ٹیکس ایمنسٹی اسکیم : وقت پیری شباب کی باتیں
از، ملک تنویر احمد
گزشتہ پانچ برسوں میں اقتصادی ترقی و خوشحالی کے جن دل فریب اور خوشنما نعروں کو بلند کرنے سے نواز لیگی معاشی بزرجمہروں کے حلق تک خشک ہو گئے تھے ان میں صداقت اور حقیقت پر عام پاکستانیوں کا اعتماد و یقین تو رو ز اول سے نہیں تھا تاہم قائد پاکستان مسلم لیگ نواز اور ان کے معاشی جادوگر اسحاق ڈار کی تصویروں سے مزین اشتہاروں سے متاثر ایک اقلیت خوش فہمیوں کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔ لق و دق صحرا میں بھٹکنے والے جیسے سراب کے تعاقب میں کسی نخلستان کو پانے میں بامراد نہیں ٹھہرتے ویسے ہی ڈار نامی معاشی جادوگر کے طلسم سے بنا ہوا معاشی ترقی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتا ہے جب موجودہ حکومت وقت رخصت ٹیکس ایمنسٹی جیسی ’’نادر روز گار‘‘ معاشی حکمت عملی کو بیمار معیشت کے لیے نسخہ اکسیر قرار دیتی ہے ع
وقت پیری ، شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
نواز لیگ کی حکومت میں دو صاحبان ہیں جنہوں نے نواز لیگی معاشی حکمت عملی کے ایسے ایسے پہلو قوم پر آشکار کیے کہ جس کے بعد پاکستان بہت جلد ایشیا اور دنیا کی صف اول کی معاشی قوتوں میں شمار ہونے والا تھا۔ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے وژن 2025نامی ایک دستاویز تیار کرائی اور اقتصادی ترقی کے لیے نواز لیگی حکمت عملی کے ایسے ایسے راز طشت ازبام کیے کہ بندہ سنتا جائے اور سر دھنتا جائے۔
یہ موصوف شراکتی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے داعی ہیں اور اس بناء پر پاکستان کو اگلے چند برسوں میں اقوام عالم میں پاکستان کوپندرہ بیس اقتصادی قوتوں کی صف بندی میں پاکستان کو کھڑا کرنے کے لیے نئے نئے منصوبے تراشتے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار نامی نواز لیگی نے پاکستان کی معیشت کی ایسی دلفریب اور رنگین تصویر اتار کر قوم کی آنکھوں کے سامنے لہرائی کہ اس کے بعد تو شاید پاکستان کے اقتصادی اعشاریے دنیا بھر کی اقتصادی قوتوں کو مات دینے والے تھے۔ ایک موصوف کرپشن کے مبینہ الزامات کے بعد احتساب کے خوف سے لندن جا پہنچے اور دوسرے اقتصادی منصوبہ بندی کے بطن سے ناکامی و نامرادی کے دھول چاٹنے کے بعد ملک کی داخلی سلامتی کی صورت حال کے رخسار سنوارنے کے فریضے پر مامور ہو چکے ہیں۔
اب جب کہ حکومت جانا ٹھہر گیا کہ فقط ڈیڑھ مہینے کے بعد ایک نگران حکومت زمام کار سنبھالنے کو ہے نواز لیگی حکومت کے نخل فکر پر ایمنسٹی اسکیم کا شگوفہ پھوٹا۔ اس اسکیم کو دل آویز اقتصادی اصطلاحات اور منطقوں کے لبادے اتار کر اگر سیدھے سادھے الفاظ میں پیش کیا جائے تو یہ اس کالے دھن کو سفید کرنے کی اسکیم ہے جو اس ملک کے وسائل کے لوٹ کر بیرون ملک جمع کیا گیا تھا۔ پانچ برسوں میں اگر معاشی سدھار کا یہی کارگر نسخہ حکومت وقت کے فہم و حکومت کا حاصل ہے تو اس پر سوائے ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
