وہ کہتا ہے، اور گُل ہو جاتا ہے
“میں پیشے کے لحاظ سے تدریس سے وابستہ ہوں، یعنی جسے آپ اُستاد کہتے ہیں… آپ چُوں کہ مانوس الفاظ کی مُنّی سی درجن میں خوش رہتے ہیں، اس لیے، یہ لفظ چُنا، ورنہ مجھے یہ لفظ برتنے سے بھی بے زاری ہے۔
” …، پیغمبری پیشہ، نئی نسل کے معمار، معزز ترین، … سب وظیفے اور زبانی جمع خرچ کی کیلکُولیٹری ترکیبیں لَغو لگتی ہیں، لا یعنیت کی وہ قوالیاں معلوم ہوتی ہیں، جو کسی نو وارد، مشق و ریاض کو مشقت و بوجھ سمجھنے والے قوال کے مُنھ سے نکلی ہوں… ۔
“بَر ملا کہتا ہوں کہ مجھے اس پیشے سے کوئی خاص دل چسپی نہیں، نا ہی جو کچھ بھی، جیسا بھی، میں وقت کے سمندر و سحاب مںں موجود و وجد میں آتے، پیدا ہوتے، مرتے، مر کے زندہ ہوتے کسی بھی لمحے میں ہوتا ہوں، اِس/اُس، جس، تس، ہر کسی لمحے سے جس میں، مَیں کبھی بھی موجود ہوتا ہوں، مجھے کوئی دل لگی نہیں ہوتی… ۔
“کسی بھی لمحے میں کچھ بھی “ہونے، یعنی being”، سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں، بَہ جُز اس چیز کے وہ مجھے “بننے، becoming” کے کتنے امکان پیدا کرنے، ان امکانات کو تراشنے خراشنے، خوب صورت بنانے، اور خوب صورت ترین بنانے کی جِد و جُہد میں لگے رہنے کے لیے ساز گار حالات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
“کوئی دن بھی استاد کا دن نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کسی جنت میں رہنا چاہے تو زبر دستی روکا تو نہیں جا سکتا۔ ایسا کوئی دن اگر کہیں ہوتا ہے تو ہم نہیں جانتے۔ ہر دن احمقوں، بے وقوفوں، دیہاڑی داروں، سوچ اور تخلیق کو گناہ سمجھنے والوں، “ساہُون” کا دن ہوتا ہے، ان کا دن ہوتا ہے جو” تَعدّدہ مالہ” پر یقین رکھتے ہیں۔
“بس ایسے ہی یاد آ رہا ہے، جو کسی عدم کہنے والے پر موجودگی کے نشان چھوڑنے والے نے کہا تھا، اس کی ترتیبِ دیگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تم مجھے ہنسنے دیتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا ہنسنے نہیں دیتا
سلام اُن پر جو سلام قبول کر کے خوش ہیں۔”
از یاسر چٹھہ