تصویر کہانی : فرخ ندیم کی وہ حقیقت نگاری جو زبان کی دسترس سے باہر تھی
از، فرخ ندیم
نے…کو…ہاں…نے… کو…کو…کونے…میں ص … ص …ص صدیوں سے پڑا ہوں.. کیا ہوتی ہیں صد… صدیاں… مم معلوم نہیں… نہ ختم ہونے والا لم.. لم…لمبا وقت ہوتا ہے…نبوجی نے بتایا تھا…سارے مر گئے… اِدھر …نبوجی بھی اسی مم …ممم مرگھٹ میں تھا… اس کو گگ گگ گاڑی لے گئی… وہ بھی مم مرگیا…ایک گاڑی لے جاتی ہے ہرمرنے والے کو … بعد ہی کیوں مرنے کے … لے جا سکتی ہے..پہلے بھی…کہاں لے کے جاتی ہے گاڑی…مم…مم…معلوم نہیں…کہتے تھے …مم مم موت کی گاڑی ہے…آندھی کی طرح آتی ہے اور کسی ایک کو لے جاتی ہے…جیسے وہ بھ،بھ بھ بھیانک پرندہ لے جاتا ہے…مم میرانام اُم، اُم، اُم، اُم بگوا ہے… ماں کہتی تھی… اور…نبوجی نے بتایا تھا ..اُمبگوا
تمہیں مجھ سے …ہائے ماں… میرا بایاں ہاتھ… ہلتا ہی نہیں …میری انگلیاں…سوکھی ٹہنیوں کی طرح… بے جان…کتنی آزاد ہیں تمہارے ہاتھ کی… ساری کی ساری انگلیاں…کلہوڑے بھی نہیں تم…تمہیں مجھ سے …کیا بُو نہیں آتی… میراپنجر سا سوکھے کیکر جیسا ننگا جسم …میری کک کک کڑکڑاتی ہڈیاں…میرا کھ…کھ…کھردرا کالامم مم ماس اور یہ …سُوجی ہوئی ناف…گلے سڑے پاؤں…تمہیں ان سب چیزوں سے… دلچسپی ہے… ان سب کو اُٹھاؤ…اور اپنے ملک لے جاؤ…تمہارے بچے تف… تف… تف…تفریح کریں گے…بے شک تم… لگا دینا ٹکٹ… عجیب و غریب جسم پر ٹکٹ ہی لگتی ہے …کیا نام ہے اس کا …عجیب سا نام عجائب گھر…جہاں تم ہر وہ چیز… رکھ لیتے ہو جو بہت نایاب ہو… نبوجی نے بتایا تھا… چبھتی ہے …تمہارے کک کک کک کیمرے سے ٹکراتی سورج کی تیز روشنی …آنکھوں میں میری… میرے پیچھے ایک…گگ…گگ…گدھ ہے… شاید ابھی نہیں … کیوں نہیں لیتے …تم …اس کی تصویر… منڈلاتا ہے وہ ہماری موت بن کر… ہمارے گرد… عجیب ہے پرغریب نہیں…ہاں میں… اُم اُم اُم اُم بگُوا نام ہے میرا… ماں نے بتایا تھا …سن رہے ہو کیا تم مجھے… باپ کا نام گالن گاچو …تم ڈرے نہیں اس کے نام سے… گالن گاچو سے…وہی کھینگر۳۰۲… دیواروں پر جگہ جگہ اس کی تصویریں لگی ہوئی تھیں…تڑ تڑتڑتڑ…دھڑدھڑدھڑدھڑ…ہرطرف آ آآگ اور خ خ خ خون ملادھواں تھا…عورتوں بچوں کی چچ…چچ چیخیں…دھد دھد…دھاڑیں…بین… اورگالن گا چُوکو جلدی تھی…جنت میں جانے کی…معاف کرنا مجھے..میرا…س…سس…سس…سانس ٹوٹتا ہے…اوربری طرح ٹوٹتا ہے …شاید سمجھ جاؤ تم میری بات… سب کچھ ٹوٹوٹوٹتا بکھ بکھ بکھرتا دیکھا میں نے… ٹھیک تھے …ہم سب پہلے …مُکھی بھی…اور ہم سے پہلے بھی سب ٹھیک تھا…نبُوجی نے بتایاتھا…پھر قحط پڑا… اور اپنی اپنی سب کو پڑ گئی…باقی رنگ برنگے آج کہاں ہیں…وہ دیکھنے نہیں آئے…مجھے… اب اس جمائیاں لیتے گگ گگ گگ گدھ سے ڈرنہیں لگتا…گالن گاچُو کک کک کک کک کمپنی کے امیر کو مائی باپ کہتا تھا…نبوجی نے بتایاتھا…توبہ توبہ توبہ …بڑا خطرناک تھاگالن گاچو…میری ماں بھی ادھرہی تھی… گھائل ہو گئی …ان لوگوں کی طرح…آسماں دیکھتی دیکھتی… تم لوگوں کا آسمان بھی…شاید نہیں… ایسے… ایسے نہیں ہوگا ہے .. یہ تمہاراجوتا کتنا صاف ہے… مجھ سے بو آتی ہوگی تمہیں… وہ اس کیکرکی طرح سوکھ جائے گی… ماں جانتی تھی…اس کو بھی گاڑی لے گئی…وہ موٹے پہیوں والی گاڑی… دیکھی ہے تم لوگوں نے …جب وہ سوکھنا شروع ہوئی تومیں نے پہلی بار… دھاڑیں مارتے ہوئے دیکھا…اس کو…وہ جانتی تھی … بہت کچھ جانتی تھی…قسم ہے ماں کی…لو میں بتاتا ہوں… اگر تم سنو تو… مم مم منتیں کرتی رہی گگ گالن گاچو کی…سب لوگ پہاڑوں کی طرف چلے گئے … جہاں ندی ہے…یاشہرہی چلو… کہیں بھی …جہاں ہم سکون سے زندہ رہ سکیں …لیکن ہربار…گالن گا چو قتل کے نن نن نن نشے میں دھددھد…دھت …جنت کے ورد کرتا ہوا نکل جاتابستی سے …جن… جن… جن… جنت چاہئے تھی…میرے باپ کو…ہرحال میں جنت … کاش اس کا نام جنت ہوتا… میری ماں کہتی رہی کہ…مگر اسے جلدی تھی …جنت میں داخل ہونے کی …گالن گاچو کو… پہلے ہی جنت سدھارچکے تھے… اس کے کافی دوست… سو… اسے بھی جلدی تھی… ایسی جنت سے ڈرلگتا تھا…نبوُجی کو… بہت بڑی ہے دنیا، وہ کہتاتھا… ختم ہی نہیں ہوتی …کک کک کک کائنات…گالن گاچوکی طرح جنت نہیں جانا… بہت اندھیری اوردہشت ناک ہے…گالن گا چوکی جنت… گالن گاچو کی طرح … گالن گاچو …میراباپ ہے…ماں نے بتایا تھا… میری ماں کاباپ جج…جج…جج… جوا ہار گیا اور میری ماں اپنا آپ…لوگ کہتے ہیں جج جوڑے آسمان پر بنتے ہیں … ان دنوں نبُوجی زور سے ہنس سکتا تھا…ان دنوں بھی تم آئے تھے فوٹو بنانے…ان تصویروں سے کیا کرتے ہو تم…آسمان پہ بنتے ہیں جوڑے…کیسے مان لوں… امبگوا ہے نام …میرا… ماں نے بتایا تھا…نبوجی نے بتایا تھا…
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایسے لوگ بھی اس علاقے میں دیکھے جانے لگے جو …نبوجی نے بتایا تھا…میری سانسیں…میرا نچلا دھڑ تم دیکھ سکتے ہو …تم نے لال کالی عینک لگا رکھی ہے…یہ میرے دانت …گررہے ہیں …گر رہے ہیں…میرے بال بھی…مجھے لگتا ہے ہر چیز گر رہی ہے…ایسا کیوں ہے…کسی نہ کسی کا ہاتھ ہوتا ہے …ہر چیز کے گرنے کے پیچھے … نبوجی نے بتایا تھا… امن کے لیے …جہازوں کی رسیوں سے گرتے… جویہاں کے باسی نہیں…شش ش…ش ش…ش…شکروں جیسے جہاز اُڑتے … مجھے ان کے نام بھی نہیں آتے… بڑے مشکل اورعجیب سے نام تھے … لوگ عجیب وغریب نہیں تھے… عجیب تو ہم ہیں کیونکہ گریب ہیں…نبوجی نے بتایا تھا… صص صص صاحب لوگ اُترتے… ان جہازوں سے اور… پھیلتے چلے جاتے گلی محلوں میں …جیسے …ل..لل..لاکڑا پھیلتا ہے… جسم پرکاکڑا…جیسے دھ دھ دھوپ کی آگ پھیلتی ہے …تم کتنے آزاد ہو …اپنے جسم سے مکھیاں اڑا سکتے ہو… جسم کالا پتھر تھا…گالن گاچو کا… میرے باپ کا …اس گدھ کی طرح آ زاد… شاید انہی میں سے …یا…باہر سے آنے والوں میں سے کسی نے…کسی نے گالن گاچو کو …دی جنت کی ٹکٹ…وہ اس کو گلے میں لٹکاتا پھرتا…قہقہے لگاتا…پھر دھاڑتا… جن …جن جنگی کپڑے پہن کر…دیواروں پر مکے مارتا…دروازوں پر ٹھوکریں مارتا اور ہم سب کو گالیاں دیتا…گالن گاچو… اس ٹکٹ کی برکت سے…کرختگی …صرف دو مہینوں میں…گالن گاچو کے منہ پر …جیسے ساڑاینٹ پکتی ہے…ایسے پک گئی…بھٹے میں… میں کھانسناچاہتا ہوں …پر میں مٹی سے جڑ چکا ہوں… میرے ارد گرد مٹی نہیں…میرا ماس ہے… دیکھ کے بتاؤ… اس طرح ہوتا ہے …کیا…مٹی کا رنگ …شاید تم جانتے ہو گالن گاچو کو… اس کے ساتھی… اس کی کامیابیوں کی وجہ سے اُسے کھیں…کھیں…کھینگر ۳۰۲ کہتے… جب ۳۰۲ قت …قت… قتل ہوگئے تو کھینگرچھپنے لگا…کبھی اس گھر کبھی کہیں …۳۰۲ گھروں میں مم ماتم ہونے لگا…حبوقبیلے کے …کوئی یتیمی کا رونا رونے لگا تو کوئی بیوگی کا…بندوق کی گولیاں…بم دھماکے…چیخیں دھاڑٰیں …بین…کبھی سنے ہیں عورتوں کے بین تو نے… ایسے ہی بین کرتی ہیں…تمہاری عورتیں… اُدھر حبو قبیلے کے لوگوں نے بھی چچ…چچ… چن چن کرگگ…گگ گاچولوگوں کومارنا شروع کردیا… ہم لوگ گاچو ہیں…نبوجی نے بتایا تھا… نبوجی گاچو تھانہ حُبو… وہ صرف نبوجی تھا…نبوجی نے بتایا تھا… گالن گاچو کی تصویریں جگہ جگہ چپکائی گئیں…پہلے ہی میری ماں تو…گالن گاچو کے لئے مرچکی تھی…کیونکہ، نہیں چاہیے تھی اسے… ایسی جنت …جس میں کھینگر ہی کھینگر ہوں …مگر اسے ملال