اساتذہ بھی کئی قسموں کے ہوتے ہیں
از، اظہر وقاص
زمانہ طالبِ علمی میں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اساتذہ کی دواقسام ہیں۔ ایک وہ جو طلباء کے سکول یا کالج آنے پر خوش ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو طلباء کے سکول یا کالج نہ آنے پر خوش ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے اساتذہ دماغی پیچ و خم نکالنے میں کوشاں رہتے جبکہ دوسرے قسم کے اساتذہ روحانی تسکین کا موجب بنتے ہیں۔ اس لیے پہلی قسم کے اساتذہ کو دماغی اساتذہ جبکہ دوسرے قسم کے اساتذہ کو روحانی اساتذہ کہا جاسکتا ہے۔
دماغی اساتذہ کے لیکچر کے دوران دنیاوی تسکین میسر ہوتی ہے۔ بندہ خواب غفلت میں لمبی لمبی اُونگھیں لیتا ہے اور اکثر اوقات لیکچرکے دوران کئی پرفضاء مقامات کی سیر بھی کر لیتا ہے۔ بہت سی سر زد نا زیبا حرکات اور گلی محلوں کی یادوں کا معائنہ بھی کر لیتا ہے۔
جبکہ روحانی اساتذہ کے لیکچر کے دوران طالب علم کی روحانی پرورش ہوتی ہے جو کہ روحانی تسکین کا ذریعہ بھی بنتی ہے اور یوں طالب علم کے دل و جگر کے گوشے گوشے میں قہقہے پھیل جاتے ہیں، لیکن انسانی تخیل کی بھر پور پرورش کے لیے دونوں قسم کے اساتذہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
مجھے بھی اِن اساتذہ کی اقسام کی اہمیت اس دن معلوم ہوئی جب میں انگریزی ادب کا شاگرد تھا۔ اردو ادب میں بھی خاصی دل چسپی تھی کیونکہ میری اور اردو ادب کے لکھاریوں کی عادتیں ملتی جلتی تھیں۔ جیسے کہ پطرس بخاری صاحب بھی زمانہ طالب علمی میں جب صبح جلدی جاگ جانے کی ٹھان لیتے تو پھول کی طرح صبح سویرے ہی کھل اٹھتے پھر جب یہ سوچتے کہ کیا پڑھا جائے شیکسپیئر یا ورڈز ورتھ تو اس بات پر ان کے دل و دماغ کی بھی تکرار شروع ہو جاتی، دماغ ورڈزورتھ پڑھنے کا قائل ہوتا تو دل شیکسپیئر کے قصیدے گاتا۔
جب دماغ شیکسپیئر کے ڈرامے کی طرف مائل ہوتا اور دل ورڈز ورتھ کے ترانوں پر جھومنے لگتا تو اس کیفیت میں پطرس صاحب کئی کئی گھنٹے دل و دماغ کی صلح میں صرف کرتے اور آخر کار سورج کی نازک کرنیں گرم اور گرم سے ٹھنڈی ہونے لگتیں تو بنا کچھ پڑھے ہی وہ بستر سے اٹھ جاتے اور یوں نہا دھو کر سیر کو نکل جاتے اور قدرت کی رنگینیوں سے فیض یاب ہوتے۔
میں بھی ان کی طرح کبھی سنسان سٹرک کا رخ کرتا تھا۔ کبھی آوارہ بادلوں کی طرح جنگلوں میں گھومتا تھا کیونکہ میرے خیال سے تو یہ دل و دماغ کی صلح کرانے کا اک بہانہ اور ادب کا ایک پریکٹیکل ہے جو کہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے اندر قدرت کے لیے وہ جذبات پیدا کریں اور وہ احساسات محسوس کرنے کی کوشش کریں جو بڑے بڑے شاعر، دانش وروں اور نثر نگاروں نے محسوس کیے۔ بلا شبہ ادب میں پریکٹیکل ہونا بہت ضروری ہے۔
جب میں انگریزی ادب کا شاگرد تھا تو میں نے انگریزی ادب کے مضمون میں پریکٹیکل کی کوئی شق نکالنے کیے لیے بہت تگ و دو کی کیونکہ مجھے شبہ گزرا کہ میں پریکٹیکل میں خاصی مہارت رکھتا ہوں اور اس طرح شیکسپیئر کے ڈراموں کے کردار اور میرے میں خاصی مماثلت بھی ہے لیکن کسی جولیٹ کو کوئی دل چسپی نہ سوجھی اور یوں مجھے یہ شک نکالنے میں کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
