ٹیکنالوجی، کیپٹلزم کے سر کا درد
از، ڈاکٹر شاہ محمد مری
اِس نومبر کو روس کے انقلاب کو سو سال پور ے ہورہے ہیں۔اِن سو برسوں میں دنیا کتنی بار عوامی ابھار کے زلزلوںسیلابوں سے اتھل پتھل ہوئی اور کتنی بار عوام الناس کے حکمران طبقات کے خلاف بپھرنے کے نتیجے میں پہاڑ رائی کے ذرے بنے ۔ ایک لمبی تاریخ ہے۔
ہم تو فلک کی سکرین پہ 1917 نومبر کے روس کے چلنے والے ظلم کے محض دو شارٹس بیان کریں گے:
۔1۔ ’’زار بادشاہ کے ایک جنرل نے تبد یلی کے کچھ دیر بعد انتہائی نفر ت سے لکھا کہ کو ن یقین کر ے گا کہ ایک قلی یا ایک چو کید ار اچا نک چیف جسٹس بن گیا، ہسپتال کا معمولی ملازم وہاں کا ڈائریکٹر بن گیا، ایک نائی دفتر میں پہنچ گیا،ایک سپا ہی کما نڈرانچیف بن گیا، ایک مزدور میئر بن گیا۔ ایک تالے بنا نے والا‘ کا رخانے کا ڈائر یکٹر بن گیا ؟ ۔کو ن یقین کر ے گا‘‘؟۔
لیکن یہ یقین کر نا پڑا ۔ وہ سو ائے یقین کر نے کے کچھ ہی نہیں کر سکتے تھے۔ جب سپا ہیو ں نے جر نیلو ں کو شکست دی ، جب ایک میئر ، جو پہلے ایک دیہا ڑی دار مز دور تھا ، نے پر انی افسر شا ہی کا ر ستہ روکا ، و یگنوں کی صفا ئی کر نے والے نے ذرائع آمد و ر فت کا نظا م درست کر دیا۔ کو ن یقین کر ے گا ؟ ۔‘‘
2۔ ذرا اور قریب افغانستان آجائیں۔ وہ خون و خاک کا جہنم زار بنا۔ صرف ایک بات کے لیے کہ : ’’ برگزیدگی ایک خاندان کی ‘‘ کافلسفہ غلط ہے، اوریہ کہ’’ کسی بھی چرواہے یا کسان کا بیٹا ملک چلا سکتا ہے‘‘۔ اسی ایک مفروضے کو غلط ثابت کرنے کہ’’ بادشاہ اور اُس کا خاندان آسمان سے پروانہِ حاکمی لایا ، غلط ہے‘‘دنیا انسانی سروں کے میناروں سے بھردی گئی ہے۔
دنیا کے اس طویل ، چکر دار اور در د بھرے سوسالہ سفر میں سوویت یونین انسان کا رفیق و بدرقعہ رہا۔ مصری خان کھیترانڑسے لے کر ترہ کی تک، اور ہوچی من سے لے کر چی گویرا تک اقوام کی آزادی آباد ی میں روسی انقلاب ایک یارِ وفادار رہا ۔ اعلانیہ ،پالیسی کے بطور۔
گذشتہ پچیس برسوں میں ہم نے کیا کیا نہ سنا۔ جن سے بند کمرے میں ایک چوہا نہ مارا جاسکے انہوں نے بھی روس توڑنے کا دعوی کردیا۔ کوہی بھنگ پینے سے ہی ایسا عارضہ لگ سکتا ہے ۔ یہ بھنگ عالمی طور پر سرمایہ داری نظام کے سر وں اوردماغوں پرچڑھ گیا۔ مگر یہ تو ہم صرف ایک ملک کی بات کر رہے ہیں۔آپ جس ملک میں بھی جائیں وہاں آپ کو گھر بیٹھے، اور بے تیغ وتلوار اٹھائے، ہزاروں روس شکن دعوے دار ملیں گے۔
نہیں بھائی صاحب ایسا نہیں ہے۔ جب انسانی وقار وعزت کے سفر کا سوویت پڑاؤ اپنی تکمیل کو پہنچا اور جب یہی پڑاؤ اگلے پڑاؤ میں داخلے کی راہ میں رکاوٹ بننے لگا تو یہی سوویت یونین بحری جہاز کے ایک اچھے کپتان کی طرح ساری سواریوں کو پرامن طور پر نکالنے کے بعد ٹیکنالوجی کی جدید ترین صورت کے آئس برس سے ٹکر ا کر پاش ہوگیا۔ تاریخ کا حصہ بنا۔
مگر اب؟ چوتھائی صدی قبل کا وہ واقعہ تاریخ کا خاتمہ نہیں، تاریخ کا تسلسل بنا۔ ٹیکنالوجی کی باگیں تھامے انسان اپنی نجات اور کائنات کو explore کرنے کے لیے نا قابلِ تصور رفتار اور طریقے سے سرپٹ دوڑنے کے لفظ کا مذاق اڑاتے ہوئے رواں ہے۔
اب انسان کسی اور طریقے سے ، کسی اور نام سے اپنے استحصالیوں سے نمٹے گا۔ اس لیے کہ انسان اپنی جبلت میں عزتِ نفس اور وقار کا شدید احساسِ طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔ روٹی کے حصول میں وقار، تن ڈھانپنے کے ذرائع کو موجود کرنے میں وقار، چھوٹی محفل سے لے کر اقوام عالم کے مجمعے میں وقار ۔
اور سائیں! طبقاتی نظام میں ممکن ہے کہ سب کچھ ممکن ہوسکتا ہو مگر سب انسانوں کے لیے ہمہ وقت وقار نا ممکن ہے ۔۔۔۔ اور عزتِ نفس اور باوقار رہنا انسانی جبلت ہے۔ سوسٹر گل تو جاری ہے۔ بے وقار کردہ انسانیت کے اندر موجود وقار کی بھوک کا علاج طبقاتی سماج میں ہے ہی نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ آج کا انسان ایک صدی پرانے والے انسان کی طرح اب محض روٹی، کپڑا اور مکان ہی نہیں مانگتا۔ نہ ہی وہ ایک کھیت ، ایک دیس تک محدود رہے گا۔ عالمی کیپٹلزم، ٹیکنالوجی کی ہر رحمت کو ہر گھر تک پہنچانے کے چیلنج میں ہے۔ مہنگا ہے ناں مطالبہ۔
بشکریہ: سنگت اکیڈمی