طارق محمود مرزا اور دنیا رنگ رنگیلی ایک جائزہ
تبصرۂِ کتاب از، افضل رضوی
طارق محمود مرزا صاحب سے میری شناسائی کچھ بہت مدت سے نہیں اور جو ہے بھی، وہ ابھی تک فاصلاتی، ترسیلاتی اور واٹس ایپی ہے یعنی میں نفسِ نفیس محترم مرزا صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ آسٹریلیا کی مصروف ترین زندگی ہے۔ ہر کسی کو اپنا شیڈول سامنے رکھ کر مختلف چیزیں طے کر نا ہوتی ہیں۔
میں جنوبی آسٹریلیا کے کیپیٹل ایڈیلیڈ میں رہتا ہوں اور مرزا صاحب نیو ساؤتھ ویلز کے دارالحکومت سڈنی میں آباد ہیں۔ ایک دن مجھے واٹس ایپ کال آئی لیکن یہ نمبر میرے فون میں محفوظ نہ تھا تاہم آسٹریلین نمبر ہونے کی وجہ سے کال اٹینڈ کر لی اور پھر دوسری طرف سے انتہائی دھیمی لیکن پر تاثیر آواز سن کر ایسا لگا جیسے کسی ایسے شخص کی ہو جسے میں ایک عرصۂِ دراز سے جانتا ہوں۔ نہایت سنجیدہ لیکن حزبِ مراتب اور محبت سے لبریز لہجہ بہت ہی بھلا لگا۔
گفتگو نہایت دوستانہ اور ادیبانہ ہوئی اور تب میرے علم میں آیا کہ مرزا صاحب کا سفر نامہ دنیا رنگ رنگیلی منصۂِ شہود پر آ چکا ہے، اور وہ اس کی تقریبِ رُو نُمائی کے لیے یورپ جارہے ہیں۔
طارق مرزا کا تعلق راول پنڈی کی تحصیل گُوجر خاں سے ہے۔ ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی اور بعدا زاں کراچی منتقل ہو گئے، جہاں انہوں پاکستان نیوی انجینئرنگ کالج سے میکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما کیا۔ 1984ء میں کراچی یونی ورسٹی سے بی اے اور 1988ء میں اسلامک سٹڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
طارق مرزا کا کم و بیش دو دھائیوں سے صحافت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ بھی رہے ہیں۔ دی ڈیلی وائس آف پاکستان میں کالم لکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں سڈنی میں ہونے والی ادبی سَر گرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے شوقین ہیں چُناں چِہ اب تک انگلینڈ، فرانس، سویٹزر لینڈ، جرمنی، ہالینڈ، بیلجئیم، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، فن لینڈ، جاپان، تھائی لینڈ، سنگا پور، سلطنت آف عمان، متحدہ عرب امارات اور قطر کے علاوہ نیوزی لینڈکی سیاحت کر چکے ہیں۔
ملکوں ملکوں گھومنے کے شوق نے انہیں سفر نامے کی صنف سے گویا متعارف کرا دیا، اور ان کے قلم نے ان کے سیاحتی مشاہدات و تجربات کو قرطاسِ ابیض پر بکھیر کر اوراقِ تاریخ و ادب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
مرزا صاحب کے سفر ناموں پر بات کرنے سے پہلے سفر نامے کی ابتداء کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ بس اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ اردو میں سفر نامے کی تاریخ اردو کی تاریخ کی طرح مختصر ضرور ہے لیکن اردو میں بہترین سفر ناموں کی روایت نہایت مستحکم ہے نیز ”سفر نامے کا جو سفر یوسف کمبل پوش کے عجائبِِ فرنگ سے شروع ہوا وہ مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتا ہے،“ لیکن ان کے بعد سفر نامہ نگاروں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جنہوں نے تارڑ کے تتبع میں کئی سفر نامے لکھے اور زیورِ طباعت سے آراستہ کیے۔
