سکون کی تلاش اور ٹیکنالوجی کا خاتمہ
کہانی از، بلال حسن
علی اپنے بیٹے کو کہانی سنا رہا ہوتا ہے ایک لیڈر کی جس نے انقلاب برپا کیا ہوتا ہے، اور ایک ریاست کی بنیاد رکھی ہوتی ہے۔
وہ وہ اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اس کو گھر چھوڑنا پڑا اور دوسرے شہر جانا پڑا۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ بچپن میں بہت شرارتی بچہ تھا اور پڑھائی میں بہت نکما تھا۔ ایک دن اس کے سکول میں لائٹ چلی گئی شدید گرمیوں کا موسم تھا اور گاؤں کا سکول تھا تو بچوں کو کلاس سے باہر نکالا گیا اور تھوڑی دیر کے لیے چھٹی دے دی گئی۔ بجلی نہ آنے تک ک اس کو چھٹی مل گئی وہ بہت خوش ہوا۔
اس نے بھی ایک دن جان بوجھ کر یہ کام کیا کہ چلو پڑھائی سے تو کچھ دیر کے لیے جان چھوٹ جائے گی۔ اس نے اپنی کلاس کے بلب توڑ دیے چھٹی ٹائم۔ جب صبح کلاس سٹارٹ ہوئی تو کلاس میں اندھیرا تھا۔ ٹیچر بے چاری پریشان ہو گئی یہ کس نے توڑا ہے۔ بہ ہر حال، اس کی یہ سکیم کام کر گئی کچھ دیر کے لیے اس کو چھٹی مل گئی گی۔
وہ سکول سے چھٹی کرنے کےکافی بہانے بناتا تھا۔ اور ہر روز اس کا نیا بہانہ ہوتا؛ کبھی دادی فوت کر دیتا اور کبھی نانا فوت ہو جاتا ہے۔ ایک دن اس کا دادا اسکول سے اس کی چھٹی جلدی لینے گیا تو ٹیچر نے بتایا کہ وہ آدھا گھنٹہ پہلے چھٹی لے کر گیا ہے، آپ کا جنازہ پڑھنے کے لیے۔ ماں باپ اس کے سارے بہانے جانتے تھے اب اس نے نیا بہانہ سوچنا شروع کر دیا۔
اب وہ کیوں کہ تھوڑا بہت بڑا بھی ہو گیا تھا اور وہ سمجھ دار بھی ہو گیا تھا۔ وہ اس پڑھائی سے بہت تنگ تھا۔ اسکول جانا اس کو عذاب نظر آتا تھا۔ اس کی زندگی سے سکون ختم ہو گیا تھا۔
وہ اکثر اپنے والد سے ایک فقرہ سنا کرتا تھا کہ ہمارے دور میں بہت امن اور سکون تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ وہ اپنے والد سے پوچھتا تھا کہ آپ کے دور میں سکون کیسے تھا آپ کو اسکول نہیں جانا پڑتا تھا کیوں کہ اس کو تو سکون صرف اسکول نہ جانے سے ملتا تھا تھا۔ اس کا باپ کہتا ہے نہیں بیٹا اسکول تو ہم بھی جاتے تھے، لیکن ہمارے دور میں ہمیں یہ سہولتیں نہیں ملتی تھی نہ بجلی تھی اس وقت نا موبائل تھا اس وقت، اور لوگوں میں اتنی بیماری بھی نہیں تھی لوگ بھی مخلص تھے اور بہت خوش گوار زندگی تھی۔ لیکن آج تو ہر بندہ بیمار ہے ہر بندے کو بلڈ پریشر اور شوگر ہے صرف اس وجہ سے کہ پرانے دور میں لوگ کام اپنا خود کرتے تھے اور غذا بھی خاص ہوتی تھی۔
وہ بے چارہ بڑا مایوس ہوتا ہے یہ جواب سن کر کہ اس سے میرا کیا فائدہ مجھے تو سکون نہیں مل سکتا، میں آپ کے دور میں بھی ہوتا تو اسی طرح پریشان ہوتا اسکول مجھے پھر بھی جانا پڑتا، لیکن پھر اس کے دماغ میں ایک بات آتی ہے کہ اس کو اپنے والد کی بات میں تھوڑی سچائی نظر آنے لگتی ہے کہ پرانے دور میں سکون تھا بے شک بجلی نہیں تھی، لیکن سکون تھا تو وہ سوچتا ہے کہ جس دن اسکول میں بجلی گئی تھی تو اس کو بھی تو چھٹی مل گئی تھی اسی دن۔ اسی بات کی وجہ سے اس کو ٹیکنالوجی سے نفرت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
وہ گلیوں کے بلب توڑنا شروع کر دیتا ہے نفرت کی وجہ سے۔
