بچوں کو کیا پڑھائیں اور کیسے پڑھائیں؟
از، رشاد بخاری
ماہرین تعلیم اور حکومتوں کے سامنے ایک بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس ”ڈیجیٹل ایج” یعنی جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کو کیا اور کیسے تعلیم دی جائے کہ اپنے علمی، ذہنی اور عملی امکانات اور رجحانات کے مطابق وہ بہترین انسان اور مفید شہری بن سکیں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتوں اور دیگر ضروری مہارتوں سے مزین ہو سکیں۔ سب سے زیادہ تشویش اس امر پر ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کیا سوچیں، لیکن یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کس طرح سوچیں۔ نتیجے میں ایک ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو آمنا و صدقنا کہہ کر بنے بنائے رستوں پر چلنا شروع کر دیتی ہے، ان طے شدہ راستوں سے ذرا بھی انحراف کو کفر جانتی ہے اور زیادہ ہوا تو چند مقبول نعروں اور ما ورائے سوچ مثالیوں کو حاصلِ حیات جان کر مٹی میں مٹی ہو جاتی ہے۔
در اصل ہمارا نظام تعلیم جرات تحقیق تو کیا جستجوئے تحقیق پیدا کرنے میں بھی نا کام نظر آتا ہے۔ شاید ہمیں تھوڑی سی تسلی اس میں ملے کہ دنیا کے اکثر خصوصاً، افریقہ اور ایشیا میں رہنے والے، ترقی پذیر ممالک کا یہی حال ہے۔ تھوڑی سی اونچ نیچ اور تفاوت کے ساتھ معاملہ یہی چل رہا ہے۔
تاہم دنیا میں سب جگہ یہ حال نہیں ہے، بل کہ بعض ممالک میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے دل چسپ تجربے کیے جا رہے ہیں۔ شمالی یورپ کے ملک فن لینڈ کے سکولوں میں “پراجیکٹ بیسڈ لرننگ” جسے “فنامنن بیسڈ لرننگ” بھی کہتے ہیں، کو مرحلہ وار رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مظاہر کی بنیاد پر علم کی تحصیل اور تدریس نے روایتی نصابی اور مضون وار طریقۂِ تدریس سے بالکل مختلف راستہ اختیار کیا ہے۔
قریباً پچپن لاکھ کی آبادی والا فن لینڈ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی والے اولین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، انسانی ترقی، اقتصادی ترقی، شہری آزادیوں، معیار زندگی وغیرہ کے عالمی اشاریوں میں بھی صفِ اول کے ممالک میں شامل ہے۔ اپنے تعلیمی معیار کے اعتبار سے بھی فن لینڈ دنیا بھر میں مشہور ہے اور یہاں کے طالب علم تعلیم کی انٹرنیشنل لیگ میں ہمیشہ اعلیٰ سکور حاصل کرتے رہے ہیں۔ اپنی ان تمام کامیابیوں کے با وجود، اور اعلیٰ تعلیمی معیارات حاصل کرنے کے با وجود فن لینڈ اپنے نظام و نصاب تعلیم میں مکمل نئی اصلاحات کا متمنی ہے۔ سچ ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو انسان کو کہیں ٹھہرنے نہیں دیتی۔
مزید و متعلقہ: کیا بچے کو سزا دی جا سکتی ہے؟ از، ڈاکٹر محمد مشتاق
روز گار کی مہارتیں اور ہماری تعلیم از، عرفانہ یاسر
مظاہر کی بنیاد پر تعلیم میں کوئی مخصوص مضامین نہیں پڑھائے جاتے۔ جیسے روایتی تعلیمی نظام میں ہر مضمون، ریاضی، سائنس، ادب، تاریخ، مذہب وغیرہ کا گھنٹہ مخصوص ہے۔ مظاہر کی بنیاد پر تعلیم میں ایسا کوئی مضمون خاص طور پر نہیں پڑھایا جائے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی مرکزی منظور شدہ نصاب بھی نہیں ہو گا اور اس سے بھی بڑی خوش خبری یہ ہے، خاص طور پر بچوں کے لیے، کہ کوئی با قاعدہ بورڈ وغیرہ کا امتحان بھی نہیں ہو گا۔ اپنی تعلیم اور تحقیق کے لیے مسائل اور مظاہر کا انتخاب بھی اساتذہ اور طالب علم مل کر کریں گے اور کار کردگی جانچنے اور سیکھی گئی چیزوں کو پرکھنے کا طریق کار بھی وہی طے کریں گے۔