ان میں سے کچھ تو محض کاغذی حد تک رہے اور بہت سے شہرت کے زیور سے بھی آراستہ ہوئے۔ برِ صغیر پاک و ہند کے سفر نامہ نگاروں میں ہند یاترا، ممتاز مفتی، دیکھا ہندوستان، حسن رضوی، دلی دور ہے، قمر علی عباسی، سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان، سید انیس شاہ جیلانی، اے آب رود گنگا رفیق ڈوگر، دلی دور است، عطاء الحق قاسمی، سفر نامہ ہند، پروفیسر محمد اسلم، لاہور سے اجمیر تک، رفعت سرُوش فیصل، امریکہ بار بار، پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان، جرنیلی سڑک، رضا علی عابدی، سفر بذریعہ دوستی بس، جسٹس خواجہ محمد شریف، تاج محل سے زیرو پوائنٹ، چودھری محمد ابراہیم، سات دن، امجد اسلام امجد اور دلی دور نہیں، انور سدید اہم ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سفر نامہ لکھا کم اور سنایا زیادہ جاتا تھا۔ پشاور کا قدیم اور تاریخی قصہ خوانی بازار اس کی بہترین مثال ہے جہاں وسط ایشیاء سے آنے والے مسافر اور تاجر شام ڈھلے اپنے سفر کی رُو داد، مشاہدات و تجربات سنایا کرتے تھے۔ یوں یہ سفر نامے سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے تھے۔
ان سفر ناموں کی مدد سے علاقائی معاشرت اور تہذیب کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کا بھی علم حاصل ہوتا تھا۔ سفر نامہ یک مہماتی اندازِ تحریر ہے جس میں، معاشرت، فطرت اور سیاست نیز سفری مصائب اور تکالیف کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چودھویں صدی کے معروف سیاح ابن بطوطہ کا سفر نامہ ،جس کا اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، میں پاک و ہند کے تمدن، معاشرت، سیاست اور بود باش کی عکاسی بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے۔ اسی طرح بہت سے سفر نامے ایسے ہیں جن میں یورپ، امریکہ اور ایشیاء کے کئی ممالک کی سیاحت کرنے والوں نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا کہ اردو سفر نامے کا آغاز یوسف کمبل پوش سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کیوں کہ ہر سیاح اپنی سیاحت کے تجربات و مشاہدات اور تاثرات کو اپنے اپنے پیرایے اور اپنے اپنے انداز سے بیان کر تا ہے۔ چُناں چہ میں جس سفر نامے پر قلم اٹھانے جا رہا ہوں، اس سفر نامہ نگار کا مختصر سا سوانحی و تعلیمی تعارف سطورِ بالا میں بیان ہو چکا ہے۔
طارق محمود مرزا کا پہلا سفر نامہ خوشبو کا سفر 2008ء میں جب کہ دوسرا سفر نامہ سفرِ عشق 2016 ء میں شائع ہوئے نیز افسانوں کا مجموعہ بَہ عنوان تلاشِ راہ 2013 ء میں منظرِ عام پر آیا اور اب ان کا تیسرا سفر نامہ نیا رنگ رنگیلی زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے، بَل کہ اس کی دو چار تقاریبِ رُو نُمائی بھی انعقاد پذیر ہو چکی ہیں۔
