آئینہ کہانی از، ہاروکی موراکامی
ترجمہ از، عدیل عباس عادل
وہ سب کہانیاں جو آج کی رات آپ سُنا رہے ہیں دو قِسموں کی ہیں۔ ایک قسم تو ایسی ہے جس میں آپ کسی ایسی دُنیا کے باسی ہیں جہاں آپ کے ایک طرف زندگی ہے تو دوسری طرف موت اور ساتھ ہی کوئی ایسی طاقت بھی موجود ہوتی ہے جو ایک طرف سے دوسری طرف جانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اِس میں بھوت پریت وغیرہ شامل ہوں گے۔ دوسری قسم کی کہانیوں میں غیر معمولی خوبیاں، حکایات یا مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ آپ کی تمام تر کہانیاں ان دو گروہوں میں ایک سے تعلق رکھتی ہیں۔
در اصل آپ کے تجربات ان میں سے پہلی نہیں تو دوسری قسم سے مکمل طور پر واسطہ رکھتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جو لوگ بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں اُن کو بھوت ہی نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں زیادہ فہم و فراست نہیں ہوتی اور جن میں کچھ عقل و دانش ہوتی ہے وہ یہ بھوت نہیں دیکھتے۔
میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے، لیکن ایک نہیں تو دوسرے کے لیے کوئی نہ کوئی انفرادی وجہِ توجہ طلب ضرور ہوں گی۔ کم از کم مجھے تو یونھی لگتا ہے۔
یقیناً کچھ لوگ کسی بھی تقسیم اور زمرے میں نہیں آتے۔ جیسا کہ میں خود، میں نے اپنی تیس سالہ زندگی میں کبھی کوئی بھوت نہیں دیکھا اور ایک بار بھی کبھی کوئی کَشف یا پیش گوئی کا خواب نہیں دیکھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لفٹ میں سوار تھا۔ اُنھوں نے قسم اُٹھائی کہ ہمارے ساتھ ایک بھوت بھی سفر کر رہا ہے، مگر میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ بالکل میرے ساتھ سرمئی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک عورت کھڑی ہے، لیکن وہاں کوئی عورت موجود نہ تھی۔ میں اپنی بابت کہوں تو مجھے فقط یہی نظر آیا کہ لفٹ میں ہم تین لوگ ہی سوار تھے۔ یہ کوئی مذاق نہ تھا، میرے دونوں دوست ایسے نہیں تھے کہ مجھے بے وقوف بنانے کے لیے ایسا کوئی مذاق گھڑ لیں۔ یہ سب کچھ واقعی عجیب تھا۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ میں نے اب تک کبھی کوئی بھوت نہیں دیکھا۔ ہاں! ایک دفعہ، صرف ایک دفعہ مجھے ایسا تجربہ ہوا جس نے مجھے حواس باختہ کر دیا۔
یہ واقعہ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ آج تک میں نے اِس بارے میں کسی کو نہیں بتایا کیوں کہ مجھے اِس متعلق بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر میں نے اِس کے بارے کوئی بات کی تو یہ دوبارہ رُو نما ہو سکتا ہے، لہٰذا میں نے اس متعلق کبھی کوئی بات نہ کی۔
لیکن آج کی رات جب آپ سب لوگوں نے اپنی اپنی زندگی کے خوف ناک تجربات بیان کیے ہیں تو بَہ طورِ میزبان اپنے متعلق کچھ ایسا بیان نہ کر کے اِس رات کو پھیکا نہیں کروں گا۔ لہٰذا میں نے بھی یہی طے کیا کہ اپنی کہانی آپ کے سامنے بیان کی جائے۔
