(فارینہ الماس )
ایک طویل مدت تک دنیا نے سختی اور جبر کے طریقہ کار کو ہی نظام تعلیم کا حصہ بنائے رکھا ۔انسان کو سدھارنے اور جانور کو سدھارنے کے طریقہ کار میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ بچے کو سخت رویے سے ہی نظم و ضبط اور مخصوص عادات سکھائی جاسکتی ہیں ۔قرون وسطیٰ کے یورپ میں سکولوں میں جسمانی تشدد پر مبنی سزائیں عام تھیں ۔اس کی خاص وجہ نظام تعلیم کا چرچ سے منسلک ہونا تھی۔مذہبی نقطہ نظر کے مطابق انسانی روحوں کو تشدد کے ہتھیار سے ہی پاک کیا جا سکتا تھا۔اس سختی نے معاشرے کو عجیب طرح کی فرسٹریشن میں مبتلا کر دیا۔جو بیک وقت احساس کمتری اور احساس برتری دونوں ہی طرح کے جذبات پیدا کر رہی تھی۔تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے رویوں میں بھی سختی آرہی تھی ۔وہ مضبوط قوت ارادی کے مالک تو بنتے تھے لیکن ان میں خود ستائشی اور خود پرستی کے جذبات بھی ابھر رہے تھے۔وہ اخلاقیات اور حسن سلوک سے عاری ہو گئے تھے۔اپنے نفسیاتی احساس کمتری کے اظہار کے طور پر اپنے سے کمتر پر ظلم کرتے۔اس طرح کی تعلیم استدلال اور تخلیقیت دونوں ہی سے عاری تھی۔جب عقل و استدلال کا دور آیا تو تعلیم سے معاشرے میں صنعتی ترقی تو عروج حاصل کرنے لگی لیکن انسانی رویوں میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ایسے ہی سخت رویوں کا مظاہرہ سامراجی رویوں کو پیدا کرنے کا باعث بنا جس نے محکوموں کو حاکموں کے غیر انسانی سلوک کا شکار بنائے رکھا۔یہ سامراجی عناصر کے اندر کی وہ نفرت تھی جو کمتر انسانوں کے لئے ان کی فطرت میں پیدا ہو چکی تھی۔ذہانت تو برقرار تھی لیکن جذبات،تخلیق اور تعمیر مفقود تھے۔پھر رومانویت کا دور شروع ہوا۔یہ دور 1800ء سے 1850تک اپنے عروج پر پہنچا۔ یہ معاشرتی قدروں کی بہتری کا دور ثابت ہوا۔انیسویں صدی کے آغاز میں انسان کی روح کو تخلیقیت کی آزادی فراہم کی گئی۔آرٹ ،میوزک اور ادب کی ترقی نے زندگی کے حسن اور اس کی اقدار کو سنوارا۔ بہت سے فلاسفرز معاشرے میں امن اور عدم تشدد کی اہمیت کو اجاگر کرنے لگے ۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر بچے کو اس کے بچپن میں ہی بولنے اور عمل کرنے کی آزادی نہ دی جائے تو وہ تصادم کا رویہ اپناتا ہے۔سختی کے منفی اثرات اس کی نفسیات کو تبا ہ و برباد کر دیتے ہیں ۔اس کے اندر نفرت پلنے لگتی ہے۔یہ سختی دو طرح کی ہے ایک جو والدین کی طرف سے روا رکھی جاتی ہے اور دوم جو درسگاہوں میں اپنائی جاتی ہے۔جو بچوں کی تعلیم سے دلچسپی بدرجہ اتم کم کرتی چلی جاتی ہے۔وہ فرار کا راستہ اپناتا ہے اس کی سوچ فطری اور بے ساختہ نہیں رہتی۔جب فطری تجسس کم ہو جاتا ہے تو تخلیق اور تحقیق مر جاتی ہے۔اس کے اندر اساتذہ اور علم سے متعلق پلنے والی نفرت اسے اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا دیتی ہے۔یہ نفرت ایک لاوہ بن کر اس کی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔اس کی شخصیت میں چڑ چڑا پن آجاتا ہے ۔وہ لا دین بھی بن سکتا ہے اور انتہا پسند بھی۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس نے یورپ،امریکہ اور برطانیہ کو اپنے نظام تعلیم اور اس کے طریقہ کار میں تحریف پر مجبور کیا۔