تھا …کیوں بنتے ہیں…ایسے جج…جج جوڑے آسمان پر… سوکھی لکڑیاں…جب وہ جنگل سے اکٹھی کرکے لوٹتی تو …راستے میں…گگ…گگ…گگ گالن گاچُو کی …جگہ جگہ چسپاں تصویروں کو دیکھتی …ٹھٹھک جاتی …ڈرتی…کانپنے لگتی… اپنا منہ چھپاتی… پھٹے ہوئے کپڑے سے …ایک تصویر…جو ادھر ہے… ابھی بھی تم دیکھ سکتے ہو …ذرا پیچھے مڑو اور دیکھو… میں مڑ نہیں سکتا… مڑ کر دیکھ نہیں سکتا…تم تو آزاد ہو…دیکھی ہو شاید تم نے…اور کتنی دیر تک وہ سہمی سہمی کچھ سوچتی رہتی …بہت دیرتک…کنتی دیر تک…مم معلوم نہیں…شاید میرے بارے میں…ہم سب کے بارے میں…مُکھی کے بارے میں…جو سوکھ رہے تھے …نبوجی نے بتایا تھا… فادر نے کہا …قسمت کا کھیل ہے…اس دن میں سوکھنا شروع ہوا…فادر سے پوچھنا …اور کتنا سوکھنا ہے…اُدھر…جہاں سے تم آئے ہو…میری پیاس…تم کیا جانو…ایسے لوگ ہیں …ہم جیسے… ہم جیسے ہماری قسمت…ایسا نہیں ہے…نبوجی نے بتایا تھا…میں پہلے مر جاتا…کیا فرق پڑتا ہے…سات دن پہلے …مرگیا …نبوجی…اس کو گاڑی لے گئی…مُکھی کی ہڈیاں لے گئی… میرا نام امبگوا ہے…
تو میں بتا رہا تھا…اس دن …کھ…کھ…کھ…کھینگرنے بہت مارا تھا… ماں کو… جنت سے لیٹ ہورہا تھا… پیسوں کی ضرروت تھی اسے…ماں کے پاس کہاں سے آئے پیسے… بھونکتے کتوں کے پیچھے…پکڑو…وہ گیا…جنگل میں… بھاگتی پولیس سے بچتا وہ کبھی کبھار ہی گھرلوٹتا…اور اپنا غصہ …اسے بہت غصہ آتا…کیوں … مم معلوم نہیں…مم مم مم مم مارپیٹ کے بعد ماں کو اپنی جنت کے قصے سناتا… ماں نے… اس دن …میری دوائیوں کا پوچھا …منتیں کیں… واسطے دیے… اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے مگر پھربھی … وہ روئی …پپ پپ پپ پیلی زرد آنکھوں سے…ماں کی… پانی کے قطرے …پانی …نکلے اور خشک جھریوں سے …ماں کی …ہوتے ہوئے تھوڑی پہ پھیلنے لگے …مم معلوم ہے تمہیں کیا…کچھ لکھنا چاہتا تھا…میں…لکھ سکتا تھا…نبوجی نے بتایا تھا… لکھا بھی تھا…اسی گھر میں…ماں کے گھر …وہ مٹی گارے سے بنا …ماں کا گھر…رہ گیا جو میرا تھا، میری ماں کا تھا…رہ گیا سب…کھڑا ہونا بھی مشکل تھا … اس سے…لگتا ہے تم مجھے سن نہیں رہے…کوئی مجھے سن رہا ہے کیا… کوئی بھی تو نہیں…وہ بھی نہیں …جو لیٹے ہیں …دبے ہوئے مٹی میں… گاچو نے کھ کھ کھ کھینگری زبان کھولی اور …کچھ بولتا ہوا بھاگ گیا… جب مجھ سے ملنے آیا نبوجی …تو اس نے بتایا کہ اس کا مم …مم مطلب یہ تھا …کہ… جج جج جنت کی خاطر سب کچھ قربان …میں اسی طرح لیٹا تھا…اُس دن …جیسے تم دیکھ رہے ہو… اس دن اپنے گھر میں لکڑی کے ایک تختے پر تھا… اورآج… میں…امبگوا… ان لوگوں کے ساتھ ہوں… اس کیکر کے نیچے… تم اس کو مم مر گھٹ بھی کہ سکتے ہو…تم کچھ بھی کہ سکتے ہو…تم آزاد ہو…بھوک سے… پیاس سے….قحط سے… نبوجی نے بتایا تھا…یہ گگ گگ گدھ جو مسلسل… میری تاک میں ہے …مری سانسوں کی … اونچے درخت پر بیٹھ کر ہمیں دیکھتا رہتا…ننگی گردن لیے…جیسے وہ کوئی مالک ہو…یا گا چو … مالک اسی طرح کے ہوتے ہیں … نبوجی نے بتایا تھا… گالن گاچو…میری ماں کا مالک… پکڑاگیا…نبوجی نے بتایا تھا …اس دن نبوجی کو بخا رتھا…وہ بہت تپ رہاتھا…اُس نے بتایا تھا کہ وہ گیاتھا کسی ڈاکٹر کے پاس…تم جیسا تھا وہ بھی …نبوجی نے بتایا تھا… دوائی دی اس نے …جنت بھیجنے والی تھی پولیس گالن گاچو کو…خبرسنی میری ماں نے تو…تت …تت…تت… تسلا اس کے ہاتھ سے گرگیا… کئی دنوں بعد ملا تھا … دلیاکھانے کو…بہت سمجھایا محلے کے لوگوں نے…ماں کو …کہ مت جا…مگر اس نے جلدی سے مجھے باندھا… اپنی کمزور کمرسے…کس کے اورکک…ک…کک…کرکڑاتی دھوپ میں چل پڑی …ننگے پاؤں… کھینگر ۳۰۲ سے آخری ملاقات کے لیے …میری سانس…توبہ…ڈوب رہی ہے…میری سانس…میری پسلیوں کے اندر پیٹ کے اوپر نیچے ہونے سے …تم جان اور گن سکتے ہو میری سانس…وہ بھی تیز تیز سانس لے رہی تھی اس دن …وہ تیز تیز بھاگنا چاہتی تھی… مگر کچھ میرے بوجھ اورگالن گاچو کی خبر نے… اس کی رفتار کو کم کردیا… اِدھر اُدھر بہت کچھ دیکھا… میں نے … دیکھے لوگ، لوگوں کے… چچ چچ چچ چہرے دیکھے…چہروں پہ وہ دیکھی …جس کو کہتے ہیں وحشت … نبوجی نے بتاتا تھا۔ جگہ جگہ جلی ہوئی…سڑی ہوئی تھیں گاڑیاں … میری ماں ڈراکرتی… مٹی گارے سے بنے ہوئے گھرکی… بھی دیکھ بھال ایسے کرتی …جیسے کوئی سوکھی ہوئی بھوکی بیا کیاکرتی تھی…ماں کی جنت تھا…یہ سوکھا گھر… جہاں… رہ گئیں میری ہری بھری کہانیاں… کھیلا کرتے ہم…ا ب پ ت ٹ پڑھتے نبوجی سے…کہانیاں سنتے…صاف ستھری پرسکون جگہ کو کہتے ہیں… جنت… نبوجی نے بتایا تھا… مایوس ہی رہتی …لیکن میری ماں…کیونکہ پسند نہیں تھی یہ جگہ گالن گاچو کو ۔ تولگتا ماں کو …جب وہ بکتا بے تحاشہ گندی گالیاں …جیسے ک ک کر کرگئے ہیں پیشاب کتے… بعد جانے کے اس کے… بعد وہ پوچے پرولے میں مصروف ہوجاتی… آنسو بہاتی…اُن دنوں کی بات ہے…جب ہم کچھ ٹھیک تھے … آج وہ اس ر شتہ دارسے ررررر رشتہ داری نبھانے جارہی تھی… ۳۰۲ افرادکا وہ قاتل تھا…میرا باپ…گالن گاچو… آسان نہیں اتنے لوگوں کو مم مم مم مم موت کے گھاٹ اُتارنا…آسان نہیں …مارنا اتنے لوگوں کو…کچھ بھی کیا جاسکتا ہے …مگر جنت کے لیے…لڑائی میں… حُبو اور گا چو قبیلوں کی… جنگ میں… انسان… مارے گئے…بے گنا…کسی کو کوئی احساس نہیں…نبوجی نے بتایا تھا…پھر… ویسے ہی …حکومت بدلی…تم جیسے لوگ بھی آگئے مدد کو …نبوجی نے بتایا تھا… شکرے جیسے جہازوں سے اُترنے لگے… رنگ برنگے لوگ… کوئی کسی بہانے اور کوئی کسی بہانے دوائی بیچنے …کوئی …بب بب بب بارود…کئی لوگ… ان میں سے… جارہے تھے… گالن گاچو کی تصویریں لینے کے لیے…جا رہے تھے…اس وقت بیٹھ سکتا تھا…میں …کچھ کھا سکتا تھا…وہ جو درخت ہے سوکھا ہوا…اس کے نیچے …کچھے پہنے اپنی گاڑیوں کے ذریعے کش کاچو…جا رہے تھے… تم کُش کاچو جانتے ہو…وہاں بھی گئے تھے تم…فلمیں بنانے… پہلے کبھی …بعد میں بھی … نبوجی نے بتایا تھا…کتنی تکلیف دہ جگہ ہے…کیا ہر جگہ تکلیف ہے…دنیا میں… تمہاری طرف قحط ہے کیا… امبگوا کو دیکھو…
سورج ماری ریت پہ…دیکھی ہوگی …تم نے وہ کا لی کالی ریت تو …جھ۔جھ…جھ…جھُلسی ہوئی ریت …بہت گر م ریت تھی وہ …جس پر ماں چلی اور کتنی دیر چلتی رہی… تمہاری ماں کبھی ایسے چلی…نہیں …اچھا … لمبی قطاریں ہوتی ہیں… تمہارے ہاں توگاڑیوں موٹروں کی…نبوجی نے بتایا تھا… پھر…پھر آئی ایک ویران سڑک …صاف سنائی دے رہی تھی… ماں کے قدموں کی آوازمجھے… ابھی تک یاد ہے…پاؤں گھسیٹتے چل رہی تھی… ایسے ہی میرے سانس تھے …زخمی تھیں…اسکی ساری انگلیاں زخمی تھیں… یا ورم تھے ان میں… جو اس نے سر پہ کپڑا باندھا ہوا تھا نا…پٹیاں کی ہوئی تھیں اس نے اسی کو توڑ توڑ کے … انگلیوں کی…پانی پلانا چاہا… کئی باراس نے…مجھے …لیکن ایک بوند نہ ملی پانی کی… امبگوا کو…