تو سنو! یہ بات 1960ء کی ہے جب میں نے گریجویشن مکمل کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب طلبہ تحریک عروج پر تھی۔ میں ہِپّی جنریشن (ایک طلبہ تحریک جو امریکہ سے شروع ہو کر دنیا کے دیگر ممالگ تک پھیل گئی) کا حصہ تھا۔ میں نے کالج جانے سے انکار کر دیا اور کالج جانے کی بَہ جائے طرح طرح کی محنت مزدوری میں جاپان گھومتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ زندگی گزارنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر اپنے ماضی کی بات کروں تو آپ لوگ مجھے بے پروا اور بے فکر لڑکا کہہ کر بلائیں گے۔
اگر چِہ میرے مطابق اُس وقت میری زندگی بہت ہی خوش گوار تھی۔ ملک میں در بَہ در گھومتے آوارہ گردی کا میرا دوسرا سال تھا۔ مجھے ایک جونیئر ہائی سکول میں رات کی چوکی داری کرنے کے لیے دو ماہ کی ملازمت مل گئی۔
یہ نیگاتا پریفیکچر کے چھوٹے سے قصبے کا سکول تھا۔ میں سخت گرم موسم میں کام کرنے کے باعث تھکن کا شکار تھا لہٰذا مجھے اپنے لیے کچھ آسانی چاہیے تھی۔ رات کی چوکی داری کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ دن کے وقت میں چوکی دار کے دفتر میں سو جایا کرتا اور رات میں میری ذمے داری اِس بات کو یقینی بنانا تھا کہ میری موجودگی میں سکول کے اندر کوئی نقصان نہ ہو۔
میں فارغ اوقات میں موسیقی کے کمرے میں بیٹھے ریکارڈ سنتا، لائبریری جا کر کتابیں پڑھتا یا جِم میں جا کر اکیلے باسکٹ بال کھیل لیا کرتا۔
حقیتاََ سکول میں ساری رات اکیلے رہنا کچھ بُرا نہ تھا۔ اگر میں کہوں کہ مجھے وہاں کوئی ڈر تھا، تو ہر گز ایسا نہ تھا۔ جب آپ اٹھارہ یا اُنیس سال کے ہوتے ہیں تو کوئی شے آپ کو خوف زدہ نہیں کرتی۔ میں نہیں جانتا کہ آپ میں سے کسی نے بھی کبھی رات کے چوکی دار کے طور پر کام کیا ہو۔ سو اس لیے ساتھ میں مجھے اپنے کام کی وضاحت کرنی چاہیے۔
وہاں یہ آپ کی ذمے داری تھی کہ ایک رات میں آپ کو دو چکر لگانا ہوتے، ایک رات نو بجے اور دوسرا رات کے تین بجنے پر۔
سکول تین منزلہ نئی اور پُختہ عمارت پر مشتمل تھا جس کے اندر اٹھارہ سے بیس کمرے تھے۔ یہ کوئی خاص قسم کا بڑا سکول نہ تھا جیسا کہ اکثر ہوتے ہیں۔ کلاس روم کے علاوہ وہاں میوزک روم، ہوم ای سی روم، آرٹ سٹوڈیو، سٹاف روم اور ایک پرنسپل کا دفتر تھا۔ نیز ایک الگ کیفے ٹیریا، نہانے کا تالاب، جم اور آڈیٹوریم تھا۔
میرے ذِمے اِن سب کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ اپنا چکر مکمل کرتے میں بیس نکاتی فہرست کو سامنے رکھتا۔ ہر اِیک کا معائنہ کرتے میں فہرست میں ایک پر نشان لگائے جاتا۔ سٹاف روم … نشان، سائنس لیب…. نشان۔
مجھے لگتا تھا کہ میں صرف چوکی دار کے کمرے میں اُس کے بستر پر ہی رہ سکتا ہوں۔ جہاں میں سوتا تھا، آخر میں اُس پر آ لیٹتا اِس پریشانی کو ایک طرف رکھے کے ارد گرد کیا چل رہا ہے۔ لیکن میں کوئی ایسا بے پروا انسان بھی نہیں تھا؛ مجھے ایک چکر لگانے میں زیادہ وقت نہ لگتا تھا، اور اِس کے علاوہ بات یہ ہے کہ اگر میرے سوتے سمے کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو یہ حملہ مجھ پہ ہی ہو گا۔ بہ ہر حال ہر رات نو اور تین بجے میں اپنے چکر لگاتا، اِس دوران میرے بائیں ہاتھ میں ٹارچ ہوتی جب کہ دائیں ہاتھ میں لکڑی کی کینڈو تلوار ہوتی۔
میں نے ہائی سکول کے زمانے میں کینڈو تلوار کی اچھی مشق کر رکھی تھی اور مجھے مخالف کو روکنے کی صلاحیت پر مکمل اعتماد تھا۔ اگر کوئی غیر تربیت یافتہ حملہ آور اصلی تلوار لیے آ جاتا تو پھر بھی میں اُس سے خوف زدہ نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ اُس وقت میں جوان تھا اب اگر ایسا ہو تو میں سرپٹ بھاگ کھڑا ہوں۔
