تقسیم کی خونی لکیر
خضرحیات
اگر تقسیم کی لکیر کھینچنے کے لیے برطانوی وکیل سرل ریڈکلف سے زیادہ سمجھدار بندے کو مقرر کیا جاتا یا کم از کم ریڈکلف کو ہی یہ باور کرا دیا جاتا کہ بھائی صاحب عُجلت کی چنداں ضرورت نہیں، آپ تسلی سے تحقیق کرنے اور مقامی جغرافیائی و معاشرتی حالات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی کسی فیصلے پر پہچنیں تو بہتر ہوگا۔ ٹیک یور ٹائم مَین۔ اور اگر ایسا ہو جاتا تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ حالات اس قدر افسوس ناک صورت حال نہ اختیار کرتے۔ اگر بٹوارے کی لائن لگانے کے لیے بہتر طور پر منصوبہ بندی کر لی جاتی تو تقسیمِ برصغیر کا دیا ہوا پھَٹ کم سنگین نوعیت کا ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اب تک یہ پھَٹ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہوتا۔
قائداعظم اور گاندھی دونوں کو لگ رہا تھا کہ تقسیم بہت معمولی سا کام ہے، اصل کام تو انگریزوں کو راضی کرنے والا تھا جو کہ ہو گیا ہے اور اب تو یوں سمجھیں کہ اونٹ گزر گیا ہے بس دُم گزرنا باقی ہے۔ دونوں خوش گمان تھے کہ تقسیم کے بعد بھی آسانی سے ایک دوسرے کے ملکوں میں آیا جایا کریں گے، نو ہارڈ فیلنگ ٹائپ احساسات تھے دونوں رہنماؤں کے مگر یہ فی الحال کسی کو بھی نہیں اندازہ تھا کہ عنقریب ایک خونی لکیر کھینچی جائے گی جو ایسے تمام خوابوں کا خون کر دے گی۔ اور وہی ہوا ریڈکلف کے بٹوارے نے ایسی گڑبڑ شروع کی کہ آج 70 سال گزرنے کے باوجود بھی اس ڈبے میں پٹاس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی جس میں ریڈکلف نے جلتی ہوئی دیا سلائی پھینک دی تھی۔ وہاں آج تک پٹاخے چل رہے ہیں۔
تقسیمِ برصغیر کے باب میں کوئی چیز اگر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے تو وہ یہی ریڈکلف کی لکیر ہے جس نے ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دیا اور سات سے دس لاکھ لوگوں کو جان گنوا کر آزادی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ مجرمانہ غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 14 اور 15 اگست گزرنے کے باوجود ابھی تک تقسیم کا منصوبہ حتمی صورت نہیں اختیار کر سکا تھا یا یوں کہیں کہ ابھی تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ یوں لاکھوں لوگوں نے یہ جانے بغیر کہ وہ کس ملک کا حصہ ہیں، جشن آزادی منایا۔ ابھی تک کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ لاہور پاکستان میں آئے گا یا بھارت کا حصہ بنے گا۔ اور پھر جب یکدم 17 اگست 1947ء کو یہ منصوبہ منظرعام پر آیا تو ایسی بھگدڑ مچی جس نے انسانیت کو اپنے قدموں تلے روند کے رکھ دیا۔ اسی جلد بازی نے ایسی فضاء پیدا کردی کہ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے مسلمان، ہندو اور سکھ راتوں رات ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔
ستم یہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کی جان لینے کا سہرا انہیں لوگوں کے اپنے سر جاتا ہے جو مدتوں سے اکٹھے رہتے اور ایک ساتھ کھاتے پیتے آئے تھے۔ جن کی فصلیں سانجھی، تہوار سانجھے، دکھ سکھ سانجھے، زندگیاں سانجھی تھیں وہی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ‘خوف انسان کو پگلا دیتا ہے’۔ یہ خوف ہی تھا جس نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا تھا اور یہ وحشت ہی تھی جس نے بھائی کو بھائی کے سینے میں پھالا، نیزہ اور کرپان اتارنے کا حوصلہ دے دیا تھا۔ چلیں مان لیا کہ سیاسی قیادت تقسیم سے پہلے آبادی کے اس تبادلے سے بے خبر تھی مگر وہ اس وقت کہاں تھی جب یہ محشر برپا ہوا۔ دونوں جانب کی فوج کو بھی اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی اور فوجی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے۔
اس آناً فاناً تقسیم کا ایک المیہ یہ بھی تھا کہ بہت سارے لوگوں نے جان بچانے کے لیے اپنے مذاہب اور عقیدوں کو تبدیل کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور جو اس طوفان میں بھی اپنے عقیدے پر قائم رہے انہی میں سے اکثر بعد میں لاشوں کے ڈھیر پر پائے گئے۔ ایک جھکّڑ تھا جو چلا تو سب کچھ ہی الٹ پلٹ ہو کے رہ گیا۔