اب دوسری طرف اس کی والدہ کو بلڈ پریشر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے گھر میں بھی اکثر ماحول خراب رہتا ہے۔ اس کی ماں کو غصہ آتا ہے اور وہ بھی بچوں پر نکالتی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ جب بھی ٹی وی پر کارٹون لگاتا اس کی ماں کہتی آواز آہستہ کرو، اس کے سر میں درد ہوتا ہے۔ گھر میں بھی اس کو یہ پریشانی تھی جس کا قصور وار وہ وہ جدید دور کو سمجھتا تھا کیوں کہ اس کے ذہن میں اس کے والد نے یہ بات بٹھا دی ہوتی ہے کہ پرانا دور اچھا تھا تب لوگوں میں بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں نہیں تھیں۔
وہ سوچتا کہ کاش پرانا دور واپس آ جائے کم از کم گھر کا ماحول تو اچھا ہو جائے گا۔ گھر کے ماحول کی وجہ سے اس کو کو ٹیکنالوجی سے نفرت اور بڑھ گئی۔
وہ لکھتا ہے کہ جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جاتا ہے تب اپنی کلاس میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں پڑھتا ہے، اور اس کی نفرت ٹیکنالوجی کے بارے میں اور بڑھ جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کتنی تباہی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح طرح انڈسٹریز کی وجہ سے کتنی پولیوشن پھیل رہی ہے ایئر پولیوشن، واٹر پولیشن اور بھی طرح طرح کی گندگی ہمارے ماحول کو خراب کر رہی ہے، صرف اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے اور انڈسٹریز کی وجہ سے۔
وہ کہتا ہے کہ جب وہ پڑھتا ہے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں گرمی بڑھ رہی ہے اور آئندہ آنے والے دور میں کتنا خطرہ ہے دنیا کو، تو اس کی نفرت ٹیکنالوجی سے بہت بڑھ جاتی ہے اور اس کو اپنے باپ کی بات بھی اکثر یاد آیا کرتی ہے کہ پرانا دور بڑا اچھا تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ وہ بچپن سےلے کر جوانی تک کے دور کا یھی رزلٹ نکالتا ہے کہ سب پریشانیوں کی جڑ یے ٹیکنالوجی ہے۔ یہ ختم ہو گئی تو سکون آئے گا اس معاشرے میں جس طرح پرانے دور میں سکون تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ جس دن اس کے والد کی موت شوگر کی وجہ سے ہوتی ہے اس دن سے وہ ٹھان لیتا ہے کہ آج سے وہ اس ٹیکنالوجی کو ختم کرنا شروع کردے گا کیوں کہ یہ ہی ٹیکنالوجی سب پریشانیوں کی جڑ ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ اگر سب سے پہلے موبائل ختم ہو جائے اس دنیا سے سے تو کتنا سکون ہو جائے گا۔ اس موبائل کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کتنے فساد پیدا ہواہے بے حیائی عام ہو گئی ہے، اسی وجہ سے تو وہ سب سے پہلے سوچتا ہے کہ اس موبائل کو ختم کرنا چاہیے۔ وہ اکیلا اس کام کو نہیں کر سکتا، وہ اپنا نظریہ لوگوں کو بتانا شروع کر دیتا ہے۔ لوگوں کو قائل کرنا شروع کر دیتا ہے۔
وہ والدین کو کہتا ہے کہ آپ اپنے بچوں سے موبائل واپس لینا شروع کر دیں، اگر معاشرے کی بھلائی چاہتے ہیں۔ یہ سب کام وہ اپنے گھر سے شروع کرتا ہے اور اپنے گاؤں تک پھیلا دیتا ہے، اور بہت سارے لوگ اس کی بات پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ عمل کافی نہیں ہوتا۔ بچے موبائل پھر بھی استعمال کر لیتے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے۔
وہ گھروں سے واشنگ مشین کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے کہتا ہے کہ پرانے دور میں عورتیں ہاتھ سے کپڑے دھوتی تھی اس وجہ سے ان میں بیماری نہیں تھی۔ وہ کہتا ہے کہ عورتیں ہاتھ سے کپڑے دھونا شروع کریں تا کِہ بیماریوں سے بچ سکیں۔ وہ ٹی وی اور کیبل کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ گھر گھر سے انٹرنیٹ کا خاتمہ چاہتا ہے جو سب برائیوں کی جڑ لگتی ہے اس کو۔
