تاریخ کی رائٹ سائیڈ
حامد میر
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کچھ سخت گیر حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر ہیں۔ رائٹسٹ تو ہمیشہ سے اپنے آپ کو تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر ہی سمجھتے ہیں۔ پیر کے دن (7اگست 2017ء) جناب نواز شریف سے ملاقات کے لیے پنجاب ہاؤس پہنچا تو عرفان صدیقی صاحب اور پرویز رشید صاحب نواز شریف کی لیفٹ سائیڈ پر بیٹھے تھے۔ اس خاکسار سمیت ایک درجن سے زائد صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو دیکھ کر نواز شریف صاحب نے مسکراتے ہوئے سب کے ساتھ مصافحہ کیا۔ عرفان صدیقی صاحب نے مجھے سابق وزیر اعظم کی لیفٹ سائیڈ پر بٹھا دیا۔
میرے بالکل سامنے طارق سمیر صاحب اور طارق بٹ صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ دونوں طارق بھی اس وقت تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر ہیں۔ نواز شریف صاحب کو مریم اورنگ زیب صاحبہ نے ایک فائل پیش کی۔ سابق وزیر اعظم نے اس فائل کو تھوڑا سا کھول کر نظر ڈالی۔ تاریخ کی لیفٹ سائیڈ پر ہونے کے باعث مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ فائل میں کیا ہے لیکن آداب محفل کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے اس فائل کو پڑھنے سے اجتناب کیا۔
کچھ ہی لمحوں میں جناب نواز شریف نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ پھر اچانک رُک گئے اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ میرے ساتھ خالی جگہ پر آ کر بیٹھ جائیں۔ یہ جگہ شاید ان کے کسی سینئر ساتھی کے لیے خالی چھوڑی گئی تھی۔ بظاہر وہ میری عزت افزائی کر رہے تھے۔ میں خاموشی سے اٹھا اور نواز شریف کے کہنے پر اُن کی رائٹ سائیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔
اب میری نظریں عرفان صدیقی صاحب اور پرویز رشید صاحب کو تلاش کر رہی تھیں۔ وہ بدستور تاریخ کی لیفٹ سائیڈ پر ہی تھے لیکن ذرا پیچھے جا کر بیٹھ گئے تھے۔ پوزیشن تبدیل ہونے کے بعد محترمہ نسیم زہرا اور منیزے جہانگیر صاحبہ مجھے سامنے بیٹھی نظر آئیں۔ وہ نہ لیفٹ پر تھیں نہ رائٹ پر تھیں بلکہ درمیان میں تھیں البتہ عاصمہ شیرازی صاحبہ کافی رائٹ پر تھیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد نواز شریف صاحب سے پہلی ملاقات ہو رہی تھی اور وہ فرما رہے تھے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا جواز بعد میں ڈھونڈا گیا۔
کچھ دیر کے بعد مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ کیا کوئی عدالت ڈکٹیٹر مشرف کا احتساب کرے گی؟ جب عدالت نے مشرف کو طلب کیا تو وہ اسپتال چلا گیا تھا۔ میں نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ جناب مشرف کی گاڑی کا رُخ عدالت سے اسپتال کی طرف آپ کے وزیر داخلہ کے حکم پر موڑا گیا تھا کیونکہ اُنہیں اسلام آباد پولیس نے اطلاع دی تھی کہ مشرف صاحب طبیعت کی ناسازی کی شکایت کر رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور میرا موقف رد کر دیا۔
میں نے اصرار کیا تو انہوں نے بڑی شائستگی سے کہا کہ یہ دُرست نہیں ہے جس پر میں نے کہا کہ اگر مجھ پر یقین نہیں تو یہاں موجود دیگر صحافیوں سے پوچھ لیجئے۔ بہت سے ساتھیوں نے میرے حق میں گواہی دی جس پر نواز شریف صاحب خاموش ہو گئے۔
نواز شریف صاحب نے دو تین مرتبہ میری طرف دیکھ کر دوبارہ ڈکٹیٹر کا ذکر کیا۔ اُسی صبح میرا کالم ’’ڈکٹیٹر کو سزا کب ملے گی؟‘‘ شائع ہوا تھا۔
میں ان کے ساتھ بحث سے گریز کر رہا تھا۔ وہ بات تو ٹھیک کر رہے تھے لیکن اپنی غلطیوں کے اعتراف سے انکاری تھے۔ میں زیادہ دیر گریز نہ کر سکا اور ایک دفعہ پھر ادب کے ساتھ پوچھا کہ جن صاحب نے ڈکٹیٹر مشرف کا احتساب نہیں ہونے دیا، جو اپنی مدت ملازمت میں توسیع بھی مانگتے تھے اور فیلڈ مارشل بھی بننا چاہتے تھے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے سعودی عرب میں ’’پرائز پوسٹنگ‘‘ کیوں دلوائی؟