اب ذکر کرتے ہیں ان اسباب کا جنہوں نے آزادی کی پینٹنگ میں لہو کا رنگ شامل کیا۔ سِرِل رَیڈکلف پہلی دفعہ برصغیر میں آیا تھا اور ایک تو اسے یہاں کے جغرافیائی حالات کا درست ادراک نہیں تھا۔ دوسرا اسے وقت بہت کم دیا گیا تھا، صرف 36 دن میں اسے 40 کروڑ آبادی والے ملک کو دو حصوں میں بانٹنا تھا۔ اسے آبادی کے اندازے کے لیے 1941ء کی مردم شماری والے اعدادوشمار دیے گئے تھے جن کی صحت بذات خود مشکوک تھی۔ ان اعدادوشمار میں مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی تعداد کو اصل سے بہت کم دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ریڈکلف کو جو نقشے دیے گئے وہ بھی پرانی نوعیت کے تھے اور پھر اس کے مشیر بھی سیاسی بنیادوں پر مقرر کئے گئے تھے۔ برطانوی پارلیمینٹ سے منظور ہونے والے قانون آزادی ہند 1947ء کے مطابق ضلع گورداس پور بھی پاکسان کا حصہ بننا تھا مگر بعد میں شاید اس ضلع کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔
یہ رد و بدل کشمیر کی وجہ سے کیا گیا اور سننے میں آتا ہے کہ اس فیصلے میں ریڈکلف کی بدنیتی کا پورا پورا عمل دخل تھا۔ اسی لئے لکیر کھینچنے کے فوراً بعد اسے احساس ہوگیا تھا کہ بہت کچھ غلط ہو گیا ہے اور اپنے سارے نوٹس جلا کر ہندوستان چھوڑتے ہوئے اس کے آخری الفاظ بھی یہ تھے کہ برصغیر خاص طور پر پنجاب اور بنگال کے 8 کروڑ لوگ میری تلاش میں ہوں گے، میں ان کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی باقی زندگی میں وہ کبھی بھی بھارت یا پاکستان آنے کی ہمت نہ کرسکا۔
علاوہ ازیں بدلتے ہوئے عالمی اور مقامی حالات نے برٹش سرکار کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ جلد از جلد یہاں سے نکل جائے۔ اس دوران عالمی سیاسی حالات میں زبردست اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد روس کے خلاف سردجنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ چین کے انقلاب کی دھمک دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ بدلتے ہوئے حالات نے فرانس اور برطانیہ کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ اب کالونیز کو چھوڑ دینے میں ہی عافیت ہے۔ ابتدائی طور پر جو اعلان برٹش سرکار کی جانب سے کیا گیا تھا اس کے مطابق جون 1948ء تک برصغیر چھوڑنے کی بات ہوئی تھی۔ مگر بعد میں یہی سرکار سب کچھ اتنی جلدی کرنے پہ تل گئی کہ خود برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
برطانوی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے ایک اہم رہنما ہیرولڈ مک ملن کا یہ کہنا تھا کہ جتنا عرصہ برٹش سرکار نے برصغیر پر حکومت کی ہے، اسے مناسب منصوبہ بندی کے تحت چھوڑنے میں دس سے بیس سال کا عرصہ مقرر کرنا چاہئیے تھا مگر اس قدر بھاگم بھاگ میں سب کچھ چھوڑنا برصغیر کے باشندوں کے ساتھ کھلی زیادتی ہوگی۔ اس دوران برطانوی پارلیمنٹ میں یہ بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی کہ برصغیر کی تقسیم جغرافیائی سے زیادہ مذہبی مسئلہ ہے۔ اب جب اتنا ادراک تھا کہ یہ مذہبی مسئلہ ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ مذہبی طور پر مشتعل بھی ہو سکتے ہیں تو اس ضمن میں کیوں کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔
برٹش سرکار اتنی بھی بے بس نہیں تھی جتنی وہ اس سارے خون خرابے کے دوران نظر آتی ہے۔ لگ بھگ 250 سال تک برصغیر پہ حکومت کرنے کے بعد وہ یہاں کے باشندوں کو دلدل میں چھوڑ کر روانہ ہوگئے اور تقسیم کے دوران کھینچی جانے والی غیر منصفانہ لکیر کے خوفناک اثرات کو خاطر میں ہی لانا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور پھر جب لوگ قتل ہو رہے تھے، گھر جل رہے تھے، لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں، عزتیں لوٹی جا رہی تھیں تب برطانیہ سرکار بالکل خاموش تھی۔ یہ کیسی تہذیب ہے اور یہ کیسا کلچر ہے کہ جس میں اپنے فائدے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
ریڈکلف کو اگرچہ اس بات کا احساس تھا کہ تقسیم کی لکیر برصغیر کی تقدیر میں ایسا گھاؤ ثابت ہوگی جو شاید کبھی بھی نہ بھر سکے مگر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ محدود اختیارات کا مالک تھا اور برٹش سرکار اب مزید وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھی ورنہ وہ ریڈکلف کو روک لیتی اور اسے مزید وقت دے کر لکیر پر نظرثانی کرنے کا موقع دے دیتی۔ مگر انہیں اس قدر سردرد لینے کی کیا ضرورت تھی۔ برصغیر کے لوگوں نے بھی تو یہ کہہ کہہ کے کہ انڈیا سے نکل جاؤ، برٹش سرکار کا سکون غارت کیا ہوا تھا اور شاید اسی وجہ سے برٹش سرکار بھی جتنی جلدی ممکن تھا نکلنا چاہتی تھی۔ اس نے بھی سوچا ہوگا کہ کچھ کام ہم کر جاتے ہیں باقی یہ لوگ خود سمیٹتے رہیں گے۔ چلیں اسی بہانے ہم یاد تو آتے رہیں گے۔ انگریزوں کی یہ بات سچ ہو گئی۔ اس کے بعد ہم نے جب بھی آزادی کا دن منایا، برٹش سرکار کو ضرور یاد کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ وہ زخم نہیں ہے جو آسانی سے بھر جائے، یہ تو اب جنم جنم کا ساتھی ہے۔