ضرورت ہے نہ بہانے کی۔ منٹو خود ایک جشن ہے، زندگی کا اور افسانے کا جاری وساری جشن جس کی رونق میں کمی نہیں آئی۔ طارق علی کو قلق ہے کہ وہ منٹو کو ا س کی زندگی میں دیکھ نہ سکے۔ پھر وہ منٹو کی شبیہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں منٹو کی آنکھیں ذہانت اور شوخی سے چمک رہی ہیں، طنز کررہی ہیں، ’’اخلاق کے ٹھیکے داروں، سیاست کے پہرے داروں اور ترّقی پسند ادیبوں کی جماعت‘‘ کے اوپر۔ ان کی یہ بات تو کسی نہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ ’’اس زمانے کے ادبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائیاں منٹو کی سوانح حیات کا مرکزی حصّہ بن گئیں۔‘‘ مگر ظاہر ہے کہ اس جنگ سے پہلے اور بعد میں بھی، اس ہنرمندانہ انفرادیت کی طرف نہیں آتے، کہیں اور مُڑ جاتے ہیں۔
مُڑ کے وہ اور کسی طرف جا بھی کہاں سکتے ہیں۔ بس ایک تقسیم کے سوا۔ وہ جس راستے سے بھی نکلیں ادبدا کر تقسیم تک پہنچتے ہیں اور پھر وہیں پہنچ کر رُک جاتے ہیں جیسے ان کی منزل مقصود آگئی ہے۔ طارق علی کا معاملہ بھی اسی قدر ہے۔ ان کی رسائی کی کمند یہیں پہنچ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ مضمون کے تیسرے ہی پیراگراف کو وہ یوں شروع کرتے ہیں:
It was the partition of India 1947 along religious lines that formed his [i.e., Manto’s] own attitudes and those of his numerous detractors.
یعنی مضمون اٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ تقسیم کی بلّی منٹو کے تھیلے سے باہر آگئی۔ اب یہ دلیلیں کون دے کہ تقسیم کے وقت منٹو ایک مستحکم افسانہ نگار تھے جن کے ادبی وفنّی روّیے واضح ہو کر شکل پذیر ہو چکے تھے۔ یہ ضرور ہوا کہ تقسیم کے بعد انہوں نے اپنے ادبی سفر میں مزید ریاضت کی نئی منزلیں ضرور طے کیں، جیسا کہ کسی بھی حسّاس اور باشعور فن کار کے ساتھ ہو سکتا تھا اور جیسا کہ منٹو کے کئی معاصرین کے ساتھ بھی ہوا۔ لیکن یہ بحث کون سُنے، طارق علی کو تقسیم کے ساتھ منٹو کو نتّھی کردینے کی اس قدر جلدی ہے کہ وہ اپنی ہی بات سے آگے نکلنے لگتے ہیں۔ اور یہ باور کرانے لگتے ہیں کہ منٹو کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے1947ء کے بارے میں لکھا۔ کیا واقعی؟ محض اتنا، اور بس؟ طارق علی لکھتے ہیں:
’’1947ء کی بربریت معروف تھی مگر کم ہی لوگ اس کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے تھے۔ ایک اجتماعی صدمے نے بیش تر لوگوں کو خاموش کر دیا تھا۔ مگر منٹو کو نہیں۔۔۔‘‘
یہ اور بات ہے کہ تقسیم کے بارے میں قلم اٹھانے والوں میں منٹو سب سے زیادہ متاثر کن یا ناقابلِ فراموش ہے مگر اس موضوع پر الغاروں لکھا گیا ہے اور ڈھیروں ڈھیر کتابیں لکھی گئی ہیں، نہ جانے کیا بات ہے کہ طارق علی کو ان گاڑی بھر کتابوں کی خبر نہیں ملنے پائی۔ سماجی علوم میں ’’پارٹیشن اسٹیڈیز‘‘ باضابطہ اختصاصی مطالعے کا موضوع بن چکا ہے مگر منٹو کی اختیار کردہ صنف افسانے میں معاملہ ایسا نہیں ہے۔
حال ہی میں ہندوستان سے پروفیسر الوک بھّلا کی انتھولوجی Stories about the Partition of India کا نیا ایڈیشن چھپ کر آیا ہے جو چار ضخیم حصّوں پر مشتمل ہے اور اس میں ہندی، پنجابی، بنگالی کے علاوہ اردو افسانے اتنی بڑی تعداد میں شامل ہیں کہ ان کو کسی طرح خاموشی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اردو میں ممتاز شیریں کا مرتّب کردہ ’’ظلمت نیم روز‘‘ اور انگریزی میں پروفیسر محمد عمر میمن کا انتخاب پہلے ہی شائع ہوچکے ہیں۔ فاضل مضمون نگار چاہتے تو ان کو دیکھ بھی سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے خود ہی لکھا ہے:
In these bad times when the fashion is to worship accomplished facts, real history tends to be treated as an irritant, something to be swatted out of existence like mosquitoes in summer…….
فقرے کی اٹھان اچھی ہے۔ کون اس کی داد نہ دینا چاہے گا، اس کے باوجود کہ ان کی بات خود اپنے ہی خلاف جا پڑتی ہے۔ مگر اس بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اس لیے کہ اتنا کہہ کر وہ پھر تقسیم پر رواں ہو جاتے ہیں، کیسا منٹو اور کہاں کا منٹو، وہ بس رہ رہ کر یاد آتا ہے کہ اس موضوع کی طرح آنے کے لیے آغاز اس سے کیا تھا۔ تقسیم کے بارے میں طارق علی نے جو باتیں اٹھائی ہیں، وہ مضمون کی حد تک اچھی ہیں اور ان میں سے کئی ایسی ہیں کہ جس کی تفصیل میں جانے کو جی چاہتا ہے۔ مضمون کا بیش تر حصّہ تقسیم کے بارے میں ان خیالات پر مشتمل ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل دل چسپی کا مرکز بھی یہی ہے۔
منٹو کے ذریعے سے وہ ان نکات کی مثال تلاش کرلیتے ہیں جو تقسیم کے بارے میں ان کو اٹھانے ہیں۔ یوں منٹو کے افسانوں سے ایک اچھا، پُرسہولت شارٹ کٹ مل جاتا ہے کہ جس پر سے گزر کر سیاسی تجزیے کی طرف آنا ممکن ہو جاتا ہے۔ افسانہ بیچ میں رہ جاتا ہے تو رہ جائے۔ افسانے نے مضمون نگار کو وہاں تک پہنچا دیا جہاں اسے پہنچنا تھا۔ پہنچی وہیں پہ خاک۔۔۔ افسانے کی اس کے علاوہ اور ضرورت بھی کہا ہے؟
تقسیم سے منٹو کے مطالعے کو اس طرح شروع کیا جائے یا یہ مطالعہ گھوم پھر کر تقسیم پر آکر رُک جائے تو پھر منٹو کے ساتھ گھپلا ہونے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم کا حوالہ اہم اور بڑا ہے مگر مرکزی یا واحد حوالہ سمجھ لیا جائے تو پھر منٹو پُرزہ پُرزہ ہوکر رہ جاتاہے۔ ایسی کہانی جو درمیان سے سنائی جارہی ہے۔ تقسیم کو موضوع بنانے والی تحریریں اتنی پُراثر اور زور دار ہیں کہ بعض لوگ منٹو کے باقی دوسرے پہلو نظر انداز کر جاتے ہیں یا ان سے واقف ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.