یہ کم بخت ٹیکنالوجی اور بعد از مرگ رُسوائیوں کے نقوش
از، منزہ احتشام گوندل
کل شب کھلے صحن میں سیدھی لیٹے لیٹے مجھے خیال آیا کہ اگر میں ابھی اسی لمحے مر جاؤں تو کیا ہوگا۔
سوال کافی دل چسپ تھا اور اس سے ملحقہ تصورات اور بھی دل گُداز تھے، مگر میں وہ سب نہیں سوچ رہی تھی جو ایک دفعہ اشفاق احمد نے سوچا تھا، یا محمد اظہارالحق نے اپنے ایک کالم میں ایک دفعہ لکھا یا آپا عذرا اصغر کے ایک افسانے میں کہا گیا، کہ گھر والے روئیں گے، اچھی باتوں کا ذکرکریں گے، اس کے بعد میری چیزیں بانٹیں گے وغیرہ۔
بلکہ مجھے جو پہلا خیال آیا وہ اپنے موبائل فون کا تھا۔ فون میں کتنی ایپلیکشنز ہیں۔ ان میں کس میسِنجر کے اندر کتنی اور کس کس کی چیٹ ہے۔ گیلری میں ڈاؤن لوڈز فائل کے اندر میں نے کیا کیا محفوظ کیا ہوا ہے۔ ویڈیوز کیسی کیسی رکھی ہوئی ہیں، گوگل کے سرچ انجن اور انٹرنیٹ براؤزرز پہ کیا سرچ ہسٹری ہے میری۔
جب میرے مرنے کے بعد میرا فون میرے بہن بھائیوں میں کسی کے ہتھے چڑھے گا تو کیا ہوگا؟ وہ تو لازمی اس کو کھنگالیں گے، میں جو اتنی معزز ہوں، ان کے لیے رول ماڈل ہوں، اگر کوئی ایسی ویسی چیز نکل آئی تو میری تو عاقبت خراب ہوجائے گی۔ میری موت کے ساتھ میری شخصیت کے ایسے بھیانک پہلو کا انکشاف وہ کتنا عرصہ برداشت کریں گے؟ اور میرا لیپ ٹاپ، یقیناً اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور میری ذاتی اور خالص شخصیت بڑی سہولت کے ساتھ ان کے سامنے آتی جائے گی جسے چھپانے کے انسان لاکھ جتن کرتا ہے۔
یہ تو کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ مجھے اپنے فون کی ابھی ہر قسم کی سکرُوٹنی کرنی ہوگی۔ نامناسب گفتگو، اور نامناسب تصاویر اور ویڈیوز کو ابھی ڈیلیٹ کرنا ہوگا۔ تاکہ میں اگر ابھی مروں تو اپنی شخصیت کا وہ خفیہ پہلو بھی ساتھ ہی لے جاؤں تاکہ وہ میرے بعد میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب نہ بن جائے۔
فون کے بعد دھیان ایک کے بعد ایک ایسی کوتاہی کی طرف جاتا گیا جو پسِ مرگ رُسوائی کی وجہ بن سکتی تھی اور میں اس کا ازالہ کرتی گئی۔ زندگی میں ہم باوقار جینے کے کتنے جتن کرتے ہیں مگر موت کو بھولے رہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جان بوجھ کر، یا انتقاماً دوسروں کی گفتگو اور ویڈیوز یا تصویروں کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے دوسرے بندے کو بلیک میل کیا جا سکے۔
لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی وقت یہ خزانہ ہمارے اپنے ہی خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ مواد ہماری اخلاقی پستی کی گواہی بن سکتا ہے، ایک بڑی مضبوط گواہی، اور خدانخواستہ ہم کسی بھی وقت اچانک مر جاتے ہیں تو یہ چیزیں ہماری آخرت کا حوالہ بن جاتی ہیں۔ زندگی بے ثبات چیز ہے ایک دم ختم ہوجاتی ہے کہ تلافی کا موقع بھی نہیں ملتا بسا اوقات۔
اکثر اپنی طالبات سے کہتی ہوں کہ کبھی والدین کے علم میں لائے بغیر کسی کے ساتھ کسی سفر کا قصد نہ کریں، آپ جہاں بھی جائیں گھر میں کسی کے علم میں اصل بات اور سچائی لا کے جائیں، زندگی کا کیا بھروسا کب کہاں آپ کو مات دے دے۔ آپ گھر سے نکلے ہیں کالج یا یونیورسٹی کے لیے اور آپ کی میت ملی ہے مری یا کسی دوسرے شہر کی دور دراز سڑک سے تو والدین کیا سوچیں گے کہ بیٹی/بیٹا تو پڑھنے گئے تھے تو یہ بالکل ایک دور دراز مقام پہ کیا کررہے تھے، ان کے اپنے سوال جواب کے بغیر ہوں گے وہ دوسروں کے سوالوں اور کھوجتی نگاہوں کا کیا جواب دیں گے۔ آج کے دور میں بہت سی بچیاں ایسے دھوکے کی شکار ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح آپ نے کسی کا دل دکھایا ہے، کسی انسان کا جذباتی استحصال کیا ہے تو اس کا بھی مداوا کرکے سوئیں یہ نہ ہو کہ زندگی آپ کو معافی کا موقع بھی نہ دے۔ ہم اس زندگی میں جو بھی ہیں اس کتاب کا مضمون بڑا مختصر ہے۔ اصل حیات تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور وہ ایسی حیات ہے جسے ہم اپنے ہاتھوں سے تحریر کرکے جاتے ہیں۔
مزید ملاحظہ کیجیے: کنور مہندر سنگھ بیدی، زندگی کے میلے اور محبت کا جادُو
اس لیے کل رات کے بعد میں نے طے کیا ہے کہ ہر شب اپنا حساب بے باک کرکے سوؤں گی۔ میں اپنے عزیز رشتوں کو کسی ابتلا میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ پتا نہیں آپ کیا سوچتے ہیں۔ میں تو ایسا ہی سوچتی ہوں۔