اٹھارہویں صدی کے فلاسفرز نے طالب علموں پر جسمانی تشدد کی کھل کر مخالفت کی خصوصاً جان لاک جیسے فلسفی کی تحریریں اس تشدد کی بھرپور مخالفت کرتی ہیں ۔کیونکہ عموماً اساتذہ کا یہ رویہ تعصب اور نفرت کی وجہ سے بھی طالبعلموں کو اپنا شکار بنا تا ہے ۔اس میں طلبہ کی معاشی حالت یا اس سے استاد کی وابستہ ذاتی نا پسندیدگی بھی شامل ہوتی ہے۔ترقی پزیر ممالک کے علاوہ باقی دنیا میں تعلیم کا سزا سے تعلق ختم ہو چکا ہے۔لیکن آج بھی مشرقی معاشرے اور عموماً ترقی پذیر ممالک میں کہیں کہیں ایسا ہی نظام تعلیم رواج میں ہے ۔جسے عالمی سطح پر ناپسندیدگی کا سامنا ہے ۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح تعلیم کبھی 50 فیصد تک بھی نہ پہنچ سکی ۔اور جہاں ہر سال تقریباً 35 ہزار طلبہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔اس طرح دوران تعلیم بچوں کے اسکول چھوڑ دینے کے رحجان میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رحجان کے اسباب میں دیگر معاشی و معاشرتی عوامل کی طرح بہت حد تک اساتذہ کا ناروا رویہ بھی شامل ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کا سامنا ہمارے طلبہ کو مدرسوں اورگورنمنٹ اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی ہے اور یہاں تک کہ اعلیٰ فوجی تربیتی ادارے بھی اس سے مبرا نہیں۔ باوجود اس کے کہ سختی کے تربیتی طریقہ کار کو آج کے دور میں نفرت اور بے زاری کا سامنا ہے، فوج کی تعلیم و تربیت کا مزاج آغاز سے اب تک اسی طریقہ کا ر سے عبارت ہے۔ فوج میں اپنے کیڈٹس کو سخت طریقہ تربیت کے اصولوں پر تیار کیا جاتا ہے۔
فوج میں سختی سے مراد ہے ایک فرد کی شخصی حیثیت یا انفرادیت کو ختم کر کے اسے ایسے گروپ میں ڈٖھالنا ،جو بغیر کوئی سوال اٹھائے احکامات کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھے۔یہاں سزا کا مطلب ڈسپلن یا نظم و ضبط سکھانا ہے ۔تا کہ فوج کا متعین کردہ ایک خاص کردار اور رویہ اپنانا ممکن ہو سکے۔اسی ڈسپلن کو سیکھ کر ایک کیڈٹ اپنے ادارے کے نظم و ضبط اور ماحول کو اپناتا ہے۔اس کے لئے اس کی اخلاقی،ذہنی اور جسمانی برتری یہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے قوائد و ضوابط کو بنا چوُن و چراں اپنائے اور ان پر عمل درآمد کرے۔اسے نا صرف اپنے سینئیرز کے حکم کی تعمیل کرنا ہے بلکہ اپنے ماتحتوں کو بھی انہی اصول و قوائد کو سکھانا اور سختی سے ان پر عمل درآمد کروانا ہے۔یہ زندگی ڈسپلن سے عبارت ہے۔ذاتی ڈسپلن جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے میں مددگار بن سکے۔ٹاسک ڈسپلن جو اپنی پوزیشن اور عہدے کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے میں مدد کرے ۔گروپ ڈسپلن ،جس سے سخت قسم کے ہنگامی حالات میں موصول ہونے والے آرڈرزکو زیر بحث لائے یا سمجھے بغیر ان پر عمل درآمد کی جرائت مل سکے۔یہاں ڈسپلن کا متضاد انارکی کے سواکچھ نہیں۔