دنیا رنگ رنگیلی طارق مرزا کی نیوزی لینڈ، جاپان اور تھائی لینڈ کی سیاحت پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا سَر ورق سادہ لیکن جاذبِ نظر ہے اور اسے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے طبع کیا ہے نیز اس کا انتساب انہوں نے اپنے بھائی کمانڈر طالب حسین کے نام کیا ہے۔ فہرستِ عنوانات سے پہلے مصنف نے ایک شعر درج کیا ہے جو نظرِ قارئین بھی کیا جا رہا ہے:
؎کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
طارق مرزا کی یہ تصنیف تین سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ فہرست کے بعد پیشِ لفظ میں انہوں نے اپنی اس تصنیف کے بارے لکھا ہے:
طویل عرصہ بعد غمِ روز گار سے کچھ فرصت ملی تو نہاں خانہ دل میں دبی سیاحت کی دیرینہ خواہش جاگ اٹھی۔ جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے نیوزی لینڈ، جاپان اور تھائی لینڈ کے کچھ علاقے کھوج ڈالے۔ اس جہاں نوردی سے جہاں طبیعت نے کچھ آسودگی پائی وہاں کئی دلچسپ تجربات و مشاہدات نے دل میں تلاطم خیزی کو بھی جنم دے دیا۔
پیشِ لفظ کے بعد عرفان جاوید نے دنیا رنگ رنگیلی اردو ادب کے سر ورق پر طلائی مہر ہے کے عنوان سے مختصر سا تبصرہ لکھا ہے جب کہ رئیس احمد علوی نے طارق مرزا کا سفر نامہ کے عنوان سے تبصرہ لکھ کر اس سفرنامے اور مصنف کا مختصر تعارف کرایا ہے۔
تو گویا زیرِ نظر سفر نامہ تین حصوں پر مشتمل ہے، جس میں سب سے پہلے نیلے پانیوں کی سرزمین نیوزی لینڈ میں لینڈنگ کے بعد امیگریشن کے معاملات کو سراسیمگی سے بیان کرنے کے بعد ایئرپورٹ سے گاڑی کے حصول سے لے کر اپارٹمنٹ تک کے سفر کو کمال ادیبانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ وہ سفر کی جُزئیات کو کل کا جُزو بنانے کے فن سے واقف ہیں، چناں چہ بِلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ ان کے اپنے تاثراتِ سفر ہیں جنہیں انہوں کمال فن کاری سے قارئین کے لیے قرطاسِ ابیض پر بکھیر دیا ہے۔
میرے تین دھائیوں کے ادبی سفر میں میری نظر سے کئی سفر نامے گزرے ہیں، اور اگر چِہ میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ سفر نامے کا جو سفر یوسف کمبل پوش کے عجائبِ فرنگ سے شروع ہوا وہ مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتا ہے، لیکن طارق مرزا کے سفر نامے کو پڑھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کا سفر نامہ تارڑ کے سفر ناموں سے آگے نہیں تو اس سے کچھ کم بھی نہیں۔
سفر نامے کے آغاز میں انہوں نے ایئرپورٹ کے خالی ہونے کا منظر جس طرح بیان کیا ہے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مصنف کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو اور ایک کام یاب سفر نامہ نگار کے لیے یہ شرطِ اولین مانی جاتی ہے کہ اس کے قلم میں اتنا زورِ بیان ہو کہ وہ قاری کو اپنے سفر میں اپنا ہم سفر بنا لے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلے حصے کو پڑھ کر اتنا کہہ دینا میرا استحقاق ہے کہ طارق مرزا کے اس سفر کے دوران چوں کہ ان کی اہلیہ ان کے ہم راہ تھیں اس لیے انہوں نے قاری کو متوجہ کرنے کے لیے فرضی اور غیر ضروری واقعات کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے، اور یہی ان کی بڑی خوبی ہے جو دورِ حاضر کے ادیبوں سے انہیں اس صنف میں ممتاز کرتی ہے۔
