تاریخ نویسو ! علمی بد دیانتی سے گریز ضروری ہے
(عبدالمجید عابد)
تاریخ لکھنے اور بیان کرنے کے مختلف طریقے موجود ہیں۔ تاریخ کو نظریاتی طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جیسے اسلامسٹ یا مارکسسٹ دیکھتے ہیں یا تاریخ کو ایک محقق کی آنکھ سے، حتی الوسع غیر جانبداری سے دیکھا جا سکتا ہے۔
نظریاتی تاریخ میں اپنی پسند کے حقائق کی بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کی جاتی ہے اور بیانیے سے متضاد حقائق کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں رائج العمل سرکاری تاریخ اسلامسٹ طرز کی ہے جو محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہو کر تحریک پاکستان پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس تاریخی بیانیے کے مطابق اس دھرتی پر عرب فوج کے حملے سے پہلے غیر اہم لوگ بستے تھے اور ہماری نئی نسل کو ایسے غیر اہم افراد سے روشناس کرانا محض وقت کا زیاں ہے۔
تاریخ سے کھلواڑ کرنے والوں میں صرف اسلامسٹ ہی مصروف نہیں، بلکہ کمیونسٹ بھائیوں میں بھی یہ رجحان کثرت سے پایا جاتا ہے۔ کچھ دن قبل ان صفحات پر ایک مضمون دیکھا جو تاریخی revisionism کی ایک عمدہ مثال تھا۔
شاداب مرتضی کا اس لنک: جھوٹ کی تاریخ : یوکرائن کے تاتاری اور جوزف اسٹالن پر مضمون بعنوان مجود ہے
اس لنک پر مضمون کو دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا: برطانیہ میں تاریخ کی نصابی کتب میں سابقہ سامراج کی دانشی بد دیانتی
سٹالن کے دور پر تاحال بہت سی تحقیق ہو چکی اور کتب لکھی جا چکی ہیں۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد سرکاری آرکائیوز کھول دی گئیں اور محققین نے اس مواد کی روشنی میں سوویت عہد کو نئے سرے سے دیکھا۔
سٹالن کے دور حکومت میں سویت یونین ایک منفرد معاشرتی تجربے (social engineering) سے گزرا۔ کسی شہر یا قصبے کے باسیوں کو بزور طاقت ایک دوسرے شہر یا قصبے میں منتقل کرنا اس تجربے کا حصہ تھا۔
اس سلسلے میں کرائمیا کے تاتاریوں کے ساتھ کیے گئے سلوک پرفاضل مصنف نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ میری ناقص رائے میں ہٹلر، سٹالن اور ماؤ بیسویں صدی میں انسانیت کے بد ترین دشمن تھے اور ان کے احکامات کے باعث کروڑوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
سنہ 1941ء میں ہٹلر کی نازی افواج نے کرائمیا پر حملہ کیا اور کچھ مہینے میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے خلاف سوویت اہلکاروں نے مزاحمت کا آغاز کیا تو کرائمیا کے تاتاریوں کو اس مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے سے روکا گیا، بلکہ تحریک کے دوران کئی تاتاری علاقوں کو لوٹا گیا۔
نازی افواج نے تاتاریوں کو جتھوں کی شکل میں ترتیب دیا تاکہ وہ سوویت مزاحمتی تحریک کا مقابلہ کرسکیں۔ یاد رہے کہ یہی طریقہ جاپان میں ’آزاد ہند فوج‘ کی تشکیل کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا جب ہندوستانی فوجیوں کو منظم کرکے انگریز فوج سے لڑنے کی ترغیب دی گئی تھی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان تاتاری جتھوں میں بیس ہزار افراد شامل تھے۔ ان جتھوں کے علاوہ بہت سے تاتاری باقاعدہ سوویت فوج کا حصہ تھے اور ان کی وفاداری سویت روس سے تھی۔
سنہ 1944ء میں ہٹلر کی افواج پسپا ہوئیں تو تاتاریوں کی شامت آگئی۔ خفیہ ایجنسی کو رپورٹ بھیجی گئی کہ نازی حملے کے دوران سوویت فوج میں شامل تمام تاتاری بھگوڑے ہو گئے تھے۔ سٹالن اور بیریا نے مئی 1944ء میں حکم جاری کیا کہ جون تک تمام تاتاریوں کو وطن بدر کر دیا جائے (یعنی ازبکستان بھیج دیا جائے۔)
فاضل مصنف نے اس نقل مکانی کے لیے جاری کیا گیا ہدایت نامہ نقل کیا ہے، جس کے مطابق ذاتی استعمال کی چیزیں، کپڑے اور گھریلو سامان ہمراہ لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ متاثرین کو اناج، سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کی فراہمی اور طبی سہولیات کی فراہمی کے متعلق بھی حکم جاری کیا گیا تھا۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ تھیوری اور پریکٹس میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ جب تاتاریوں کے گھروں پرصبح سویرے جبری نقل مکانی کے لئے دستک دی گئی تو انہیں اپنا بوریا بستر سمیٹنے کے لیے صرف آدھا گھنٹہ دیا گیا۔
آدھ گھنٹے میں اپنی زندگی کی تمام ضروری اشیاء سمیٹنا اور اپنے آبائی گھر کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا یقینی طور پر ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
بیس ہزار افراد کی مبینہ غداری کی سزا ڈھائی لاکھ افراد کو ملی جن میں سے ایک لاکھ افراد کچھ سال کے اندر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ سلوک صرف تاتاریوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سوویت یونین میں بسنے والی کئی دیگر نسلوں (جیسے وولگا جرمنز، چیچن، پولش او ر رومانین) کو بھی اسی طرح جبری طور پر وطن بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ بالٹک ریاستوں کی دس فیصد آبادی کو دس برس کے عرصے میں وطن بدر کیا گیا۔
اگر یہ عمل اتنا ہی معصومانہ تھا جتنا فاضل مصنف بیان کرتے ہیں تو سنہ 1989ء میں سوویت یونین نے اس جبری نقل مکانی کو انسانیت کے خلاف جرم کیوں قرار دیا تھا؟
سنہ 1967ء میں تاتاریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرنے والے رد انقلابی تھے؟ تین سال قبل صدر پیوٹن نے اس جبری نقل مکانی کے متاثرین کی بحالی کا حکم نامہ جاری کیا تھا، کیا وہ ٹراٹسکی نواز ہے، یا ہٹلر کا قصیدہ نویس؟
کمیونزم اور’انقلابی سچ‘ پر ایمان رکھنا ذاتی معاملہ ہے البتہ اس ضمن میں تاریخی حقائق کو مختلف رنگ میں پیش کرنا علمی بد دیانتی گردانا جائے گا۔