ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز ہے، جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت) لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اس کے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع ہے۔ کچھ محققین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے۔ پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔
ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاوالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے۔ جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا۔
یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوعی ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے۔ لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ “یارِ من بیا بیا” ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے۔ لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیٰحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی۔ ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں۔ لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے۔ لہٰذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔
ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے۔ عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے
او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
ری
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ
کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے۔ وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔
ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
(قاسم یعقوب) انتہا پسندی بنیادی طور پر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو نظریاتی طور پر کسی عقیدے، بیانیے کے ساتھ جذباتی وابستگی کے ساتھ قائم رہنے کا نام ہے۔ جذباتی میں اس لئے کہہ رہا […]
Sheeraz Khan Dasti interviews Muhammad Moiz, the man behind Pakistan’s relationship guru and social media “desi bombshell” fame character, Shumaila Bhatti With a leader like Benazir Bhutto, a Nobel Prize winner like Malala Yousafzai and […]
(فاروق احمد) (نوٹ: کل اشتیاق احمد صاحب کی پہلی برسی ہے، یہ مضمون ایک سال پہلے اشتیاق احمد صاحب کی وفات کے چند روز بعد لکھا گیا تھا۔) اشتیاق احمد صاحب کی یاد اور […]