طارق مرزا اپنے پڑھنے والے کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں، اس کی زبان رواں اور سلیس ہے، اندازِ بیاں دل نشیں اور جاذبِ نظر ہے، واقعات میں زیبِ داستان کا عُنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیز طارق مرزا نے جہاں دیگر جُزئیات کو کل کا حصہ بنایا ہے وہاں منظر نگاری بھی کسی حد تک ان کے قلم کی مرہونِ منت ہے۔ مثلاً، نیوزی لینڈ کے شہر کوئینز ٹاؤن میں اپنی پہلی صبح کا منظر جس طرح رقم کیا ہے وہ ملاحظہ کیجیے:
اتنے بھر پُور نظارے، اتنے رنگ، اتنی جاذبیت، اتنی دلکشی تو میں نے کسی تصویر، کسی فلم میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ انسانی ہاتھ ایسی تصویر بنانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ کوئی کیمرا یہ منظر دکھانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ یہ منظر صرف دیکھا جا سکتا ہے، محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن کوئی شاعر یا قلم کار اِسے احاطۂِ قلم میں نہیں لا سکتا۔
ع آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
مختصراََ یہ کہ میرے سامنے دائیں بائیں حدِ ّنظر تک ایک گہری اور وسیع جھیل پھیلی تھی۔ یہ جھیل اتنی نیلی تھی جیسے اس میں کسی نے نیل گھول رکھا ہو۔ اتنی صاف و شفاف جیسے صاف پانی کو نتھار کر کرسٹل کلیئر گلاس میں ڈال رکھا ہو۔ اتنی پرسکون جیسے محوِ خواب ہو۔
اتنی خاموش جیسے گاؤں کی رات ہو۔ یہ جھیل دائیں جانب دور پہاڑوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب کہ بائیں جانب بھی اس کا سِرا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس جھیل کے نیلے پانی، اس کی خاموشی، اس کا سکون، اس کی وسعت، اس کی گہرائی اور اس کی شفافیت سے آنکھیں خِیرہ ہو رہی تھیں۔ جھیل کی وسعتوں میں کہیں کہیں رنگین کشتیاں کھلونوں کی طرح حسین لگ رہی تھیں۔ جھیل کے کناروں پر رنگا رنگ پھول سر اٹھائے کھڑے تھے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دنیا کا یہ خطہ کس قدر مسحور کن ہے۔ مجھے خود بھی نیوزی لینڈ جانے کا اتفاق ہو ا ہے اور میں بِلا تامل طارق مرزا کی ہاں میں ہاں ملا سکتا ہوں۔ اس حسین نظارے سے لطف اندوز ہونے کے بعد مصنف کوئینز ٹاؤن کے بازار کی راہ لیتے ہیں جہاں ان کی ملاقات ایک پاکستانی نزاکت علی سے ہوتی ہے جو وہاں تین سال سے مقیم ہے اور ٹیکسی چلاتا ہے۔ وہ مصنف کو یہ بتا کر حیران کر دیتا ہے کہ یہاں ہر جگہ گوشت حلال ہی فروخت ہوتا کیوں کہ یہاں سے گوشت عرب ممالک کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
سٹی سنٹر کا احوال بیان کرنے کے بعد مصنف شہر کے گرد و نواح کی سیاحت کے نکل پڑتے ہیں اور جن مقامات کا انہوں نے ذکر کیا ہے ان میں سکائی لین چیئر لفٹ، جھیل واکا ٹیپو (lake wakatipu)، والٹر پیک فارم (Walter peak farm) نیز ان علاقوں کی سیاحت کے دوران اسٹیمر (steamer) اور ہیلی کاپٹر کی سواری کی شہرت کا ذکر بھی کیا ہے۔