مجھے پریکٹیکل کا خیال بار بار اس لیے اکساتا اور ستاتا کیونکہ گزشتہ کلاسز میں سائنس مضامین میں میرے کچھ نہ کرنے پر بھی پورے پورے نمبر مل گئے اور یہ ماجرا دیگر طلباء کے ساتھ بھی پیش آیا ہو گا تو انگریزی ادب میں تو پریکٹیکل میں دل چسپی کی دیگر بھی کئی چیزیں میسر ہیں۔ اور تو اور اساتذہ کی موجودگی میں بھی پریکٹیکل کی اجازت طلب کی جو کہ بر نہ آئی۔
تو بھائی! اب کسی کو کیسے معلوم پڑتا کہ در اصل ہم اپنے اندر کتنے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور مصنفوں سے دو گنے چو گنے جذبات چھپائے پھرتے ہیں۔ اب سائنس کے پریکٹیکل کرنے والا بھی نیوٹن تو بن نہیں جاتا مگر وہ ادب آداب سائنس کے سیکھ جاتا ہے جس کی بنیاد پر اسے بیس سے بیس نمبر مل جاتے ہیں میں بھی اسی دلیل کی بنیاد پر یہ ثابت کرناچاہتا تھا مگر میرا سارا علم و فن بے سود گیا۔
خیر دیگر طلبا ء کی طرح پھر ہم نے بھی ادب کے چند الفاظ رٹ لیے اور آخر کار اساتذہ کو بھی ہماری اعلٰی و ارفع ذہنیت میں کوئی شک روا نہ رہا کیونکہ جب پہلے سال کا نتیجہ آیا تو ہمارے بھی برابر کے اتنے مضمون فیل تھے جتنے کہ ان طلباء کے کہ جن کی وجہ سے اکثر اساتذہ ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ان طلباء کو بھی اتنا غصہ اپنے فیل ہونے پر نہ تھاجتنا کہ اس بات پر کہ جتنے مضمون ان کے پاس تھے اتنے مضمون تو میرے بھی پاس تھے۔ یوں دماغی اساتذہ ہمارے فیل مضامین کی لسٹ دیکھ کر اس بات کے قائل ہو گئے کہ ہم انتہائی ذہین اور فطین واقع ہوئے ہیں۔
دوسرے طرف روحانی اساتذہ روز اول سے ہمیں اس بات کا درس دیتے کہ انگریزی ادب کا طالب علم ہونے کی بنا پر آپ تمام کلاسز اور تمام شعبہ جات کے طالب علموں سے افضل ہیں۔ حتیٰ کہ کالج کی تمام لڑکیاں بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے کچھ گونے اطمینان میسر آیا لیکن آپ ہمارے بھولپن کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس صدی میں بھی ہم یہ سوچ کر نخرے کرتے پھرتے کہ شکل و صورت بھی انتہائی نامناسب نہیں اور انگریزی ادب بھی پڑھ رہے ہیں تو کسی دن کوئی خوب رو اپنے دل پر قابو نہ رکھ پائے گی اور ہماری ٹانگوں سے لپٹ کر کوئی بھلے بول والا گانا گنگنائے گی تو ہم اسے اپنی جولیٹ تسلیم کرلیں گے۔ ایسا پورے دہ سال ممکن نہ ہو سکا ہماری ٹانگ سے لپٹ کر تو کیا یوں معلوم پڑتا ہے پورے دو سال کسی لڑکی نے گانا گنگنایا ہی نہیں۔
پھر ایک دن کلاسز کے آخری ایام میں ایک استاد نے Illiad پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میں نے پڑھی تو اس میں Hector اور Achilles اپنے جنگجوؤں کو کبھی Immortality اور کبھی Patient of God کہہ کے جنگ میں کود جانے پر آمادہ کرتے۔ ہزاروں کی جانیں جاتیں اور Immortality ان کی گردن اکھاڑ کے نکل جاتی۔ پس اس دن سے مجھے ان اساتذہ کی بھی سمجھ آ گئی جو روحانی تسکین کا باعث بنتے۔ سب کچھ معلوم پڑ گیا کہ کون، کون ہمارے کالج آنے یا نہ آنے پرکیوں خوش ہوتے۔
اگر کبھی آپ کے ارمان ٹوٹے ہوں تو آپ کو معلوم ھو اس وقت میری کیا کیفیت ہو گی۔ یہ سب معلوم پڑنے کے بعد دھاڑیں مارمار کر رونے کو من کرنے لگ گیا۔ چہرے پر شام کی سرخی نمودار ہوئی اور آنکھیں دم رخصت تڑپتی مچھلی کی طرح پانی بھرے پپوٹوں میں پھڑ پھڑانے لگ گئیں۔ یقیناً کوئی بھی شخص ہماری اس فرماں برداری اور بھولپن کی مثال نہیں تراش سکتا۔ لیکن اب یہ بغاوت کا وقت نہ تھا اور چند دنوں میں ہمیں ان اساتذہ کی صحبت سے دور جانا تھا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.