خیر یہ آغازِ اکتوبرکی ایک طوفانی رات کا واقعہ ہے۔ در اصل سال کے یہ دن آندھیوں کے دن ہوتے تھے۔ شام ہوتے ہی مچھروں کا جُھنڈ گونج اُٹھتا۔ مجھے یاد ہے کہ مچھروں سے بچنے کے لیے میں مچھر بھگاؤ کوائل کی جوڑی جلایا کرتا۔ ہوا میں خاصا شور تھا۔ تالاب پر نصب دروازہ ٹوٹ چکا تھا، ہوا کے تھپیڑے بار ہا اُسے کھولنے اور بند کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ میں نے اِسے ٹھیک کرنے کا سوچا لیکن باہر خاصا اندھیرا چھا چُکا تھا، لہٰذا یہ ساری رات یونھی بجتا رہا۔
میرا نو بجے کا چکر خاصا بہتر رہا۔ فہرست میں موجود بیس نکات کو اچھی طرح دیکھ لیا گیا تھا۔ تمام دروازے پوری طرح تالہ بند تھے۔ ہر شے اپنی اپنی جگہ پر موجود تھی۔ معمول سے ہٹ کر کچھ نہ تھا۔ میں چوکی دار کے کمرے میں واپس آیا۔ تین بجے کا الارم لگایا اور سو گیا۔
جیسے ہی الارم نے تین بجائے میں کچھ عجیب سی پریشانی کے عالم میں اُٹھا۔ میں اِس کی وضاحت تو نہیں کر سکتا لیکن میں نے کچھ بدلا بدلا محسوس کیا۔ مجھے بیدار ہونے کا احساس نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی شے مجھے بستر چھوڑنے کی منشاء سے روک رہی ہو۔
میرا کچھ ایسا مزاج ہے کہ فوراََ ہی بستر سے اُچھل کر باہر آ جاتا ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مجھے خود کو بستر سے اُٹھانے کے لیے زور لگانا پڑا تا کہ میں اُٹھ کر اپنا دوسرے چکر کے لیے تیار ہو جاؤں۔
تالاب کا دروازہ ابھی تک کچھ سُر بکھیر رہا تھا۔ لیکن اِس کی آواز پہلے کی نسبت مختلف تھی۔ یقیناً کچھ پریشان کُن تھا۔ میں جانے سے ہچکچا رہا تھا۔ لیکن میں نے اپنے ذہن کو آمادہ کیا کہ کچھ بھی ہو مجھے اپنا کام کرنا ہی ہے۔
اگر آپ ایک دفعہ اپنی ڈیوٹی میں دَغا بازی کرتے ہیں تو پھر آپ بار بار ایسے ہی کرنے لگتے ہیں۔ میں اِس عادت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ لہٰذا میں اپنی ٹارچ اور لکڑی کی تلوار اُٹھائی اور چل پڑا۔ یہ واقعی ایک عجیب رات تھی۔
رات گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوا تیز سے تیز ہوئے جاتی تھی۔ جسم پہ خارش کے باعث میرا دھیان بٹنے لگا۔ میں نے پہلے جم، آڈیٹوریم اور پھر تالاب کے ارد گرد چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔
ہر اک شے درست پائی گئی۔ تالاب کا دروازہ ہوا میں یوں ٹکرا رہا تھا جیسے کوئی پاگل شخص بار بار سر ہلا کر اشارے کر رہا ہو۔ اِن اشاروں کا کوئی ایک حکم نہ تھا۔ پہلے دو اشاروں میں ہاں، ہاں پھر نہ، نہ… ہاں، ہاں… نہ، نہ…۔ مجھے معلوم ہے کہ ہاں نہ کی اِس تکرار کا موازنہ
کرنا ایک عجیب سی بات ہے لیکن یہی کچھ تھا جو میں اِس وقت محسوس کر رہا تھا۔
سکول کی عمارت کی اندر تمام صورتِ حال معمول پر تھی۔ میں نے اپنی فہرست کے مطابق اِرد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا۔ عجیب و غریب احساس کے با وُجود کچھ بھی معمول سے ہٹ کر نہ ہوا تھا۔
میں پُر اطمینان ہو کر واپس چوکی دار کے کمرے کی طرف جانے لگا۔ فہرست میں آخری جگہ عمارت کے مشرقی حصہ میں کیفے ٹیریا کے ساتھ واقع بوائلر روم تھا جو چوکی دار کے کمرے کے بالکل سامنے تھا۔