آرمی کا یہی ڈسپلن کیڈٹس اور آفیسرز کو سویلین کے لئے ایک رول ماڈل بنا دیتا ہے۔یہاں ہر کام ڈسپلن سے ہوگا، سوچنا،سمجھنا، کھانا ،پینا،اٹھنا، بیٹھنا،پڑھنا،کھیلنا،سیکھنا، سونا،جاگناالغرض ایک کیڈٹ کی زندگی کا ایک ایک پل ڈسپلن کے تحت انجام پائے گا ۔جسے سیکھنے کے لئے اپنی سرشت کی بغاوت کو تہس نہس کرنا ہو گا ،اپنی انا اور خودداری کو فراموش کرنا ہو گا ۔ایک کیڈٹ کو اوائل میں ایسی ایسی سزاؤں سے گزارا جاتا ہے جو نا صرف انہیں سخت جان بنانے کے لئے ہیں بلکہ اوائل میں ہی اپنے اس فیصلے پر از سر نو غور کر لینے کے لئے بھی ہیں کہ آیا وہ اس ملازمت کو درکار محنت، جرائت اور جزبہ کے متحمل ہو بھی سکتے ہیں کہ نہیں ۔کیونکہ پھر عمر بھر اس اوڑھے ہوئے کمبل کو تن سے جدا کرنا ممکن نہ ہو گا اور اگر ایسا کیا گیا تو آپ بھگوڑا کہلائے جائیں گے اورآپ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے گا۔آ رمی کا سخت تربیتی ماحول ایک ہی وقت میں ایک طرف تو کیڈٹ کو اپنی ذات اور غصے پر کنٹرول کرنا سکھارہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے سے جونیئرز کو سزا دے کر اپنے غصے کے اظہار کا سامان بھی کر رہا ہے۔ یہاں درگزر کا شاید کچھ خاص رواج نہیں کیونکہ اگر درگزر اور نرمی کا عمل سیکھا جائے گا تو کل کو اپنے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کمزور بھی پڑ سکتے ہیں۔اور دشمن کی پیش قدمی کے آگے آپ کے قدم لڑکھڑا بھی سکتے ہیں۔سختی کا اس حد تک لاگو کرنا جہاں نظم و ضبط سکھانے اور اپنانے کی ضرورت پیش آئے ،فوج کی تربیت کے لئے لازم ہے ۔لیکن جہاں ایک انسان کی خودداری اور انا کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے جہاں شدید اذیت ناک سزاؤں کو معمول بنا لیا جائے ایسی سزاجو کچھ سیکھا نے نہیں بلکہ محض جسم کو داغدار کرنے کے لئے اپنائی جائے وہ محض فرد کو نفرت اور وحشت سکھاتی ہے۔جس کا مظاہرہ سرحدوں پر کرنے سے کہیں پہلے ایک فوجی اپنی سماجی زندگی میں کر گزرتا ہے۔بہت ہی کم فوجی ایسے ہوتے ہیں جو اس نفرت کو محض دشمن سے مقابلے کے لئے سنبھال کے رکھتے ہیں ورنہ اکثر تو وہ اس کا اظہار معاشرے میں کرنے لگتے ہیں ۔مثلاً کچھ فوجی افسران اپنے ملازموں سے غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ۔کچھ فوجی افسران عام سویلینز کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔اپنی ذات کے احساس برتری کو پنپنے کے بھرپور مواقع مہیا کرتے ہیں۔اور یہ بھی کہ جب دشمن پر غلبہ پا لیں تو شدید قسم کے غیر اخلاقی اقدامات بھی کر گزرتے ہیں ۔جو عموماً بے قصور اور نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کرنے اور خواتین کی بے حرمتی کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ان کی نظر میں ایسے جرائم ان کا حق ہوتے ہیں۔
تربیت کے دوران جب کیڈٹس کی انا اور خودداری کو مجروح کیا جاتا ہے یا انہیں اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں تو ان سزاؤں کا احساس ہی ان کے لئے اس قدر جان لیوا ثابت ہوتا ہے کہ کچھ کیڈٹس ان سے بچنے کے لئے خود اپنے ہاتھوں اپنی جان کا خاتمہ بھی کر لیتے ہیں۔اس دوران اگر والدین ان سزاؤں سے متعلق کچھ شکایت بھی کریں تو اسے آرمی کی ٹریننگ کا لازمی حصہ قرار دے کر انہیں خاموش کر دیا جا تا ہے۔اور وہ اپنے بچے کے مستقبل کی خاطر اسے سہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں گزشتہ اک طویل مدت سے تعلیم کے شعبے سے کچھ ایسے لوگ بھی وابستہ ہو گئے ہیں جو طالب علموں کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ سزا اور جزا کے درست اور کارگر نظام سے بھی نابلد ہیں۔ان کی نظر میں محض جسمانی سزائیں ہی ان کے رویے میں بہتری لا سکتی ہیں حالانکہ یہ تاثر سرے سے غلط ہے۔ سزا کا نظام اگر طالب علم کو کچھ سمجھانے اور سکھانے کے لئے ہو اور ان کی سوچ کو بدل سکنے میں مددگار ہو تو وہ کارگر ہے۔اور اگر جسمانی ازیتوں کو ان پر مسلط کر دیا جائے تو وہ محض بغاوت کا شاخسانہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔اور حد تو یہ ہے کہ اب اساتذہ ان سزاؤں کے ذریعے ان کے جسمانی اعضاہ کی توڑ پھوڑ میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔اور بچے بذات خود بھی ان کے ردعمل کے طور پر پر تشدد اور برداشت سے خالی رویوں کو اپنا رہے ہیں ۔
ہمارے کیڈٹ کالج جہاں اساتذہ کو بہت دیکھ بھال کر اور اعلیٰ تعلیمی ریکارڑ کے ساتھ ہی قبول کیا جاتا ہے وہاں ایسے واقعات کا ہونا ایک اچنبھے کی بات ہے ۔لیکن افسوس کہ وہ بچے جو محنت کرنے کے عادی ہیں ،جو اپنی زندگی کو کم عمری میں ہی ایک خاص مقصد کے لئے وقف کر دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔جو اس ملک کے آج اور آنے والے کل کی حفاظت کا عزم کئے ہوئے ہیں ان کے ہوش و حواس تک کو غیر انسانی سزاؤں کے حربے سے مفلوج بنا دیا جاتا ہے ۔وہ پرانی نسلیں تھیں جو فوج کو اپنانے میں فخر محسوس کیا کرتی تھیں ۔آج کے دور میں ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے بہت کم بچے اس شعبے کو اپناتے ہیں ۔اب ان کا مطمعہء نظر باہر کی یونیورسٹیاں اور ادارے ہیں ۔اب ذیادہ تر فوجیوں کا تعلق مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے ہے ۔اور اس کلاس میں بھی فوج کی نوکری کا چارم گھٹتا جا رہا ہے کیونکہ اب کامرس اور کمپیوٹر کے میدان بہت ترقی کر چکے ہیں اور ان میں طلبہ کو بہتر مستقبل بھی میسر آتا دکھائی دیتا ہے ۔گویا فوج میں بھرتی ہونا اب بہت کم لوگوں کا خواب رہ گیا ہے۔بہت سے طلبہ ایسے بھی ہیں جو دوران ٹریننگ ہی کالج کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ۔ایسے میں اساتذہ کو طلبہ کو جو محض ساتویں اور آٹھویں جماعتوں میں داخلہ لے کر آتے ہیں ان کی شخصی اور اخلاقی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہئیے ۔وہ معصوم بچے جو دوردراز کے علاقوں سے اپنا بچپن اور ماں باپ کے لاڈ پیار کی یادیں ایک قیمتی سامان کی طرح باندھ کر ہمراہ لے آتے ہیں، انہیں اتنی ہی آسائشیں تو نہیں لیکن کم از کم کچھ دل جوئی کی ضرورت ضرور ہوتی ہے۔انہیں ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار بنانے کی بجائے انہیں اپنے مسائل کا ادراک اور ان کے سلجھاؤ کے طریقے سکھانے چاہیءں ۔گو کہ ڈسپلن سکھانے کے لئے سختی فوج کی ٹریننگ کا مزاج ہے لیکن اگر جسمانی تشدد کی ایسی مثالیں جو محمد احمد جیسے زہین بچوں کا بھیانک انجام بن کر سامنے آرہی ہیں قائم ہونے لگیں تو وہ لوگ بھی فوج سے دور بھاگنے لگیں گے جن کی صلاحیتوں کی ہماری فوج اور اس ملک کی سرحدوں کو ضرورت ہے۔