منظر نگاری اور مکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ مصنف نے کمال مہارت سے تاریخی حقائق و واقعات کو بھی جمع کر دیا ہے جس سے اس سفر نامے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کوئینز ٹاؤن اور اس کے گرد و نواح کی کہانی دلکش پیرایے میں بیان کی ہے۔ مثلاً، یہ اقتباس دیکھیے:
1960ء تک کوئنز ٹاؤن نیوزی لینڈ کے جنوب میں واقع ایک خوابیدہ قصبہ تھا۔ اس وقت بھی یہ اپنے حسین ترین مناظر کی وجہ سے انتہائی پُر کشش تھا۔ لیکن اتنا بڑا سیاحتی مرکز نہیں تھا۔ 1967ء میں کچھ ذہین اشخاص کی مشترکہ سوچ اور کاوش سے اس چیئر لفٹ کی بنیاد پڑی۔پہلے برس اسّی ہزار لوگ اس چیئر لفٹ کے ذریعے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ اس کے بعد دنیا نے اس کا نوٹس لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ2008ء میں آٹھ لاکھ پچاس ہزار افراد نے اس چیئر لفٹ کی سوار ی کی۔ اسی سال اس لفٹ کے پچاس برس مکمل ہوگئے۔
دنیا رنگ رنگیلی میں طارق مرزا نے اپنے تین سفر ناموں نیوزی لینڈ، جاپان اور تھائی لینڈ کو یک جا کر دیا ہے۔ ان سفر ناموں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے قاری کی دل چسپی ابتدا سے اختتام تک بر قرار رہتی ہے حالاں کہ ان سفر ناموں میں وہ رنگینی نہیں جو مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں نو جوان قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے؛ لیکن تاریخ اور منظر نگاری بہ درجۂِ اتم موجود ہے۔ نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ کے سفر میں طارق مرزا کی اہلیہ ان کی ہم سفر تھیں۔
جب کہ سفرِ جاپان میں ان کے صاحب زادے ان کے ہم رُکاب تھے۔ بادی النظر میں ان سفر ناموں کا حقیقت کے قریب تر ہونے کا مُحرک بھی یہی لگتا ہے، کیوں کِہ انسان اپنی شریکِ حیات اور اولاد کے سامنے غلط بیانی سے جہاں تک ممکن ہو اجتناب کرتا ہے، چناں چِہ طارق مرزا کے ان تینوں سفر ناموں میں حقیقت کا عنصر نمایاں ہے۔ اگر چِہ ہمارے کچھ سفر نامہ نگاروں نے محض اپنے قاری کی attraction کے حصول کی خاطر صنف نازک کے ذکر کو اپنے سفر ناموں کا جزوِ لا ینفک بنایا ہوا ہے۔
ایسا نہیں کہ طارق مرزا نے خواتین کا ذکر نہ کیا ہو، لیکن یہ تذکرہ قدرے مختلف ہے مثلاً، سالم اور اس کی اہلیہ کی داستانِ عشق کو نہایت خُوب صورت، لیکن ایک ادیبانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔
سالم ایک عام قطری تھا جب کہ اس کی محبوبہ مریم ایک قطری شہزادی تھی۔ دونوں یونی ورسٹی میں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے اور پھر سالم کو مریم سے عشق کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بداشت کرنا پڑیں اور ایک دن دونوں قطر سے بھاگ نکلنے میں کام یاب ہو گئے اور بحرین، دبئی، سنگا پور اور آسٹریلیا سے ہوتے ہوئے نیوزی لینڈ پہنچ گئے۔ اب سالم ایک بیکری میں کام کرتا ہے جب کہ شہزادی مریم اب پھول بیچتی ہے، لیکن دونوں ایک دوسرے کو پا کر بہت خوش ہیں۔ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی خاطر چند سطریں درج کی جا رہی ہیں۔
