طاؤس فقط رنگ ، ناول از نیلم احمد بشیر، لاہور، پاکستان
پبلشر سنگِ میل، لاہور 2018
تبصرۂِ کار: نعیم بیگ
’’لمبی کہانی ہے، پندرویں صدی میں ہسپانوی، ولندیزی ، فرانسیسی، انگریز، بہت سی گوری اقوام نے پانی میں گھرے خوب صورت جزیروں کا رخ کرنا شروع کر دیا اور سوچا، انھیں اپنی کالونی کیسے بنایا جائے۔ ہمارا گیانا بہت زرخیز اور سرسبز تھا۔ تمباکو، کافی اور گنے کی فصلوں سے مہکتا ہوا، ہمیشہ کی طرح ہوا دار۔ گورے تاڑ گئے کہ یہاں سے دولت کمائی جا سکتی ہے۔ پھر انھوں نے افریقہ سے بلیک اٹھائے اور غلام بنا کر انھیں وہاں آباد کرنا شروع کر دیا۔‘‘
یہ مختصر اقتباس’ طاؤس فقط رنگ‘ سے ہے۔ ہجرت کایہی تاریخی پس منظر مجھے صفدر زیدی کے ناول ’’ چینی جو میٹھی نہ تھی ‘‘ میں بھی ملا۔ وہاں گیانا کے ساتھ سرحدیں جڑا ملک سرینام بھی ہے، جس پر ولندیزیوں نے قبضہ کیا تھا اور انگریزوں نے ہندوستان کی ورکر کلاس کو ہجرت کے لیے ولندیزیوں پر بیچا۔ جن میں سے بچے کچھے ہندوستانیوں کو سو برس بعد سرینام کی آزادی پر ہالینڈ کی شہریت دے دی گئی۔
’طاؤس فقط رنگ‘ کا یہی پہلو مجھے سب سے زیادہ دلچسپ اور آفاقی لگا۔ نیلم احمد بشیر نے جہاں مختلف تارکین وطن امیگرنٹس کے رسم و رواج، ثقافتی ڈسکورس پر کھل کر گفتگو کی ہے وہیں مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ انھوں نے شعوری کوشش سے مغرب اور مشرق کی اقدار کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے۔ آپ اگر طاؤس فقط رنگ کے مرکزی کرداروں کے درمیان ہونے والی گفتگو اور اس سے اخذ ہونے والے نتائج کوفکری جامہ پہنائیں تو آپ جان پائیں گے کہ مصنفہ کے لاشعوری محرکات ان عوامل کو مہمیز دیتے ہیں جہاں موریلیٹی مشرق کا طرہ امتیاز ہے۔ خاندانی طرز فکر اور بود و باش ان کے اندر رچ بس گئی ہے۔ اس حد تک بھی کہ مرکزی کردار ’مراد‘ ناول میں کئی بار’بارن امریکن‘ کہنے کے باوجود مشرقی اقدار کی تلاش میں ہے۔
نیلم احمد بشیر سینئر ادیبہ ہیں۔ ان کے اکثر و بیشتر افسانے میں نے فیس بک پر پڑھے، جنھوں نے ہمیشہ ایک نئی سوچ اور فکر کی راہیں وا کیں۔ نیلم کو دھرتی کی ثقافت اور سماجی ماحول میں ایک ایساہی اجالا ملا، جو تاریکی میں الجھا ہوا تھا۔ پاکستانی معاشرے کی نوزائیدہ اور نو دمیدہ تہذیب کے پس منظر میں صدیوں پرانی جذب اخلاقیات امریکا کے ثقافتی طرز فکر سے اگر مٹتی نہیں، لیکن مرجھا ضرور جاتی ہے۔ جس سے دلوں میں مچلتی ہوئی زندگی اور فکر کی جولانی مقید ہو کر ایسے دکھ کا نغمہ بن جاتی ہے جس میں ذات، ممات، تہذیب و تقدیر سبھی تحلیل ہوکر ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی طور پر مضبوط اور تہذیبی طور پر مستحکم اقوام اس آمرانہ جنون کو سہا رلیتی ہیں۔
اس ناول کا ایک اور پہلو، گو اپنے فکری جڑت میں مکمل نہیں، لیکن کسی حد تک زمانی حدود میں رہتے ہوئے نائن الیون کے تناظر کو واضح کرتا ہے۔ امریکی تہذیب میں نائن الیون کے بعد کیا فکری و سماجی تبدیلیاں آئی ہیں ، قاری بخوبی اس ناول کے توسط سے اِن نشانات کو تلاش کر سکتا ہے۔
نیلم احمد بشیر کے فن کے بارے میں ایک بات ضرور کروں گا کہ نیلم کو لکھتے ہوئے حقیقی زندگی کے کسی سراب یا روحانی طلسم کدے کی ضرورت نہیں، نہ ہی وہ کسی سہاروں کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اِس کے لیے حقیقت کا فریب ہی اس قدر جاذب نظر ہے کہ وہ کسی اور سمت نہیں دیکھتی۔ وہ اس چکاچوند روشنی میں بھی پوری تازگی، بشاشت کے ساتھ لہجے کی سلاست و فصاحت کو لے کر آگے بڑھتی ہے، جو بنیادی اور ٹھوس زندہ حقیقتوں کی عکاس بن جاتی ہے۔
نیلم کا ادبی سفر حقیقت سے سچائی طرف جستجو کا سفر ہے۔ ناول کے حوالے سے ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا۔ ناول کے بیانیے کو حقیقت سے فکشن اور فکشن سے سچائی کی طرف سفر کرتے ہوئے جواز کی دنیا میں ہی رہنا چاہیے۔ اگر کہانی جواز سے باہر نکلے گی، تو وہ بیانیے کی سچائی قاری کو بیچ مُنجدھار مایوس کردے گی۔ طاؤس فقط رنگ میں مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا ہے۔
نوٹ از مصنف: یہ مختصر اظہاریہ ناول ’طاؤس فقط رنگ‘ کے اوپن سیشن منعقدہ رہائش گاہ محترمہ روما رضوی مورخہ ۴ فروری ۲۰۱۸.ء میں پڑھا گیا.