اس کو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہر گھر سے نکالنا بہت مشکل نظر آ رہا ہوتا ہے وہ سوچتا ہے کہ گھر گھر ٹیکنالوجی ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ جہاں سے یہ ٹیکنالوجی بن کر ہمارے گھروں میں آ رہی ہے اس کو ختم کرنا چاہیے، یعنی موبائل کو ختم کرنے کی بَہ جائے موبائل کی انڈسٹری تباہ کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک پولیشن پر بھی قابو ہو جائے گا اور ہمارے گھروں تک یہ فساد بھی نہیں پہنچ پائے گا۔
پھر وہ ایک دن اپنے ساتھیوں کی میٹنگ رکھتا ہے جس میں انڈسٹری تباہ کرنے کی پریشانی ہوتی ہے۔ آخر میں یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ انڈسٹری تباہ کرنا بہت مشکل ہے، جس چیز سے انڈسٹری چلتی ہے وہ ختم ہونی چاہیے یعنی انرجی؛ وہ پلان کرتے ہیں کہ کہ ہمیں انرجی کرائسِز پیدا کرنا چاہیے جس سے انڈسٹری آٹو میٹک ختم ہو جائے گی۔
اس کے دوست کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ہمیں بہت ساری جانوں کا نقصان اٹھانا پڑے گا؛ جب انڈسٹری نہیں چلے گی دوائیں کیسے بن پائیں گی اور ہوسپیٹل کیسے چلیں گے؛ آٹا، گھی، چینی جیسی چیزیں کیسے ملیں گی اور جب انرجی بند ہوئی آئل اینڈ گیس کی انڈسٹریز بند ہو جائیں گی۔
اس طرح آمد و رفت کا سسٹم تباہ ہو جائے گا۔ لوگ سائیکل پر صفر کرنے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ کھیتوں میں ٹریکٹر کا استعمال نہیں ہو سکے گا اور آبادی کے لحاظ سے اتنی پیداوار کے لیے ٹریکٹر ضروری ہے۔ سب بھوک سے مر جائیں گے ان ساری چیزوں کا حل نکال کر پھر ہمیں یہ قدم اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے پلان کیا کہ سب سے پہلے جو بنیادی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا جائے۔ انہوں نے اپنے بَل بُوتے پرکنویں کھدوانا شروع کیے تا کہ پانی کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ پھر انہوں نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر بننے کی بَہ جائے حکیموں کے پاس بھیجنا شروع کر دیا تا کہ کل کو علاج کی سہولت میسر آ سکے۔ سواری کے لیے انہوں نے گھوڑوں اور گدھوں کی فارمنگ شروع کر دی۔
بنیادی سہولتوں کو اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت قدم اٹھایا اور اس سارے کام کو 20 سے 25 سال لگ گئے۔ اس ساری تحریک کو ختم کرنے کے لیے کئی تحریکوں نے جنم لیا، اور بہت ڈٹ کر مقابلہ کیا، جن کا ہم نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔
جب ساری بنیادی سہولتیں میسر آ چکی تھیں تو پھر وقت آگیا کہ نو جوان سڑکوں پر نکل آئے۔ جہاں جہاں ان کوئی ٹیکنالوجی نظر آتی وہ تباہ کر دیتے۔ انقلابیوں کو گھوڑے اور گدھے فراہم کیے جاتے۔ باقی جن لوگوں کو ضرورت ہوتی وہ کھیتوں میں مزدوری کرتے اور اجرت میں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرتے اس طرح سسٹم تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔
اب ان کے علاقے کی حدود میں جتنی گیس لائن ہوتی ہیں وہ سب تباہ کر دیتے ہیں اور پٹرول اور گیس کے ٹرک جو اس علاقے میں داخل ہوتے ہیں ان کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ اور پاور سٹیشن جہاں بجلی پیدا ہوتی ہے اس کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
