استاد، تعلیم اور تبدیلی
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے دوسرے عوامل کے علاوہ تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسی تعلیم جس کے ذریعے افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے اور اس تبدیلی کی جھلک معاشرے میں بھی دکھائی دے۔ تعلیم کو ایک موثر معاشرتی قوت میں بدلنے کے لیے استاد کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
پاکستان میں تربیت اساتذہ کے پروگرامز کی تاریخ بہت پرانی ہے، جس میں جے وی، ایس وی، بی ٹی، بی ایڈ، ایم ایڈ کے پروگرام پیش کیے جاتے رہے۔ کچھ عرصہ پیشتر دو محققین وارک (Warick) اور ریمر Reimer نے تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ ٹیچر سرٹیفکیٹ پروگرامز، جن کا مقصد تدریس میں بہتری لانا ہے، کا چار میں سے تین achievements tests سے کوئی تعلق ہی نہیں اور ایک کے ساتھ کمزور سا تعلق ہے۔ اس تحقیق نے پاکستان میں تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کی اثر پذیری کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے۔
تربیتِ اساتذہ کے جامع تصور میں ایک استاد میں تین سطح پر تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ علم، طریقۂ تدریس اور رویے کی سطحیں ہیں۔ اس کے بر عکس پاکستان کے تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لیں تو پورا روز طریقۂ تدریس پر ہوتا ہے۔ روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے ان پروگرامز میں اساتذہ میں اچھے استاد اور اچھی تدریس کی خوبیوں پر مشتمل فہرستیں اساتذہ میں اس مفروضے پر تقسیم کی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھ کر وہ بھی اپنی تدریس کو بہتر بنا لیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اس ماڈل میں استاد knowledge producer کے بجائے، محض consumer of knowledge کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے جتنے نظریات پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے، وہ جن ممالک سے درآمد کیے گئے ہیں، ان کے کمرئہ جماعت کا ماحول اور مسائل ہمارے اپنے تعلیمی مسائل سے یک سر مختلف ہیں۔
سواس طرح استاد جب کمر ئہ جماعت میں پڑھانے کے لیے جاتا ہے تو وہ پڑھائے جانے والے مواد کو کمرہ جماعت کے ماحول سے بالکل مختلف پاتا ہے اور بمشکل ہی اس سے کوئی تعلق قائم کر پاتا ہے۔ شرکائے کورس کو کم ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیں کہ وہ سکول کے مجموعی ماحول سے متعلق تنقیدی نظر سے فیصلہ سازی کرنے کے قابل ہو سکیں ۔ نتیجتاً اساتذہ کے ہاتھ میں ایک جامد اور متعین شدہ تدریس کا ماڈل تھما دیا جاتا ہے۔ اس طرح تبدیلی کے عمل میں پڑھانے والوں کے خیالات اور کلاس کی عملی صورت میں فرق رکاوٹ بن کر سامنے آجاتے ہیں ۔ ایک روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے کورس میں بمشکل ہی تدریس اور تحقیق میںکوئی تعلق قائم کرنے کی کو شش کی جاتی ہے، جس کی بنا پر اساتذہ نصاب میں کوئی جدت لا سکتے ہوں۔ اور اس طرح مختلف ورکشاپس کے ذریعے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کیا جا تاہے کہ استاد کی حیثیت تعلیمی نظام میں مشین میں لگے ایک چھوٹے سے پرزے کی طرح ہے۔
اگر چہ سکول میں تبدیلی لانا ایک پیچیدہ سا معاملہ ہے لیکن تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں اس بات کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے کہ ایسا کیا جاسکتاہے ۔ بعض بنیادی تصورات مثلاً تبدیلی ایک سست رو عمل ہے‘ اس پر کم ہی بحث کی جاتی ہے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اداروں میں تبدیلی کے عمل کو خطرات سے دو چار کردینے والا ایک اہم عنصر تبدیلی کے عمل کو مکمل اور جامع تبدیلی کے طور پر نہ سمجھنا ہے ۔ تعلیم ِاساتذہ کے اداروں کو ایسے کورسز بھی پڑھانے کی ضرورت ہے جن میں وہ سربراہِ ادارہ، اساتذہ، منتظمین اور دیگر stakeholders کو ایک ساتھ بٹھا سکیں۔ ایک کامیاب تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے فالواپ کے مؤثر نظام کا ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتاہے ۔ عام طور پر تعلیمِ اساتذہ کے کو رسز میں اساتذہ کو تنہائی کے جزیرے میں چھو ڑدیا جا تاہے ۔ فالواپ کا نظام نہ صرف نگرانی بلکہ اساتذہ کو مدد فراہم کرنے میں بھی مفید ہوتا ہے۔
