ایسے انصاف یا احتساب جانے کتنی بار ہوئے
از، مولانا محمد زاہد
اپریل کا کوئی دن تھا، درس نظامی کے کسی ابتدائی درجے میں تھے، کلاس میں استاذ موجود نہیں تھے، طلبہ گپ شپ کر رہے تھے، کسی نے بتایا کہ آج بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ سن کر “خوشی” کی لہر دوڑ گئی۔ ہمارا تاثر یہ تھا کہ انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔ پاکستان وہ عظیم ملک بن گیا ہے جس میں وزیر اعظم بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
اسی دن یا اگلے روز گاؤں سے ہمارے تایا آئے ہوئے تھے۔ ایک دینی ذہن رکھنے کے ناتے وہ بھی پیپلزپارٹی کے سخت خلاف تھے۔ جب بھٹو کی پھانسی کا ذکر آیا تو انہوں نے افسردہ سے لہجے میں کہا: “چنگی نہیں کیتی” (اچھا نہیں کیا)۔ ان کی یہ بات سن کر دھچکا سا لگا یہاں تو انصاف کی اعلی مثال قائم ہوئی ہے اور یہ کہہ رہے ہیں اچھا نہیں ہوا۔ اب اپنی اس وقت کی سوچ پر ہنسی آتی ہے، آج وہ فیصلہ کرنے والے بھی آجائیں تو کسی مجمع میں یہ نہیں کہہ پائیں گے کہ یہ انصاف کی اعلی مثال قائم ہوئی تھی۔
ایسے انصاف اور احتساب جانے کتنی بار ہوئے اور اس قوم نے دیکھے۔ ضیاءالحق نے جونیجو اسمبلی توڑتے ہوے جو تقریر کی تھی اس کے کچھ جملے ابھی تک کانوں میں گونج رہے ہیں۔ اس کا “متاثر کن” حصہ وہ تھا جس میں کرپشن کا رونا رویا گیا تھا (جو اصل اندرونی اور بیرونی چکر تھے وہ اب مخفی نہیں ہیں۔)
ترانوے تک ہمارا سوچنے کا زاویہ تقریبا یہی تھا۔ ترانوے میں ہم نواز شریف کے خلاف تھے اور ہماری ہمدردیاں بابا اسحاق خان کے ساتھ تھیں۔ سیاست دانوں کی “لوٹ مار” سے ملک کو پاک کرنے کے لیے قاضی حسین احمد کی اسلامک فرنٹ اچھی لگتی تھی۔ اکثر لوگ اس کے خلاف تھے اور ہمیں ان کی باتیں زہر لگتی تھیں۔
اس زمانے میں بسوں ویگنوں کا سفر کرتےہوئے لوگوں کی سیاسی گفتگو سننے کا بہت شوق تھا۔ نواز شریف غلام اسحاق خان سمیت مستعفی ہوچکے تھے۔ اسی طرح کی ایک ویگنی گفتگو میں نواز حکومت کے خاتمے کے بارے میں یہ آواز سنائی دی:
“بس کسے نوں کوئی کم نہیں کرن دینا۔”
اس سیدھے سادے شخص کی یہ بات زہر لگی کہ کام تو ہوتے رہیں گے پہلے “کرپٹ مافیا” سے تو نجات مل جائے۔ ترانوے کے بعد سے رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولنے کی بجائے اپنے دماغ سے سوچنا شروع کیا۔
جو نوجوان اس وقت بڑے جوش و جذبے سے ایک خاص سوچ کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ تھوڑا سا ٹھنڈا پانی پی لیں۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ یہ سب کچھ قوم نا معلوم کب سے سنتی چلی آرہی ہے۔
ضروری نہیں جو جھک ہماری نسل کے لوگوں نے مارے ہیں وہ مار کر ہی درست نتائج تک پہنچا جائے۔ بس یہ اندازہ لگالیں کہ کل آپ کی فکر کا تاریخ اور خود آپ کی نظر میں کیا مقام ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ اس انداز فکر کے ساتھ ان دوستوں کو ٹائم کیپسول کے ذریعے ماضی میں لے جائیں تو وہ ہماری طرح بھٹو کی پھانسی کو انصاف کا بول بالا ہی قرار دیں رہے ہوں گے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.