اس حکومت کی معاشی پالیسی توروز اول سے نقائص اور خامیوں میں لتھڑی ہوئی تھی لیکن قوم بیچاری ایسے گنجلگ مسائل میں سر کھپانے سے باز ہی رہتی ہے جہاں اسحاق ڈار جیسے معاشی بزرجمہر خوشنما اقتصادی اصطلاحات اور اعداد و شمار کے ذریعے اس قوم کو ایک روشن کل کی نوید سنا رہے تھے۔مشکل اور پیچیدہ اقتصادی موضوعات کو ایک طرف رکھیں فقط اس ملک پر چڑھنے والے بیرون و اندرون قرضوں کو ہی لے لیں۔ قرضہ ایک لعنت ہے جو ہمارے سماج میں ہمیشہ کسی کی مضحمل و بیمار معیشت کی نشاندہی کرتا ہے تاہم سرمایہ داری نظام نے قرضوں کے حصول کو بھی معاشی حکمت عملی کی کڑی کا ایک سلسلہ قرار د یا ہے۔ دنیا میں قرضے ملک کی پیداوار صلاحیت کو بڑھانے اور بر آمدی مصنوعات کے شعبے میں تنوع پیداکرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہم نے ان قرضوں کو فقط اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کی بڑھوتری کے لیے استعمال کیا تاکہ اس درآمدی سیل رواں کو یقینی بنایا جا سکے جس نے تجارتی خسارے میں ایک خوفناک اور مہیب خسارے کی صورت گری کر رکھی ہے۔ بر آمدی شعبہ جس زبوں حالی کا شکار ہے وہ اس شعبے کے گرتے گراف سے ظاہر ہے۔
ملک میں بیرون سرمایہ کاری عنقا ہے اور لے دے کر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں آنے والا سرمایہ ہے جو شکوک و شبہات کی لاتعداد تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ یہ سرمایہ کن شرائط اور کس صورت میں آرہا ہے۔ اب ذرا اس حکومت کے شروعات کے ایام کے دعوؤں کو ملاحظہ کریں کہ جن کے تحت ملک ایشین ٹائیگر بننے کے لیے بس زقندیں بھرنے ہی والا ہے اور آج کی صورت حال ملاحظہ کریں کہ جب حکومت بیرون ملک جمع کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے چوروں، خائنوں اور بد عنوانوں کو مراعاتی پیکج کے ذریعے راغب کر رہی ہے کہ وہ سرمایہ ملک لے کر آئیں اور ایک خفیف سی رقم قومی خزانے میں جمع کرا کر اپنے ماضی کے سارے داغ دھبوں کو دھو ڈالیں جو قومی وسائل میں سرقہ لگانے کی وجہ سے آپ کے دامن کو سیاہ تر کر رہے تھے۔
اگر چوری کے مال کو جائز قرار دینے سے ہی قوموں کے اقتصادی مسائل حل ہو نے لگیں تو پھرکسی مربوط اور جامع معاشی وژن اور حکمت عملی کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ الفاظ اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں اور اقتصادی نظریات کو بالائے طاق رکھ یہ نقارہ لگادیں کہ پہلے قومی وسائل اور ملکی خزانے میں نقب لگا کر اس ملک سے رفو چکر ہو جائیں اور کچھ عرصے کے بعد ہمارے تجویز کردہ نسخے کے ذریعے اس ساری ناجائز دولت کو سفید کرا لیں۔اس حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے انتخابی وعدوں میں لوٹی گئی ملکی دولت کو واپس لانے کے عزائم کا اظہار کیا تھا حتیٰ کہ کرپٹ افراد کے پیٹ پھاڑ کر اس دولت کی واپسی کے اعلانات کیے گئے تھے جو ملکی خزانے میں نقب لگا کر کمائی گئی تھی۔
اب کون پرخار راستوں کا راہی بن کر ایسے مشکل کاموں میں ہاتھ ڈالے ۔ سب سے آسان اور مجرب نسخہ یہی ٹھہرا کہ پہلے ملکی خزانے میں نقب لگانے کے لیے بد عنوان عناصر کو کھلی چھوٹ دی جائے اور اس کے بعد اس کالے دھن کو سفید کرانے کی اسکیمیں متعارف کرا دی جائیں۔ اب ہم بھی کتنے سادہ لوح ٹھہرے کہ جس برسر اقتدار سیاسی جماعت کے تاحیات قائد اور ان کا’’شریف ‘‘ خاندان‘‘ ہی ملکی وسائل کی لوٹ مار میں مبینہ طور پر ملوث اور بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں بنانے کے کیسز ان کے خلاف احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہوں ہم ان سے توقع باندھ رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کو قانون و احتساب کے شکنجے میں جکڑ کر ساری لوٹی ہوئی دولت کو واپس لائیں گے۔ جب اپنے ہی دامن آلودہ ہوں تو پھر نہ عزم و حوصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی اخلاقی جرات و ہمت کہ جو لوٹی ہوئی دولت کو ملک واپس لانے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