
چائے کی چہکار کی نثری غزل
از، یاسر چٹھہ
برطانوی سرکار نے ہندوستان میں راج قائم کیا۔ بہت کیا، تفصیلات بتانے والے اتنی تفصیلات بتاتے ہیں کہ دوبارہ بتانے کی نِسبت کوئی اور بات کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
گوروں نے ہمیں کرِکٹ دی۔ ہم نے اس کے تلفُّظ کا تِیا پانچہ کَر، کَر کے کرکٹ کے اوپر سے سندھ، پنجاب اور ہر صوبہ کا صوتی بُلڈوزر گزار کر اِسے کِرکَٹ، کِرکُٹ ،کِرکاٹ بنا ڈالا؛ اسی بات کو غزل گائیک غلام علی نے کہا چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا، یعنی کہ خوب بُھرکس نکالا۔
باقی انگزیری کے لفظوں کے ساتھ کراچی کے نیوز چینلوں میں بیٹھے لوگوں اور ان کو کاپی پیسٹ کرنے والے لاہوری نیوز چینلز والوں کی جئے: جِنّھا تھوڑا دَسّو، اوہناں ای چَوکھا!
جانے، ہندوستان میں کس صورت اور ہُنر کے ساتھ انگریز tea لائے تھے۔ قہوہ الگ، اگر دُودھیا پینی ہے تو دودھ الگ۔
انگریز tea لائے، مگر سابقہ ہندوستان کے ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان نے انگزیروں کی اس نفِیسہ شربتی (delicacy) کا اس طور کا بُھرکس نکالا ہے کہ خدا پناہ، بھگوان پناہ، انسان پناہ؛ tea تو جیسے ریل وے کی لائنوں پر ریل گاڑی کے گزرنے سے پہلے ہم جیسے متجسّس بچوں کے رکّھے سِکّوں کا حال ہو جاتا تھا، یعنی اس کا کایا کلپ ہو جاتا تھا، بے چاری ویسے ہو گئی ہے۔
بیچ میں ایک دفعہ کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھوں گا۔ سنہ 2013 کے آس پاس یہاں اسلام آباد میں ہمارے گھر میں خطۂِ کشمیر سے تعلق رکھتی گھریلو مددگار (domestic help) تھیں۔ شریکِ حیات نے انھیں چائے بنانے کا کہا تو انھوں نے دودھ، پتی، پانی، الائچی کو برتن میں ڈال کر “نذرِ آثش” کر دیا اور گھر کے دیگر جملہ کام شروع کر دیے۔ یہ لفظ باز بھی وہیں گھر پر موجود تھا، پوچھا، “چاہ دا کِیھ کیتا جے؟”
کہتی ہیں، “پتیلی چڑھا دِتّی اے!”
اور پتیلی چڑھانے کی تفصیل بہ طورِ precedent درج کر کے توہینِ tea کا مقدمہ رقم کر دیا ہے۔ کشمیر کی نمائندہ اس خاتون نے tea پر اس انداز سے اپنا ہاتھ دکھایا۔
ہندوستانیوں کے ان آزاد مَنش ملکوں کے لوگوں کے ہاتھوں اپنی صورت گردی کی اِس صورتِ حال کو دیکھ کر tea اس قدر چِلّائی، بِلبِلائی، کَسمَسائی کہ اس نے پنجاب کے اُجاڑے کے بعد شر پسندوں کی جانب سے اِغواء شدہ عورتوں کی طرح اپنا نام بدل لیا۔ لَہندے پنجاب کی بیٹی کور سے بی بی بن گئی، چڑھدے پنجاب کی بیٹی بی بی سے کور بن گئی۔ اسی طرح ہنستی چہکتی tea چِلّاتے چِلّاتے چائے بن گئی۔
متعلقہ تحریر: جب ڈھاکا ایئرپورٹ پر پاسپورٹ چیک کرتے ہوئے افسر نے کہا، “پاکستان، بنگلہ دیش بھائی بھائی!”
نیچے لَف کردہ چائے کی پیالی وہ پیالی ہے جو میری شریکِ حیات کو ان کے بی بی سی ورلڈ سروس (ایشیاء ریجن) کے کثیر ملکی آفیشل بِزنس وِزِٹ کے دوران دی گئی۔ اس چائے کی تصویر کو دیکھ کر لگا کہ ہم پرانے ہندوستان کے ممالک کے آزاد باشندے اپنی زبانوں، رنگوں، آنکھوں کی موٹائی، قد کے فرق میں رنگا رنگی رکھنے کے با وُجود tea کے ساتھ خوب چائے گردی کر رہے ہیں۔
اس تحریر میں لف کی گئی تصویر میں پیش کردہ پیالی ڈھاکا کے علاقے گُلشن کی میں موجود Tea Lounge کی چائے ہے۔
جب مجھے عرفانہ نے اس چائے خانے کی لوکیشن کا نام بتایا ہی تو میرے اندر کراچی کے علاقے گلشن کا نام pop up کر کے سامنے آ گیا۔
ڈھاکا کے اس علاقے کو بھی “اہلِ زباں” بیُوراکرِسی نے گزرے وقتوں میں بنایا تھا، جس کے نام سے بنگال کی خوش بُو نہیں آتی، بَل کہ اردو کا زور زبردستی والا “پھیلاؤ” نظر بھی آتا ہے اور سنائی بھی دیتا ہے۔
چائے سے ہٹ کر ایک بات جو بہت خوشی اور طمانت کا باعث بنی کہ ڈھاکا ایئرپورٹ پر اترتے ہی بہ قولِ عرفانہ امیگریشن کے عملے کے کم از کم دو افراد نے بنگلہ دیش-پاکستان بھائی بھائی کہا۔
اس کے علاوہ عرفانہ نے نوٹ کیا ہے کہ وہاں بی بی سی بنگلہ سروس کے کے لوگ بہت چشمِ ما روشن قسم (welcoming) کے لوگ ہیں۔ یہ چیزیں میرے لیے یہاں پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن میں ویزے کے لیے جاتے رستے میں پڑتے “کارِندوں” کے رویّوں سے دل میں آئی اذیّت کے بر عکس تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ میرا وطن اور بنگلہ دیش باہم ایسے عمدہ اظہاریے کرتے ہیں تو دل خوش ہوتا ہے۔