استاد اور قلم : ٹک ٹک، ٹک ٹک
از، منزہ احتشام گوندل
میں کسی لمحۂِ خواب میں تھی جہاں کے پرسکون سناٹے میں چھت کی پنکھا چلنے کی گھوں گھوں اور ٹک ٹک (tik tik) کی نغمگی تھی۔ پھر میں نے خود کو تھوڑا اور کھولا منظر وسیع ہوا تو میری نظریں اس ٹک ٹک کے مرتعش منبع کی طرف گئیں۔
یہ میری ہائی سکول کی ریاضی کی استاد مس کوثر شاہین کی انگلیاں تھیں جو تیزی سے تختہ سیاہ پہ رواں تھیں اور ہندسے کھینچ رہی تھیں۔ سفید چاک کے تختہ سیاہ پہ تیزی سے چلنے کی ٹک ٹک کے ساتھ ساتھ چاک کا ہلکا باریک سفید رنگ کا غبار مس کوثر شاہیں کی انگلیوں اور کلائی تک چھا گیا تھا ،خوبصورت ہاتھ جن کی ایک انگلی میں مستقل ایک سونے کی انگوٹھی پڑی رہتی تھی۔مجھے ریاضی کے گنجلک سوال سمجھنے سے زیادہ ہمیشہ اس منظر اور ٹک ٹک کی نغمگی میں دلچسپی رہی تھی۔ ؛محترمہ کا کلاس میں آ نا، چاک کے ڈبے سے نیا چاک نکال کے اسے فوراً توڑ کے دوحصوں میں تقسیم کرنا اور سیاہ تختے اور تاریک ذہنوں کو روشن کرتے چلے جانا ان وقتوں میں میری کائنات کا سب سے حسین خواب تھا۔
میں وہ ہاتھ بھی نہیں بھولی جو ہمیں لکڑی کی تختیوں پہ کاربن پینسل جسے ہم کچی پنسل کہتے تھے،سے پورنے کھینچ کے دیا کرتے اور ہم کانے (سرکنڈے) کے قلم سے سیاہی کی دوات میں سے سیاہی (جسے استادوں نے ہمیں روشنائی کہنا سکھایا تھا) سے ان پورنوں پہ لفظوں کی نقل کیا کرتے تھے۔اور وہ ہاتھ سارا دن چھوٹی چھوٹی چوبی تختیوں پہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو ا،ب،ت، 1,2,3 اور ABC لکھنا سکھاتے سکھاتے اس چکنی چیڑھی سیاہ روشنائی سے بھرجاتے۔ مجھے وہ ہاتھ کبھی نہیں بھولیں گے وہ میری روح میں گڑے ہیں۔ جن کی وجہ سے آ ج میں یہ الفاظ لکھنے کے لائق ہوں۔وہ میری مس فاطمہ کے ہاتھ تھے۔جن کی کرسی کے پائے کے ساتھ لگ کے بیٹھنا مجھے اچھا لگتا تھا۔اور جب کبھی مہینے کے آ خر پہ اپنی تنخواہ لینے شہر جانے کے لیے وہ تانگہ منگواتیں،بڑی سی چادر لپیٹتیں اور ہم بچیوں میں سے کسی ایک کو ساتھ لیتیں تو میری کوشش ہوتی کہ میں ان کے ساتھ جاؤں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔
پھر وہ ہاتھ ہیں جن کی انگلیوں کو میں نے پہلی بار بہت تیزی سے کمپیوٹر کے کی بورڈ پہ متحرک دیکھا تھا تو تب اندازہ نہیں تھا کہ یونہی کمپیوٹر کے اس کی بورڈ پہ متحرک یہ ہاتھ ایک دن میرے ذہن اور نفسیات کی بہت سی گتھیاں سلجھا دیں گے،بہت سی کجیاں نکال دیں گے،جیسے یہ سارے ہاتھ بہت سی تقدیروں پہ قادر تھے۔بہت سے معجزوں سے قادر تھے۔ ان کی حرکت سے ان کی جنبش سے نہ جانے کتنے مجھ ایسے سفید خالی کاغذوں کی لوح پہ تقدیریں محفوظ ہوئیں۔ کل میں نے سندھ میں ڈنڈے والوں کو ان قلم والوں کی ٹانگوں پہ ڈنڈے برساتے دیکھا تو میں اپنا گریہ روک نہ سکی۔ پتا نہیں یہ کس بات کا دکھ تھا اور کہاں سے امڈا تھا۔پچھلے کچھ عرصے میں میں نے وہ ا،ب، ت لکھنا سکھانے والے ہاتھ ہتھکڑیوں میں بھی جکڑے دیکھے تھے۔ مگر تب ایسا غم نہیں ہوا تھا جیسا غم کل میرے اندر سے اٹھا۔کیونکہ وہ تو چھوٹے لوگ تھے۔چھوٹے لوگ جو کرپشن نہیں کرسکتے کیونکہ کرپشن بڑے لوگ کرتے ہیں۔ (یہ قول میرا نہیں ایک افسر شاہی کے ایک کل پرزے کا ہے)۔ پھر ان پہ کیوں ڈنڈے برسائے۔
میں رات دیر تک وہ سارے ہاتھ یاد کرتی رہی جو مقدر بنانے والے تھے اور سوچتی رہی کہ شکر ہے ایک چار سال کے بچے کے ہاتھ میں قلم تھما کر اسے الف لکھنا سکھانے کا افتتاح کرنے کے لیے سیاست دانوں یا افسران عالیہ کو بلوانے کا زمانہ نہیں آ یا۔
شاید وہ وقت بھی آ جائے۔