اس دوران مریم میری بیگم کی طرح خاموش بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھی۔ اب خواتین کا نمبر تھا۔ میری بیگم نے اس سے پوچھا، ”تمہیں یہاں آ کر کیسا لگ رہا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ گھر والوں کی یاد تو نہیں آتی؟“
مریم نے پہلی مرتبہ اپنے لب کھولے۔ وہ مسکرائی تو اس کے سنہرے چہرے پر سفید دانت بہت اچھے لگے۔ اس نے آہستہ سے کہا، ”سوری میری انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے۔ ہاں! مجھے اپنے ماں باپ اور بہن بھائی بہت یاد آتے ہیں۔ اب شاید میں ان سے کبھی نہ مل سکوں۔ مگر میں سالم کو پا کر بہت خوش ہوں۔“ اتنی سی بات کر کے مریم کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور اس کا لہجہ گلو گیر ہو گیا۔ ماحول اُداس ہو گیا۔
مصنف اور ان کی اہلیہ والٹر پیک فارم اور اس کے ارد گرد کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے اور پھر وہی پاؤ بھر ”دال“ اوراس کا قصہ، لیکن اب وہ ایئر پورٹ پر نہیں، بَل کہ ہوٹل میں تھے اور دال کے پکائے جانے کا مرحلہ تھا۔ وہ دال جسے وہ کبھی کھا نہ سکے، اگر چِہ اسے سڈنی سے ساتھ لائے تھے، اور اس کی وجہ سے ایئر پورٹ پر خاصا وقت بھی صرف ہوا تھا اور جب امیگریشن حکام کے سوالوں کے جواب دے کر باہر نکلے تھے تو ان کے علاوہ سب مسافر جا چکے تھے۔
مصنف ہوٹل میں رات بھر قیام کے بعد اگلے روز گلین اورکی (Glenorchy) کا رخ کرتے ہیں۔ یہ کوئینز ٹاؤن کا ایک دل کش اور حسین نواحی گاؤں ہے جسے طارق مرزا نے جنتِ ارضی کہا ہے اور اس کی سیر کے دوران ایک دل چسپ واقعہ بھی رقم کیا ہے جو مختصراً یوں ہے کہ یہاں ان کی ملاقات ایک فارم کے مالک میاں بیوی (فرینک اور ماریہ) سے ہوئی۔
مصنف نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ کے بچے نہیں ہیں جس پر فرینک نے کہا ماریہ کو بچے پالنا اچھا نہیں لگتا اس لیے ہم نے بچوں کا نہیں سوچا بس اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بس۔ بہ قولِ مصنف،”جب ہم فرینک اور ماریہ کے دل کش فارم ہاؤس سے رخصت ہوئے تو ہمارے ہاتھ میں تازہ سبزیوں اور پھلوں کی ایک خوب صُورت ٹوکری تھی۔ فرینک اور ماریہ کے دیے گئے یہ تحفے تو ایک دو دن میں ختم ہو گئے لیکن ان کی محبت اور مہمان نوازی کی مہک آج تک ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔“
طارق مرزا اور ان کی اہلیہ نماز کے پا بند معلوم ہوتے ہیں، چناں چِہ جب وہ گلین اورکی سے واپس لوٹے تو اگلے روز جمعہ کی نماز کی فکر لاحق ہوئی جس پر انہیں نزاکت علی یاد آیا اور اسے فون کر کے اس سلسلے میں معلومات حاصل کیں اور پھر نزاکت علی کے بتائے ہوئے ایڈریس پر وقتِ مقررہ پر نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچ گئے۔
یہ شہر سے قدرے باہر ایک وسیع قطعہ پر بنا ایک خُوب صورت گھر تھا۔ گیٹ کھلا دیکھ کر ہم گاڑی اندر لے گئے۔ اس کے وسیع صحن میں چھ سات گاڑیاں پہلے سے کھڑی تھیں۔ ہم گاڑی سے باہر نکلے تو نزاکت علی کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر ترکی نژاد شخص نے استقبال کیا۔ نزاکت علی نے اس سے ہمارا مختلف انداز ہے۔ ”اینا“ کی کہانی اس سفر نامے کا ماسٹر پیس کہی جا سکتی ہے۔
