صحرائے تھر ، مذہبی ہم آہنگی کی روشن مثال
ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی
مجھے فخر ہے کہ میں پارلیمان میں تھرپارکر کی نمائندگی کااعزاز رکھتا ہوں لیکن تھر کا نام سنتے ہی جو پہلا تصور ایک عام آدمی کے ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ یہ ایک دور دراز پانی سے محروم ایک ایسا بدقسمت علاقہ ہے جہاں بچے بھوک، پیاس، قحط اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان کی بازی ہار تے ہیں، یہ باتیں کچھ حد تک ٹھیک ہیں لیکن میرا موضوع صدیوں سے رائج تھر کے برداشت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی پر مبنی اس مثالی کلچر کو زیرقلم لانا ہے جس کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ میرے علاقے تھر کو علاقائی امن اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بطور رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔
تھر دنیا کے بڑے عظیم الشان صحراؤں میں سے ایک اور واحد زرخیز صحراہے جس کا 85 فیصد رقبہ بھارت اور باقی پاکستان کے صوبہ سندھ کا حصہ ہے۔ ہندودھرم میں صحرائے تھر کی تاریخی اور ثقافتی طور پر بہت زیادہ اہمیت ہے، قدیم مقدس کتاب رامائن میں اسے لاوان ساگر (نمک کا سمندر) کہا گیا ہے، روایت ہے کہ شری رام جب لنکا پر حملہ کرنے اپنے لشکر کے ساتھ جارہے تھے تو انہوں نے اپنے آتشیں ہتھیار کے ذریعے سمندر کو خشک کردیا تھا، اسی طرح دریائے ساراس وتی کو رِگ وید کے مطابق مقدس دریا کا درجہ حاصل ہے، دورِ جدید کی تحقیق بتاتی ہے کہ یہ دریا بھارت کے شمالی مغربی اور پاکستانی صحرا تھر میں بہا کرتا تھا، دیوی ساراس وتی کا تعلق بھی اسی دریا سے تھا اور شہرہ آفاق مہا بھارت میں درج ہے کہ ساراس وتی دیوی نے ایک صحرا کو بالکل خشک کردیا تھا جو آج کا تھر صحرا بتایا جاتا ہے، پورے تھر میں ہندوؤں کے مندر اور سمادھیاں قائم ہیں۔ میری معلومات کے مطابق تھر کا نام تھل سے لیا گیا ہے جو مقامی زبان میں نمک کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ پارکر کا مطلب کراس کرجانا ہے۔
ماضی میں یہ علاقہ تھر اور پارکر پر مشتمل تھا جو اب ایک ہوکر تھرپارکر کہلاتا ہے۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں تھر صحرا کو حیدرآباد کی پولیٹکل ایجنسی کچ کے ساتھ منسلک کردیا تھا، بعد میں اسے ایسٹرن سندھ فرنٹیرکا نام دیکر عمرکوٹ کا مرکز بنایا گیا، تھرپارکر کوانگریزوں نے ضلع بھی قرار دیتے ہوئے ضلعی ہیڈکوارٹر کو عمرکوٹ سے میرپور بھی منتقل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد تھرپارکر کو میرپورخاص سے الگ کرتے ہوئے نیا ضلع بناکر مِٹھی کو کیپیٹل قرار دیا، میرا تعلق مِٹھی کے علاقے اسلام کوٹ سے ہے جو پاکستان کے ایسے ٹاؤن ہیں جہاں کی 80 فیصد آبادی ہندو اور باقی مسلمانوں پر مشتمل ہے، مِٹھی کو مذہبی ہم آہنگی اور سب سے کم ترین جرائم کی شرح کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔آدم شماری 1998کے نتائج کے مطابق مسلمان اور ہندو آبادی تھر پارکر میں لگ بھگ پچاس فیصد ہونے کی بناء پر برابر ہے، حالیہ آدم شماری کےنتائج کا ابھی انتظار ہے تاکہ موجودہ حقیقی آبادی کا تناسب معلوم ہوسکے، ماضی میں ایسی رپورٹس بھی منظرعام پر آتی رہی ہیں کہ حالات کے ہاتھوں سالانہ پانچ ہزار ہندوبھارت ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
تھرپارکے میں بسنے والے یوں تو متعدد مذاہب، ذات پات اور قومیتوں میں منقسم ہیں لیکن ان کا خاصا امن و آشتی، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضاء کو قائم و دائم رکھنا ہے،ہولی تہوار کو عالمی سطح پر ایک مسلمہ ثقافتی اور مذہبی تہواروں میں سے ایک کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، دنیا کے لیے یہ ایک نیا تہوار ہوسکتا ہے لیکن تھر باسیوں کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے جو ہندو اور مسلمان دونوں باہمی طور پر مل کر مناتے ہیں، دو دنوں پر مشتمل روشنیوں سے بھرے ہولی کا جشن منائے جانے کا نظارہ عمرکوٹ میں قابلِ دید ہوتا ہے جہاں گھروں کو رنگوںسے سجایا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے مٹھائیوں کا تبادلہ کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے، اسی طرح مسلمانوں کے تہوار عید پر ہندو شہری بھرپور انداز میں شریک ہوتے ہیں، رمضان المبارک کے موقع پر ہندوؤں کی جانب سے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے افطار کا انتظام کیاجاتا ہے، تھر کے ہندو باسی مسلمانوں کے شانہ بشانہ عاشورہ مناتے ہیں۔