اس کے آگے…ہمارا علاقہ ختم… حبوقبیلے کے گاؤں تھے۔ جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت میں… لوگ چپلیں گھساتے… بڑھ رہے تھے کک …کک کش کاچو کی طرف …بڑھ رہے تھے قافلے…سب کے سب حیران تھے کہ ایک آدمی اتنا سف …سف سفاک کیسے ہو سکتا ہے…سفاک …ایسے آدمی کو سفاک کہتے ہیں…نبوجی نے بتایا تھا… جج…جج جنگ اور لل لل لڑائی مردوں کا کھیل ہے… بیچارے بچوں اور عورتوں کا کیا قصور… کیا دوش…لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ انتقام ان…ان…ان اندھا ہوتا ہے…نبوجی نے بتایا تھا…مرنے سے پہلے… یہ عمر نہیں دیکھتا بس موت دیکھتا ہے دشمن کی…نبوجی نے بتایا تھا…میری عمر …کتنی ہوگی تمہارے خیال میں…چھوڑو …کیا فرق پڑتا ہے…ایک سوکھے ہوئے پودے کی عمر سے… کیا لینا دینا… کسی سے نہیں تھی …گالن گاچو کی ذاتی دشمنی …توکسی سے نہیں تھی دوستی …مگر بن گئی … اسے نفرت تھی…کیوں؟مم معلوم نہیں …حبو قبیلے سے…سب کچھ سکھا دیا تھا اسے امیر صاحب کی صحبت نے…اور کمپنی بہادر… اور ایک مہربان رہنما نے… تودے دیا اسے ٹکٹ جنت کا… اورموت کا…یہ ٹکٹ ہی اس کی پہچان تھی اس کی یہ ٹکٹ… اسی وجہ سے وہ نہ سوکھا … نبوجی نے بتایا تھا… اکھڑ رہے ہیں میرے سانس …اب …چلتے چلتے ماں… کبھی کبھی مجھے بلانا شروع کردیتی … اس ڈر سے کہ… کہیں میں گزر ہی نہ گیا ہوں… دیواروں اوردرختوں پر …جگہ جگہ کھ…کھ کھکھ کھینگر ۳۰۲ کی تصاویر اس کی توجہ ہٹا دیتیں… اور وہ بڑھ جاتی آگے ہائے ہائے کرتی …کراہتی سماج کے بوجھ تلے… اس کے کمزور جسم سے بندھا …میرا وجود مجھے خود …بب بوجھ سا محسوس ہورہا تھا… کسی کو نہیں معلوم تھا کہ… ہم کون ہیں…کیوں ہیں اورکہاں جارہے ہیں… دیکھتے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر… دیکھتے… کہ… کدھربھاگ رہی ہے…قتل و غارت گری کے ماحول میں …یہ عورت بچہ اُٹھائے…بندوقوں والے پاس سے گزرے بھی تھے… گروہ … کبھی حبو اور کبھی گاچو … مقصد ایک تھا… جنت … کھڑے لوگ جگہ جگہ فائرنگ اور شور شرابے سے …کرتے ان کا سس سواگت… کرتے شور… بعدان کے جانے کے… رہ جاتی وہی ماں کے قدموں کی آواز… پھر میری آنکھ لگ گئی… بتاؤں پھر کیا ہوا… سس سس سن رہے ہو کیا تم مجھے …میری پپ پپ پسلیاں…تم گن رہے ہو کیا… دیکھو جھڑتے جھڑتے کیا رہ گیا ہوں میں…میں امبگوا…
جب آنکھ کھلی… تو منظر… بہت بری طرح بدل چکا تھا…کیا تم نے نہیں دیکھا… ہر طرف فف…فف …فوج اورپپ…پپ…پولیس تھی… جو لوگوں کو کن… کن …کن کنٹرول کرنے میں تھی مصروف …تھی بہت سخت…ماں کراہتے ہوئے پنڈال کی طرف بڑھ رہی تھی… ایک بڑاسامیدان تھا…جس کے درمیان… گالن گاچو…میرا باپ… رسیوں سے جکڑا… ایک ٹیلے پر بیٹھا ہوا تھا جیسے ریچھ… جکڑے رسیوں میں… اس کی آنکھوں پر بھی …پٹی بندھی ہوئی تھی…اسے جلدی تھی جنت کی… نبوجی نے بتایا تھا… انتظار کر رہی ہیں حوریں اس کا…جنت میں …بولا تھا…ایک دن… اس نے ماں سے …جنت ایسے نہیں ملتی…بولا تھا …مارنا مرنا پڑتا ہے…کچھ و ردیوں والے …اس کے اردگرد… دائرے میں کھڑے …اور کچھ… گھوم رہے تھے …آس پاس…قاضی نے …سپیکرلیا ہاتھ میں …لیا نام اور حضرات… کہا… اورہو گیا سس سس سکتہ طاری مجمع پر … اس کے ساتھ ہی ماں نے…امبگوا کی ماں نے… قدم رکھا پنڈال میں …ہزاروں…پھٹی پھٹی…آنکھیں… نظروں سے ماں کی طرف دیکھنے لگیں… مگر ماں کی نظریں گالن گگ..گگ…گگ….گاچو پر جمی ہوئی تھیں…لوگ… ایک دوسرے سے اوپر اُٹھ اُٹھ کر دیکھنے لگے… کہ آخرماجرا کیا ہے…ہزاروں مردوں کے درمیان سے…یہ عورت کون ہے اورراستہ بناتی… خاموشی سے… کک کک کک کدھر جا رہی ہے…جواربابِ اختیار تھے… نبوجی نے بتایا تھا… کہ وہ اربابِ اختیارتھے …وہ سمجھ چکے تھے… اُنہوں نے عوام کو …خاموش رہنے کی تاکید کی… ماں آگے بڑی اور آگے … اب اس کے سامنے ایک شخص تھا…میرا باپ …کھکھ کھینگر ۳۰۲… ماں نے… گالن گاچو کی بیوی نے… اس کی آنکھوں سے بندھی پٹی نیچے کی … سبھی نے …لوگوں نے …ماں کو… ایک