زمانہ ترقی کر رہا ہے ۔اس ترقی کا باعث انسان کی محنت ہے۔اس نے پہاڑوں کو،ویرانوں کو ،صحراؤں تک کو آبادکیا۔مشین کو اپنی زندگی میں شامل کیا ،یہاں تک کہ اپنا وقت ،اپنی خواہش ،اپنی خوشی،اپنا سکون،اپنا آرام سب کچھ مشین کی دسترس میں دے دیا ۔اور خود جذبوں سے خالی ہونے لگا۔جیسے جیسے جذبے گئے اس کی خوشی، اسکا سکون، اسکا صبراور حتیٰ کہ اس کی انسانی اقدار تلک فراموش ہوتی چلی گئیں۔آج رحم اک کتابی سبق اور ظلم ہمارا رویہ ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ظالم اپنے ظلم کو برقرار رکھے ہوئے ہے کبھی نہ چھوڑنے کے لئے۔ظالم کے بہت سے روپ بھی ہیں ،کہیں مسیحا کا روپ،کہیں انصاف دینے والے کا روپ ،کہیں رہنما کا تو کہیں محبت و التفات کا روپ، اور کہیں استاد کا روپ ۔بظاہر یہ روپ ہیں لیکن اصل میں نا دکھائی دینے والے بہروپ ہیں ۔بہت سے سچے،کھرے،پاکیزہ اور معصوم لوگ ان بہروپیوں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔روز ایک نیا حادثہ رونما ہوتا ہے اور روز ایک نئی قیامت برپا ہوتی ہے۔لیکن ہم بے حسی کا لبادہ اوڑھے پڑے رہتے ہیں شاید اپنے زخم کے انتظار میں۔ محمد احمد بھی ایک زخمایا ہوا تیرہ ،چودہ سال کا معصوم بچہ ہے۔جو 10اگست 2016ء سے بستر پر کسی کی بے حسی کا جیتا جاگتا ثبوت بنا پڑا ہے۔
ذرا غور سے اس کی تصویر دیکھیں۔کیسی پتھرائی ہوئی ،پھٹی پھٹی سی آنکھیں ہیں جن میں کسی کی وحشت کی تصویر ٹنگی صاف دکھائی دے رہی ہے اور پھر بھی اس واقعے کا سراغ لگائے جانے کے لئے ’’کمیٹی ‘‘ بٹھائی گئی ۔ تاکہ کچھ دن اس میں بیت جائیں تو معاملہ خود بخود ٹھنڈا ہو جائے۔کیا آپ کو تین ماہ بیت جانے کے باوجود اس بچے کی آنکھوں میں ہنوز اس درندگی سے وابستہ وہشت دکھائی نہیں دی جو اس معصوم بچے پر ڈھائی گئی؟اس کے حلق میں اتری نالی،اس کی غیر اضطراری حرکات و سکنات اس کی بے بسی کی داستان سناتی محسوس نہیں ہو رہیں۔؟ اس کے والد جو خود بھی لاڑکانہ کے کسی پسماندہ علاقے میں پرائمری ٹیچر ہیں ۔کیسے والد ہیں جنہوں نے اپنے بچے کی اس اذیت ناک حالت کے باوجود بھی تین ماہ خاموشی سادھے رکھی۔اور جنہیں اس کی اس حالت پر مجرم سے بدلہ لینے سے ذیادہ اس بات کی فکر ہے کہ اپنے بچے کے میڈلز اور سرٹیفکیٹ دکھا کر یہ ثابت کر سکیں کہ ان کا بچہ کند ذہن اور لاپروہ ہرگز نہ تھا۔وہ کوئی شر انگیز انسان بھی نہ تھا جو ایسی سزا کا مستحق قرار پاتا۔وہ کیا جانیں کہ اس ملک میں شر انگیزوں سے بھی پولیس ایسا سلوک نہیں کرتی جو ان کے تابعدار اور ذہین بچے کے ساتھ کیا گیا۔شاید اس ملک کے اچھے لوگوں کا مقدر ہی ظلم سہنا ہے۔
وہ بے ضرر بچہ اس حادثے کے بعد 18دن وینٹیلیٹر پر رہا اور 14بار اس کے ڈائیلسز ہوئے۔لیکن واقعے کے تین ماہ تک بھی یہ ظلم ادارے کے کسی فرد کا ضمیر نہ جھنجھوڑ سکا ۔یہ بات ہماری انسانیت کی حد سے ذیادہ گراوٹ اور ابتری کی گواہ ہے۔کیا ملالہ یوسف زئی کی طرح یہ بچہ بھی ہماری کسی توجہ،کسی ہمدردی کا مستحق نہیں؟ملالہ کو تو فوج نے بچایا تھا اور اس بچے کو فوج سے ہی وابستہ کسی بے حس انسان نے اس حال تک پہنچایا۔ملالہ تو طالبان کے ظلم کا نشانہ بنی جب کہ طالبان کا تو مقصد ہی اپنوں کو زخم دینا ہے ،اور یہ بچہ جس کے ظلم کا نشانہ بنا ان کا مطلب تو اپنوں کا تحفظ کرنا اور اپنوں کو زندگی دینا ہے ۔ایسے اساتذہ جو ایک پورے ادارے کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں انہیں سخت سزا ملنی چاہئے۔اور کاش کہ ہم ایسے اساتذہ کی سزا بھی ایسی ہی رکھ پاتے جو انہیں عبرت کا نشان بناتی۔ مطلب بدلے میں ان کے لخت جگر کو بھی ایسے ہی تشدد سے مفلوج بنایا جاتا اس سے بڑی سزا ایک باپ کے لئے اور کیا ہو گی لیکن ہماری انسانیت ہمیں ایسے کسی بدلے سے پہلے ہی اس کے تصور سے لرزا دیتی ہے۔