اس سوال کے بعد چند لمحوں کے لیے محفل میں خاموشی رہی اور پھر نواز شریف صاحب نے کہا کہ فی الحال وہ اس بارے میں زبان نہیں کھولنا چاہتے۔ شاید وہ سمجھ گئے تھے کہ اُن کے دل میں بہت سے راز ہیں تو کچھ راز ہمیں بھی معلوم ہیں اور اس بھری محفل میں رازوں کا تبادلہ مناسب نہ تھا۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ اپنی جماعت کو قائم رکھیں اور جمہوری نظام کو ڈی ریل نہ ہونے دیں، اگلے سال انتخابات کا انتظار کریں اور انتخابات میں بھرپور عوامی تائید کے ذریعہ عوامی فیصلہ حاصل کریں؟ اُنہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ انتخابات سے قبل ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ڈائیلاگ کی تجویز بہت اچھی ہے لیکن نواز شریف صاحب کو اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا ہو گا۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اُنہیں یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف نااہلی کی درخواست دائر کرنا اور پھر میری طرف سے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ غلطی تھی۔ انہیں یہ اعتراف بھی کرنا ہو گا کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنا غلطی تھی۔
وہ غلطی کا اعتراف کریں گے تو شاید پیپلز پارٹی بھی کہہ دے کہ 2006ء میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کے بعد 2007ء میں این آر او پر دستخط غلطی تھی۔ یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نومبر 2007ء میں این آر او پر دستخط کو غلطی کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور اخلاقی جرأت کی مثال قائم کی تھی۔
میں نے 7اگست کے کالم میں گزارش کی تھی کہ جو دانشور ڈکٹیٹر مشرف کے ٹرائل کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ مشرف کو بیرون ملک بھجوا دیا جائے تو سول ملٹری تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ برادر محترم وجاہت مسعود نے 8اگست کے روزنامہ جنگ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ اُن کا کالم میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا کیونکہ میرا مخاطب وہ ہرگز نہیں تھے بلکہ وہ اصحاب تھے جو کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف صاحب کے ساتھ کانا پھوسی بھی کیا کرتے تھے۔
آج یہ اصحاب اپنے آپ کو تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر شمار کرتے ہیں لہٰذا ان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اپنی کانا پھوسی کے ذریعہ نواز شریف صاحب کو بھی غلطیوں کے اعتراف پر قائل کریں۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا لیکن یہ بھی تو کہیے کہ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کو برطرف کرانے میں ہم بھی شامل تھے ہم سے غلطی ہوئی۔ یہ بھی تو مانیے کہ ڈکٹیٹر مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ عدالت کا نہیں بلکہ ہماری حکومت کا تھا۔
غلطیوں کا اعتراف کر کے ہی آپ تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر آئیں گے۔ آپ زبردستی تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر نہیں بیٹھ سکتے۔ آخر میں برادر محترم وجاہت مسعود کے لیے یہ خبر ہے کہ پرویز مشرف کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان واپس آنے کی کوشش نہ کریں اس مرتبہ اُنہیں گرفتاری سے نہیں بچایا جائے گا۔ وجاہت بھائی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ پیغام وہی دے سکتا ہے جو تاریخ کی رائٹ سائیڈ کی طرف کِھسک رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