دوسرے کے … اُٹھ کر دیکھا…کے کندھوں کے پیچھے سے… پھر ایک دم کچھ ایسا ہوا …کہ سارا ہجوم کھڑا ہوگیا …یہ گالن گاچو کے…ماں کے خصم کے… سخت گال پر…پڑنے ولا تھا ماں کا تھپڑ… کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا… کہ ایسا ہواکیوں … نہ ہی کسی نے… پوچھا آگے بڑھ کے …بس… سب لوگ دیکھتے رہے …بیٹھے تماشا …اس کے بعد…ماں مڑی واپس… اورمڑی گردنیں لوگوں کی… لوگ اونچی اونچی آوازوں میں کچھ بول رہے تھے … جونہی ماں پن پن پنڈال سے باہر نکل کر… واپسی کے راستے پر مڑی… تو …تڑتڑتڑ… کی آواز آئی…مجھے ایسا لگا جیسے… کسی نے…ماں کو…. گولی ماردی ہو…وہ اس طرح اندرسے ہل گئی تھی…گرتے گرتے بچی…مگر وہ آگے کی طرف چلتی رہی…میں نے پیچھے مڑکر دیکھا … گالن گاچو… اوندھے منہ گراہواتھا… وہ اپنی جنت پہنچ چکاتھا… اسے بہت جلدی تھی…جنت جانے کی …نبوجی نے بتایا تھا… ایک دفعہ بھی …پیچھے مڑکر نہیں دیکھاماں نے.. گھر پہنچنا چاہتی تھی …جلدازجلد یا پھر شام سے پہلے وہ اپنے… جیسے وہ گاچوسے پیچھا چھڑارہی ہو…ماں…ہم دونوں بھوک سے نڈھال ہورہے تھے…بیماربھی تھی ماں اور سوکھ رہی تھی… جیسے درخت سوکھتے ہیں…درختوں کے پتے…ہمارے گھر…ندیاں نالے…سوکھتے ہیں…پاس سے رنگ برنگے لوگوں کے قافلے گزررہے تھے… موٹے کالے شش شیشوں والی عینکوں…جیسے تمہاری ہے…کے پیچھے آنکھوں کا مجھے پتا بھی نہ چلا کہ… وہ… ہمیں دیکھ رہی ہیں یا نہیں… لیکن موٹی توندوں والے لوگ بھی تھے…وہاں…کھڑے ہوئے… کاسے لیے …سکے ڈال رہے تھے وہ ان کاسوں میں… ماں جیسے… میرے جیسے… نبوجی جیسے… کتنے لوگ تھے … جنہوں نے… کئی دنوں سے …کچھ بھی نہ کھایاتھا…یہ ہمارے لیے نہیں آئے تھے…. نبوجی نے بتایا تھا … ایک گھونٹ پانی کا نہیں تھا…ق قحط زدہ زمین پر جو ہم پیتے … سڑک سے کچھ دور… ماں کو… کیکر نظر آیا…ایک سوکھا سا… گرتی پڑتی وہ…امبگوا کی ماں… وہاں لے گئی…مجھے …سارے راستے میں نے… ایک دفعہ بھی پیشاب نہ کیا … ادھر ادھر دیکھا… ماں نے… خررخررخررخرر کی آوازآنے لگی میرے حلق سے… ماں نے… فوراََ… اپنے بالوں کو… دوچاربل دیے… اور …اپنے پسینے سے تر کیا…میرے حلق کو…کتنی دیر…بہت دیر تک… ہم دونوں جھ جھ جھلسا دینے والی گرمی میں۔ ٹٹ ٹوٹی ہوئی سڑک کی طرف… دیکھتے رہے… بہت سارے لوگ وہ تھے… جو… گالن گاچو کو دیکھنے گئے تھے… اب وہ پہچان رہے تھے… ان میں سے کچھ اندھا دھند گولیاں چلا رہے تھے… نعرے لگاتے جارہے تھے… شاید انہوں نے پیٹ بھر کر کھاناکھایا تھا… پتہ نہیں وہ ہمیں دیکھ کر کیا سوچتے تھے… پڑے ہوئے تھے… جگہ جگہ مم مرے ہوئے جانوروں کے ڈڈڈھانچے… جن کے گرد گدھ کھڑے تھے…گدھ…ان کی آنکھوں میں بھوک ہوتی ہے…نبوجی نے بتایا تھا… امبگوا کو …بھوک سے نفرت ہے…ککانٹے دار جھاڑیاں… ہوا سے اُڑتی …راستوں پرپھیل رہی تھیں… اور ماں ان سے اپنے پھٹے ہوئے …جھلسے ہوئے …پاؤں بچاتی گاؤں در گاؤں… واپس چل رہی تھی… ماں…ہاتھوں میں… برچھیاں اور بندوقیں لیے…جوان اور بوڑھے… اپنے گھروں کی… دیواروں کے سامنے کھڑے… وہ تو تاؤ دے رہے تھے…نن نفرتوں کو …ایک بیماری ہے…نفرت …نبوجی نے بتایا تھا… پھر بھی کچھ نہیں سوچتے تھے… وہ لوگ… یہ دنیا ایک نن نرک ہے… ان لوگوں کے لیے… جج جنت کے متلاشی تھے… یہ سب…نبوجی نے بتایا تھا…تن ڈھانپنے کو کپڑا پورا نہ تھا پربربر برچھیاں اور بندوقیں چمک رہی تھیں نفرت سے … ان کی آنکھیں تھیں …خونخوار جانوروں کی طرح…خونی…جیسے میں پیشاب کرتا تھا… اب نہیں کرتا…اب بچا ہی کیا ہے جو کروں… تھوڑی دیرماں مجھ پہ جھکی رہی… سوکھے