اس انقلاب سے سب سے زیادہ نقصان مریضوں کو ہوتا جو ہسپتالوں میں پڑے ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے لیے دوائیں میسر نہیں ہوتیں۔ اکثر کو حکیموں کے پاس بھیجا جاتا ہے، کچھ کا علاج ہو جاتا ہے، اور کافی لوگ مرتے ہیں اس کے انقلاب میں۔
اتنے لوگ جو انڈسٹریز ختم ہونے کی وجہ سے بے روز گار ہوتے ہیں ان کو مزدوری کرنی پڑتی ہے، لیکن اس میں بھی وہ کافی خوش نظر آتے ہیں اور کچھ لوگوں کو علاقہ چھوڑ کر بھاگ جانا پڑتا ہے۔
کچھ عرصہ گزر تا ہے تو ٹیکنالوجی اسی علاقے سے بالکل ختم ہو جاتی ہے اور وہی پرانا دور شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کا کسی دوسرے ملک سے کوئی چیز منگوانا یا دوا منگوانا سخت جرم مانا جاتا ہے۔ اور علاقے سے باہر جانے کے لیے سخت رولز ہوتے ہیں۔ اسکولوں کا تعلیمی نظام بدل جاتا ہے، نصاب بھی بدل جاتے ہیں۔
نصاب میں بس اخلاقی اقدار اور دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا۔
اب یہ علاقہ نہیں ہوتا بَل کہ ایک آزاد ریاست ہوتی ہے۔ جس کا اپنا سسٹم ہوتا ہے اور اپنے علیحدہ رولز ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہاں ہر چیز خالص ملتی ہے۔ کھانے پینے کی ہر چیز خالص ہوتی ہے۔ یہاں لوگوں کے پاس ٹائم ہوتا ہے لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے دور دور سفر کرتے ہیں اب اے سی کی بہ جائے درختوں کی ہوا ٹھنڈی لگتی ہے۔ تازہ پانی لوگ اپنے لیے نعمت سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ وہی خوشیاں ہوتی ہیں جو پرانے دور میں ہوا کرتی تھی۔ اب دوسرے ملکوں سےلوگ یھاں سیر کے لیے آتے ہیں۔
اب نئی نسل پیدا ہو چکی ہے۔ انقلاب کو کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ اب یہ نئی نسل پھر یہی چاہتی ہے کہ ٹیکنالوجی بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں پھر وہ فساد شروع ہو گیا ہے۔ جوان چاہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں ترقی ہونی چاہیے، سنا ہے کہ کسی علاقہ میں ایک نو جوان نے پھر پہیہ دریافت کر لیا ہے۔ حکومت نے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے؛ اور اعلان کیا ہے کہ جو بھی کسی ٹیکنالوجی کا سہارا لے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی، لیکن اس کے با وُجُود بھی لوگ چھپ چھپ کر سہولتیں ڈھونڈنا شروع کر رہے ہیں۔ لوگوں میں اب یہ نظریہ عام ہو رہا ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کے لیے سہولت اور زندگی میں سکون کا باعث ہے اور سکون کے لیے ٹیکنالوجی کا ہونا بہت لازمی ہے۔
علی کا بیٹا ساری کہانی سننے کے بعد اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ بابا آخر سکون ملتا کیسے ہے، علی بتاتا کہ بیٹا ہر دور میں کچھ چیزیں صحیح ہوتی ہیں اور کچھ غلط اور ٹیکنالوجی بھی اچھی چیز ہے۔ انسان فطری طور پر سہولتیں یعنی ٹکنالوجی کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن اس کا اگر استعمال غلط مقصد کے لیے کیا جائے تو پھر یہ نقصان کا باعث ہوتی ہے باقی سکون کے لیے ٹیکنالوجی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، سکون اور سہولت میں فرق ہے۔ سہولت سے انسان کو جسمانی سکون مل سکتا ہے اور روحانی نہیں۔
اس روحانی سکون کے لیے ٹیکنالوجی کا ہونا ضروری نہیں، بل کہ اس کے لیے انسان کو کو ہر حال میں راضی رہنا ضروری ہے، جیسے بھی حالات ہوں انسان خدا پر پر راضی ہو جائے۔