دنیا کے ماہرین تعلیم پہلے ہی اس پر حیران ہیں کہ فن لینڈ میں فارمل تعلیم کا آغاز سات سال کی عمر میں ہوتا ہے (باقی ملکوں میں تین سے پانچ سال کی عمر سے سکول کا آغاز ہو جاتا ہے)۔ سات سال کی عمر سے قبل بچوں پر کسی طرح کی پڑھائی کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ سکولوں میں چھٹیاں زیادہ ہیں اور پڑھائی کا وقت کم، اور جو پڑھائی کرائی جاتی ہے اس میں بھی کھیل کود زیادہ ہے، گھر کا کام بہت ہی کم دیا جاتا ہے اور امتحان بھی نہیں لیا جاتا۔ اس کے با وجود یہاں کے بچوں کی تعلیمی کار کردگی بہترین ہے۔ کم از کم گذشتہ دو دہائیوں سے پندرہ سالہ بچوں کے عالمی تعلیمی مقابلوں میں فن لینڈ کے بچے ٹاپ سکوررز میں شامل رہے ہیں۔
دنیا کا بہترین نظام تعلیم رکھنے کی شہرت کے با وجود فن لینڈ کا اپنے نظام تعلیم میں اتنی بڑی تبدیلی لانے کا ارادہ کرنا، یقیناً بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث ہو گا اور اس پر سوال اٹھائے بھی جاتے ہیں۔ یہاں کے ماہرین تعلیم جو اس تبدیلی کے حق میں ہیں، کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں بچے علم حاصل کرنے کے لیے کتاب اور کمرۂِ جماعت کے بہت زیادہ محتاج نہیں رہے۔ اگست2016 سے یہاں کے ہر سکول کے لیے لازم کر دیا گیا کہ وہ پڑھانے کا زیادہ معاونتی انداز اختیار کریں۔
اس کا مطلب ہے کہ بچوں کو اجازت دی جائے کہ وہ خود سے متعلق ایک موضوع کا خود انتخاب کریں اور باقی مضامین کو اس موضوع کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ اس سارے تعلیمی عمل کی کلید یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال اور سکول سے باہر موجود وسائل مثلاً آزاد ماہرین اور میوزیم وغیرہ سے بَھر پور استفادہ کیا جائے۔ یہاں کی ایک استاد کے مطابق اس طریقِ تدریس کا مقصد طلبہ کو ایسی مہارتیں سکھانا ہے جن کی مدد سے وہ اکیسویں صدی میں آگے بڑھ سکیں۔ ان میں تنقیدی فکر جیسی مہارتیں بھی شامل ہیں تا کہ طلبہ صحیح اور غلط خبروں اور معلومات میں تفریق کر سکیں، سائبر حملوں سے بچ سکیں اور درست فیصلے کر سکیں۔
مظاہر کی بنیاد پر تعلیم و تدریس کے ناقدین بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر ایک اعتراض یہ ہے کہ اس طریقۂِ تدریس سے مختلف ذہنی صلاحیت کے بچوں میں فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ اعلیٰ صلاحیت کے طلبہ کی کار کردگی اس نظام سے اور بہتر ہو جاتی ہے لیکن کم صلاحیت والوں کو زیادہ مشکل پیش آسکتی ہے۔ تاہم فن لینڈ کی تعلیم کی قومی ایجنسی کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ’ ہمیں اس طریق تدریس پر تحفظات کا ادراک ہے اور اسی لیے ہم اس نظام کو آہستہ اور بتدریج متعارف کرا رہے۔
ابھی سکولوں کو کہا گیا ہے کہ وہ فی الحال مظاہر کی بنیاد پر سال میں صرف ایک پراجیکٹ اپنے طلبہ میں متعارف کرائیں، اور اس کے ساتھ باقی مضامین کی تدریس جاری رکھیں۔ اگست 2016 سے مظاہر کی بنیاد پر تعلیم کا تجربہ شروع کیا گیا تھا اور توقع ہے کہ 2020 تک فن لینڈ کے سکولوں میں مکمل طور پر یہی طریقِ تدریس رائج ہو جائے گا۔
بہ صد شکریہ: تجزیات آن لائن۔ رشاد بخاری کے متن میں بہ جُز پروفنگ کے، کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