انتہا پسندی اور دہشت گردی پر مخصوص اجارہ داری
آصف مالک
انتہا پسندی اور دہشت گردی پر اب پختونوں پر ڈالی گئی اجارہ داری نہیں رہی۔ پنجابی طالبان کے بعد اب کراچی میں اعلٰی تعلیمی اداروں سے وابستہ مہاجر اساتذہ اور طلبہ پر مشتمل گروپ انصارلاشریعہ کا سامنے آنا انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔
ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، نرسری سے انٹر تک وہ دور ہوتا ہے، جب بچے کی ذہن سازی ہوتی ہے اور اس کے نظریات پختہ ہوتے ہیں۔ پہلی سے بارہویں تک کسی بھی جماعت کا نصاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، اسلامیات کے علاوہ اردو میں بھی اسلامیات، تاریخ، معاشرتی علوم حتیٰ کہ سائنس کے مضمون میں بھی اسلامیات۔ غرض ریاضی کے علاوہ ہر مضمون میں اسلامیات کے مضامین ٹُھنسے ہوتے ہیں۔
ایسا نصاب پڑھ کر بچہ زندگی کے ہر گوشے اور ہر زاویے کو عقیدے کی کسوٹی پر پرکھتا ہے، اس میں تحقیق اور جستجو کا مادہ ختم ہوجاتا ہے۔ لامحالہ مذہب سے گہری وابستگی کے باعث پہلے وہ مذہبی شعار اور مذہبی رہن سہن اپناتا ہے۔
یہاں تک کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے ، جب بچہ مذہب کے معاملے میں شدت پسند ہوجاتا ہے۔ اور پھر کالج میں جمعیت جیسی تنظیمیں، جماعتِ اسلامی کی فکر والے اساتذہ اور مسجد کا مولوی اسے مذہبی انتہا پسند بنادیتے ہیں، اور یہی عوامل اسے دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں، جسے جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔
لہٰذا وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی آگ سے نکالنے کے لیے مملکت کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا جائے، واضح رہے کہ سیکولر ہونے کا مطلب لادین ہونا نہیں ہے، بلکہ سیکولر ازم مذہب کو ہرفرد کا ذاتی معاملہ قرار دینے اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے کا نام ہے۔
سیکولر نظام میں تعلیم، معیشت، ثقافت اور زندگی کے دوسرے شعبوں کو مذہب کے تڑکے سے محفوظ رکھاجاتا ہے۔دوست چاہیں تو اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