تیسرا سفر نامہ جو دنیا رنگ رنگیلی میں شامل کیا گیا ہے، وہ تھائی لینڈ کا سفر ہے۔ اب ایک بار پھر اس سفر میں مصنف کی اہلیہ ان کے ہم راہ ہیں۔ یہ جیسے ہی بنکاک کے خوب صورت ائیرپورٹ پر اترے اور امیگریشن کے لیے قطار میں لگے تو ایئرپورٹ کا حسن ماند پڑتا دکھائی دیا کیوں کہ امیگریشن کے کارندوں کے چہروں پر ماسک اور لہجے میں کرختی تھی۔
ایئر پورٹ سے نکل کر وہ سیدھے ہوٹل کلوور سوکو چلے گئے۔ بنکاک تھائی لینڈ کا گنجان ترین شہر ہے اور 2015 ء کی مردم شماری کے مطابق تھائی لینڈ کے باشندوں کی کل تعداد چھے کروڑ اسی لاکھ ہے۔ جس میں صرف بنکاک کی آبادی نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بنکاک کے گرد و نواح میں رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر روز گار کے لیے بنکاک آتے ہیں۔ بنکاک شہر کا رقبہ ۸۶۵۱ مربع کلومیٹر ہے۔
بنکاک کے گلی کوچے اور بازار ساتھ ساتھ ہیں۔ گلیاں تنگ ہیں جہاں سے دو گاڑیوں کا بیک وقت گزرنا محال ہے۔ موٹر سائیکل لوگوں کی عام سواری ہے۔ مصنف کے مطابق وہ نومبر کے آخری عشرے میں یہاں پہنچے اس کے با وُجود گرمی شدید تھی نیز تھائی لوگ مُنھ پر ماسک چڑھائے گھومتے پھرتے تھے۔
مصنف نے فلوٹنگ مارکیٹ، شاہی محل اور واٹ پاؤ کے مندر کا نظارہ کرنے کے لیے ٹیکسی بک کی لیکن ڈرائیور کو انگریزی اتنی ہی آتی تھی جتنی مصنف کو تھائی زبان آتی تھی چُناں چِہ نتیجہ با آسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سارے دن کا سفر کس قدر خوش گوار ہو گیا ہو گا۔ واٹ پاؤ کا مجسمہ کسی دھات کا بنا ہوا ہے اور اس مج سمے کا سب سے قابلِ ذکر اور قابل توجہ حصہ اس کی آنکھیں ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یہ آنکھیں سیاحوں پر گڑی ہوئی ہیں۔ ان آنکھوں میں تجسّس ہے، کھوج ہے اور سوال ہے۔ مہاتما بدھ کے دیو ہیکل مجسمے کا نظارہ کرنے کے بعد مصنف نے لانچ کی سیر کی اور اس کے عملے کا سلوک اسے بالکل پنجاب پولیس جیسا لگا۔
اگلی صبح واٹ آرون کے مندر کو دیکھنے گئے جسے طلوعِ آفتاب کا دیوتا مانا جاتا ہے اور شاہی محل کی سیر تو مصنف کو گویا ماضی میں لے گئی۔ بنکاک کے سفاری پارک کی سیر بھی اس سفر نامے کا حصہ ہے جہاں مصنف کو ”شیر“ بہت ہی مطمئن نظر آیا۔ شاید وہ بھی اس بات سے آگاہ ہے:
؎غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر وشبِ مہتاب میں
دنیا رنگ رنگیلی میں طارق مرزا نے ثقافت، تاریخ اور معاشرت کو کچھ یوں یک جا کر دیا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ میں انہیں ایک کام یاب سفر نامہ تصنیف کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور قارئین سے کہوں گا کہ اگر وہ نیوزی لینڈ، جاپان اور تھائی لینڈ کے گلی کوچوں، تاریخی و تہذیبی اور صحت افزا مقامات کے بارے جاننا چاہتے ہوں تو اسے ضرور پڑھیے کیوں کہ طارق مرزا اس سفر میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلے گا اور آپ بھی اس سیاحت سے اسی قدر لطف اندوز ہوں گے جس قدر طارق مرزا ہوئے۔ مجھے امید ہے کہ ماضی قریب میں انہوں نے جن یورپی ممالک کی سیاحت کی ہے وہ جلد ہی کسی نثری پیرایے میں قارئین کے لیے دست یاب ہو گی۔