کیکر کے سوکھے سائے میں …جھکی رہی …اس کی بوُ اس مٹی جیسی تھی جو میرے نیچے ہے… سونگھی ہے کبھی تم نے…بند ہو رہی ہیں میری آنکھیں…تمہارے سر پہ ایک ٹوپی ہے دھوپ سے …تم بچ رہے ہو…کوئی بھی حصہ …تمہارے جسم کا… ننگا نہیں… ایک تھیلا بھی ہے… کیاہے اس میں…بوتل ہوگی پانی کی… میرے قریب آسکتے ہو کیا… اِدھر… اپنی چھج جیسی ٹوپی میرے جسم پر رکھ دو… تو کاٹنے والی مکھیاں … بہت درد ہوتا ہے… نہ کاٹ سکیں…یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں … کس سے کر رہے ہوباتیں…مکھی بہت یاد آتی ہے… امبگوا کو…
آٹھ دس دفعہ کی کوشش کے بعد ماں اُٹھی… اس کے چلنے کی آواز مجھے بہت اچھی لگی… عام لوگوں کی طرح…میں بھی… چلنا چاہتا تھا…تمہاری طرح…ایسی چیزیں میری بھی ہوتیں…مگر تم لوگ عام نہیں …نبوجی نے بتایا تھا… وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی… ہماری شہرت جگہ جگہ پھیل چکی تھی… اسی لیے …طواف کر رہی تھیں بہت سی سوالیہ نگاہیں…ماں کا … ایک کوس … دوکوس… تین کوس … ایک گاؤں…دوگاؤں… تین گاؤں… گاؤں در گاؤں…کئی میل ہم ایسے ہی چلے …کاش …میں چل پھر سکتا اس وقت…کلانچیں بھرتا …ہرن کی طرح …ماں کے آگے پیچھے…لوگ ہمیں دیکھتے رہے… ”آخر کیوں” یہ کسی نے نہ پوچھا… نہ کسی نے دودانے بھی کھلائے… ککھلائے گا کون… بن چکے ہیں…لٹیرے مالک بن چکے ہیں …نبوجی نے بتایا تھا… جو دینے والے تھے وہ تو سوکھے ہوئے کیکروں کے نیچے …کب سے سوکھ رہے ہیں … زندہ ہیں نہ مردہ… باقی سب لینے والے ہیں…مم مال …جج جان…جینے کا حق اورخخَ …خخ خون … نبوجی نے بتایا تھا… شام سمے ہم گھر پہنچے اور… بستی کے باہر…نبوجی تاپ سے آگ ہورہا تھا… کھڑا ہونا بھی مشکل تھا… سوکھی شاخ تھی… اس کے ہاتھ میں …تا کہ کوئی جانور ہمیں نن نن نقصان نہ پہنچائے…یہ جنگلی جانور کھاتے تھے…اب کمزور انسان…مُکھی…کھا گئے…سب اکٹھے ہو جاتے ہیں… ہمارے بارے میں وہ بہت فکرمندتھا… آج بھی پانچ لوگ سوکھ کے مر گئے…نبوجی نے بتایا تھا… سب کو گاڑی لے گئی…میرا نچلا دھڑ سُن ہو چکا ہے… جب نبوجی مرا تو اسکا سارا دھڑ سُن ہو چکا تھا… میں رو رہا ہوں … کئی دن ہم اکٹھے یہاں مرتے رہے… اور ایک دن گاڑی نبوجی کو بھی لے گئی… اس سے پہلے ماں کو لے گئی…دیکھتے رہے …مکھی …نبوجی اور میں…روتے رہے… مجھے بھی لے جائے گی …وبا ایسی پھوٹی…یہ وبا تمہاری طرف بھی پھوٹی ہے کیا… نہیں …وبائیں اِدھر ہی کیوں …تم کبھی بھوکے سوئے ہو…ہم سب…ہاں ہم سب… انسان ہیں …نبوجی نے بتایا تھا… اسی سوکھے کیکر کے نیچے ہم نے اکٹھے سوکھی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا… ہمیں حفاظتی ٹیکے لگائے گئے اور …سوکھنے کا عمل… اور…تیز ہوتا گیا…اور…اب یہ حالت ہے…جوتم دیکھ رہے ہو…میری تصویریں مت بناؤ… کئی بدرنگے پہلے بھی آئے… گالن گاجو کی بیوی کی تصویریں بنائیں اور چلے گئے…پیچھے رہ گئی نفرت اور بد بختی… کچھ فرق نہیں پڑتا … میری تصویریں بھی مت بناؤ… میری بات سنو… میرے لب ہل نہیں رہے کیا…کئی دنوں سے میں نے ک…ک…ک…کروٹ نہیں لی …مجھے زمین کھا رہی ہے… میں نے بھی کئی بار مٹی کھائی اورکچھ کھانے کو… اس کو مرگھٹ کہتے ہیں… نبوجی نے بتایا تھا… یہ جو گدھ میرے اردگرد منڈلا رہاہے… یہ روزمجھے دیکھنے آتا ہے… گالن گاچو بھی ایسا ہی نظر آتا تھا… یہ نبوجی کو بھی دیکھنے آتا تھا… کمپنی بہادررکھا تھا… نبوجی نے اس کا نام…تم کمپنی بہادر نہیں ہوکیا…مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے… مجھے دیکھو میں ہنس رہا