صحرا بھر میں امن و محبت اور خدمتِ انسانیت کا پیغام عام کرنے والے صوفیوں اور سادھوؤں کے مزار اور سمادھیاں قائم ہیں جنہیں آج بھی نہایت عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، صحرائے تھر میں ایسے لاتعداد مقامات بھی موجود ہیں جہاں ایک طرف مسلمانوں کی قبریں اور دوسری طرف ہندوؤں کی سمادھیاں ہیں، ایسا ہی ایک مشہور مشترکہ قبرستان مِٹھی سے کوئی تیس کلومیٹر کے فاصلے پر چلہاڑ گاؤں میں واقع ہے ۔ تھر کی رنگ برنگی ثقافت، فوک میوزک اور ڈانس منفرد نوعیت کے ہیں، آسمان پر بادلوں کا بارش برسانے آجانا پورے تھربھرکے باسیوں کے لیے بناء کسی مذہبی تفریق کے عظیم خوشی کا باعث بنتا ہے لیکن موسمی تغیرات نے تھر صحرا کو بھی متاثر کیا ہے جہاں صدیوں سے مسلمان اور ہندوایک ساتھ رہتے آرہے ہیں، تقسیم برصغیر 1947 کے موقع پر جب پورا خطہ قتل و غارت کا شکار تھا، فسادات کی آگ تھر کے پرامن صحرا میں بھڑکنے میں ناکام رہی۔ تھر باسی پاکستان کے دیگر شہریوں کی مانند نہایت محب وطن واقع ہوئے ہیں، پاک بھارت جنگوں کے موقع پر انہوں نے مادر وطن پاکستان کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
تھر میں بسنے والوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی پالنے سے وابستہ ہے، روایتی طور پراونٹ کو صحرا کا جانور سمجھا جاتا ہے، لوگ ا بھی دورِ جدید کی سہولتوں سے کوسوں دور پرانے زمانے کی جھونپڑیوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں پانی کا حصول زندگی کا سب سے کٹھن ترین چیلنج ہے، طبی سہو لتوںکی عدم فراہمی عوام بالخصوص نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔ تھر باسیوں کا ایک اور اہم مسئلہ تعلیم ہے جسکی وجہ سے وہ محبت بھرا دل اور نیک فطرت ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں،محکمہ تعلیم سندھ کی ایک رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ اسکولوں کی کل تعداد 4045، اساتذہ 5230 اور اسکول جانے والے بچوں کی تعداد 164974 ہے لیکن میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ تھر کے ہزاروں بچے سندھی زبان میں اپنا نام پڑھنے کے بھی قابل نہیں اور اس حوالے سے سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی شکایات بھی عام ہیں، میں نے بذاتِ خود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو تھر میں گھوسٹ اسکولوں کی فہرست فراہم کی جس کو بدقسمتی سے کوئی شنوائی تاحال حاصل نہ ہوسکی، اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان ہندوکونسل کے زیراہتمام تھرپارکر میں پندرہ اسکول قائم کئے گئے ہیں جہاں بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مخیر حضرات سول سوسائٹی اور حکومت کا تعاون اس کارخیرمیں مزید بہتری لاسکتا ہے۔
ہیلتھ اور ایجوکیشن کے شعبے کے علاوہ تھر میں انفراسٹرکچر کے قیام کی بھی شدید ضرورت محسوس کی جاتی ہے، تھر باسیوں کو امید ہے کہ ملکی ترقی کے لیے ناگزیر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مثبت ثمرات سے انہیں بھی مستفید ہونے کا موقع ملے گا، تھر میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر ملک بھر کی آئندہ چارسوسال کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت تھرکول پروجیکٹ زیرتکمیل ہے،صوبائی حکومت کی عدم توجہی کا شکار تھرپارکر کے باسی توقع کرتے ہیں کہ سڑکوں کا جال بچھا کر انہیں بھی ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک کیا جائے گا۔
میری نظر میں وفاقی حکومت کا سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں دلچسپی لینا ایک خوش آئند امر ہے لیکن ترقی کے ثمرات تھر کے غریب عوام تک پہنچائے جانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، تھرپارکر کے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی عظیم کلچرکو دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے سے پاکستان کا مثبت امیج اجاگرکیا جاسکتا ہے، ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تھرپارکر کی مذہبی ہم آہنگی، برداشت، رواداری پر مبنی روایات کو بطور رول ماڈل اپناتے ہوئے شدت پسندی کے عفریت کو شکست دے کر پاکستانی معاشرے کو قائداعظم کے وژن کے مطابق ڈھالنے کے لیے عملی کوشش کی جائے تاکہ اکثریت اوراقلیت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