دیر پا تبدیلی کے لیے صدر معلم کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ہم ادارے کے سربراہ کو تبدیلی کے عمل کا حصہ بنا لیں تو کامیابی کے امکانات بڑھ جا ئیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں کم ہی ایسا ہو تاہے کہ صدر معلم کے خیالات کو جگہ دی جائے ۔ اس کا بالآخرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صدر معلم سکول کی سطح پر لائی جانے والی تبدیلیوں اوران اساتذہ کو جو اس تبدیلی کے لئے کام کرنے کے خواہاں ہو تے ہیں، کم ہی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس طرح تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے بہت سے مفید اقدامات جن پران سے مشاورت نہ کی گئی ہو، صدر معلم کے آمرانہ نقطہ نظر کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ صدر معلمین کے لیے ایسے کورسز کی دستیابی بھی بہت کم ہے، جہاں پر انہیں اختیارات کی منتقلی، سربراہ ادارہ سے متعلقہ مسائل وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جا سکے، جس کی بنیاد پر وہ دیرپا تعلیمی تبدیلی کے لیے اقدامات اٹھا سکیں۔
تبدیلی کے ضمن میں طاقتور عنصر نصاب کا ہے۔ پاکستان میں نصاب سازی قو می سطح پر کی جاتی ہے اور اساتذہ ا س کونافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔ زیادہ ترسکولوں میں درسی کتب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اساتذہ اور انتظامیہ کی پوری توجہ کورس کو مقررہ وقت میں ختم کرنے پر ہوتی ہے لہٰذا بہت سے اساتذہ تبدیلی کے عمل سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی پابندیوں کی وجہ سے تبدیلی نہیں لا سکتے۔ زیادہ تر سکولوں میں سربراہان کا جائزہ سکول کے نتائج کی بنیاد پر ہوتاہے۔ اسی بنا پر سربراہ ادارہ امتحانی نتائج کو ہی اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی استاد کا جائزہ اس کی کلاس کے نتائج کی بنیاد پرہوتا ہے۔ والدین کی توقعات اس سے مختلف نہیں ہو تیں۔ اس طرح طلبہ، والدین، سربراہ ادارہ اور رفقائے کار کا دباؤ کسی بھی استاد کو تدریس کے دوران جدت اختیار کرنے سے روک دیتا ہے، اگر چہ وہ اس کے لیے کتنا ہی پُر جوش کیوں نہ ہو۔
تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامات کو نظریہ Theory اور عمل (Practice) میں توازن قائم کرنے کی کو شش کرنی چاہیے۔ سکولوں کا معائنہ، کلاس روم کا تدریسی مشاہدہ ‘ جماعتی تدریسی، انفرادی تدریس، پڑھانے سے پہلے اور بعد کی ملاقاتیں نظری چیزوں کو عمل میں لانے کی چند تجاویز میں Teaching Practice کو محض ایک رسمی سی کار روائی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے سوچ بچار پر مبنی سرگرمی کے طور پر قبول کیا جائے۔ شرکائے کورس کو براہ راست کلاس میں پڑھانے کی بجائے پہلے سکول، کلاس روم، طلبہ اور اساتذہ سے شناسائی حاصل کر لینی چاہیے۔ با قاعدہ تدریس سے پہلے اس طرح کی ابتدائی سرگرمیاں اساتذہ کو تدریس میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامز میں ایک اہم چیز تنقیدی سوچ critical thinking کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پورے تعلیمی پروگرام میں اساتذہ کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ طریقۂ تعلیم اور کورس پر تنقیدی انداز میں لکھ سکیں اور ان کے متبادل پیش کر سکیں۔ یوں سیکھنے کا ایک مسلسل نظام تشکیل پا جائے گا۔ اس طرح تنقیدی خیالات نہ صرف ذاتی زندگی بل کہ سکول کی زندگی میں تبدیلی لانے کا باعث بن سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں تبدیلی کے لیے ہمیں استاد کے کردار کا از سرِ نو تعین کرنا ہو گا۔ ان کا یہ نیا کر دار نہ صرف انہیں سوچ بچار اختیار کرنے والا عملی مدرس (Reflective Practitioner) بَل کہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے اور جماعت کے اندر اپنی کار کر دگی بڑھانے والا استاد بنا دے گا۔