ہوں کہ نہیں… کسی کو کچھ پتا نہ چلا …بب بب بیماری ہماری ہڈیوں میں اتر گئی… تم نے وہ تصویرتو دیکھی ہوگی…سوکھی ہوئی چھاتیوں سے… چمٹا ہوا ایک لل لاغر بچہ …ننگی پیٹھ والا…بس یہ ہے میرا بچپن اور میری کہانی…میرا پیٹ دیکھو…جس سے میں نے جنم لیا تم نے وہ کوکھ نہیں دیکھی…کیا تم نہیں دیکھ سکتے… کچھ نہیں کیا…دیکھنے دکھانے سے آگے… وہ … ہو سکے تو دیکھو … ان پہاڑوں کے پیچھے سے ایک گدھ اُڑا ہے… وہ اِدھر ہی آرہا ہے…یہی ہے وہ اس نے ماں کے بازوؤں پر پنجے گاڑ کر اس کی آنکھیں نکال لیں… یہ دیکھو…یہ میری طرف بڑھ رہا ہے… ہاں یہی تھا… میں نے …میں نے…میں نے… پہچان لیا ہے …یہ یہیں آ رہا ہے… اس کی مکروہ…ہنسی بہت خخ خطرناک ہوتی ہے…نبوجی نے بتایا تھا… اس نے نبوجی کو نن نن نوچ ہی ڈالا …وجہ… یہی نا کہ نبوجی امبگوا کا دوست تھا… مکھی کا دوست….اسے کہو مت پھینکے …میرے منہ پر سس سس سگریٹ کا دھواں … اچھا…تمہاری عینک… اس نے تمہاری عینک لگالی ہے… اس کی چونچ میں تیز نوکیلے دانت ہیں… یہ دیکھو بے شرم کہیں کا …کتے کی طرح پیشاب کررہا ہے… تم نے اخباروں میں تو پڑھا ہوگا…چھوڑو…کیا فائدہ بتانے کا …بتاؤ کچھ ہے… اس نے اخباروں کے اخبار کھا لیے… ڈکار مارکر قے کردیتا ہے… یہیں نبوجی لیٹا ہوتا …میرے سامنے اس ٹیلے پر…اس بد رنگے گدھ نے …اپنے مم مم مم موبائل کے کیمرے سے اس کی فلمیں بنائیں… اس کے کمزوربدن کو جھنجھوڑتا… آنتڑیاں ادھیڑتا… ہڈیاں چباتا، ڈکار لیتااور تصویریں بناتا… چونچ اس کے منہ میں داخل کرکے زبان تلاش کرتا… یہ نہیں ہوسکتا … نبوجی نے بتایا تھا… وہ اپنی زبان وقف کرچکا تھا… یہ نبوجی کی چھاتی پر… بیٹھ کے… چیختا …اس روز سے…کہ لوگ مرنا بھول جاتے… اور آخر… ایک دن… تنگ آکراس نے… اس کا صفایا کردیا… اس دن کے بعد…نبوجی نے …کچھ نہ بتایا … رہے سہے …یاتم کہہ سکتے ہو کہ باقی ماندہ …میری سانسیں … اُف… نبوجی کو…گاڑی لے گئی…کہاں جا رہے ہو سنو…رکو …تم سن رہے ہونا…مکھی کہاں ہے…بچاؤگے نہیں مجھے…اس گدھ سے… ہر چیز …کھیت…بستی…ماں …سوکھے درخت… غائب … تصویر… تھپڑ…گدھ…زبان… سوکا…گالن گاچو…ہاں …کھینگر تین سودو پاگل تھا۔کھوتا…بیوقوف… تڑتڑتڑ… دھڑدھڑدھڑ یہی کرتا تھا وہ… روایت کے حکم سے… تکمیل ہوتی … گدھ کے ہاتھوں …پیچھے اس امام دے… منہ طرف … کمپنی بہادر…میری سانسیں …میری زبان…گاڑی … میرے کان میں … نن نن نن …نبو…نبو…
اعتراف: میرا نام ڈورین مرے ہے اور میں تاریخ اور فکشن کے ملاپ سے جنا ہوا کردار ہوں۔ میں ساری زندگی سیر وسیاحت ، تاریخی مقامات اور تصویروں کے حسن کا قائل رہا۔ میری لگن اورشوق نے مجھے اتنا مشہور کر دیا کہ ہر ہر بڑے گھر، بڑے دفتر یہاں تک کہ ہر ملک کی ایمبیسی میں میرے کیمرے سے بنی ہوئی تصویریں لٹکنے لگیں۔ ملکی اور غیر ٹی وی چینلز پہ میری اور میری تصا ویر کی تشہیر اس لیے بھی ہونے لگی کہ ان میں تہداری تھی۔ ایک دن ایک سکول کے سامنے گزرتے ہوئے ایک آٹھ سالہ بچی نے مجھے پہچان لیا اور پوچھنے لگی “انکل آپ کی تصویر اہم تھی یا انسانی زندگی…؟” اس دن سے آج تک میں کئی بار جیا اور مرا۔ سارے حالات وواقعات میں نے بیان کردیے ہیں۔ مجھے معاف کردینا۔ گولی چلا رہا ہوں… اللہ حافظ۔
نوٹ: افسانے کے تمام کردار فرضی اور علامتی ہیں لہذا کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ مصنف نے یہ افسانہ ”تصویر کہانی” کے نام سے میل کیا ہے ۔ ابھی تک تو خیریت سے ہے اورنبوجی کی زبان سیکھ رہا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.