اِس کا مطلب تھا کہ مجھے واپس جاتے ہوئے پہلی منزل کی لمبے دالان کے نیچے سے گزرنا تھا۔ یہاں گُھپ اندھیراتھا۔ رات کے وقت جب چاند نکلتا تو دالان میں قدرے روشنی ہوتی، لیکن چاند نہ ہونے کی صورت میں آپ کے لیے کچھ بھی دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مجھے اپنا راستہ دیکھنے کے لیے ٹارچ سے روشنی کرنا پڑتی۔
اِس خاص رات کو طوفانی موسم کے باعث چاند بالکل غائب تھا۔ کبھی کبھار یہ بادلوں کی اُوٹ سے سر نکالتا لیکن دوبارہ اندھیروں میں ڈوب جاتا۔
میں خلافِ معمول بہت تیزی سے دالان کے نیچے سے گزرا۔ میرے جوتوں کے تلوے لنولیم فرش سے رگڑ کھا کر چیخنے لگے۔ یہ سبز رنگ کا لنولیم فرش تھا، ایسا رنگ کہ جیسے کائی کی چادر کا بستر بچھا ہو، میں اب بھی اِس کی تصویر بنا سکتا ہوں۔ سکول کا داخلی دروازہ اِس دالان کے بالکل نیچے وسط میں تھا۔ جیسے ہی میں یہاں سے گزرا، میں نے محسوس کیا کہ کچھ ہے؟ مجھے لگا کہ میں نے اندھیرے میں کچھ دیکھا ہے۔ میں پسینے سے شرابور ہو گیا۔ لکڑی کی تلوار پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے میں اُسی طرف بڑھا جہاں میں نے کچھ دیکھا تھا۔ میں نے ٹارچ سے سامنے کی دیوار پہ روشنی کی جہاں جوتے رکھنے کے لیے شیلف بنائی گئی تھی۔ میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ ایک آئینہ تھا، یا ایسا کہوں کہ آئینے میں فقط میں نے اپنا عکس دیکھا۔
پچھلی رات تو یہاں کوئی ایسا آئینہ موجود نہ تھا۔ جس نے مجھے چونکا دیا یقیناً یہاں وہ کل شب سے اِس وقت کے درمیان میں کہیں نصب کیا گیا تھا۔
یااار! میں کیا ڈرا تھا۔ یہ خاصا لمبا اور بڑی جسامت کا آئینہ تھا۔ خیر اطمینان ہوا کہ آئینے میں کوئی اور نہیں میں خود ہی تھا۔ حیرانی کے ساتھ مجھے اپنا آپ قدرے احمقانہ محسوس ہوا۔ سو جو میں نے دیکھا وہ یہ تھا۔ کیا ہی احمقانہ بات ہے۔
میں نے ٹارچ نیچے کی جیب سے سگریٹ نکالا اور اُسے سُلگا لیا۔ سگریٹ کا کَش لگاتے ہوئے میں نے آئینے اَپنے آپ پہ ایک نگاہ ڈالی۔ سڑک پہ لگی لائیٹ کی مدھم روشنی کھڑکی سے ہو کر آئینے میں دکھائی دے رہی تھی۔ میرے پیچھے سوئمنگ پول کا گیٹ ہوا سے بج رہا تھا۔ سگریٹ کے ایک دو کَش ہی لیے تھے کہ اچانک مجھے کچھ عجیب سا لگا۔
آئینے میں نظر آتا میرا عکس میرا نہیں تھا۔ ظاہراََ یہ بالکل میری طرح تھا لیکن یقینی طور پر یہ میں نہیں تھا۔ نہیں! ایسا نہیں ہے، یہ میں ہی تھا۔ ایک اور میں، جو کبھی وہاں ہونا نہیں چاہیے تھا۔ میں نہین جانتا کہ میں اِس بات کو کس طرح بیان کروں۔ یہ واضح کرنا کہ میں نے کیا محسوس کیا بہت مشکل ہے۔
ایک بات جو میں نے محسوس کی و ہ یہ تھی کہ اُس دوسرے شخص نے مجھ نا پسند کیا۔ اِس کی اندر ایک ایسی نفرت تھی جیسے گہرے سیاہ سمندر پر تیرتا کوئی برف کا تودہ ہو۔ نفرت کی ایسی آگ جِسے کوئی بھی نہ بجھا سکتا ہو۔
میں کچھ دیر کے لیے وہاں خاموش کھڑا رہا۔ میری سگریٹ میرے ہاتھوں سے پھسل کر نیچے فرش پر گر گئی۔ آئینے میں بھی سگریٹ فرش پر گر گیا۔ ہم وہاں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہوں اور کوئی بھی حرکت کرنا میرے لیے ممکن نہ ہو۔
آخرِ کار اُس کے ہاتھ نے حرکت کی، اُس کے دائیں ہاتھ کی اُنگلیوں نے اُس کی ٹھوڑی کو چھوا پھر اُس نے آہستگی سے کسی کھٹمل کی طرح اپنے چہرے کو اوپر اُٹھایا۔ اچانک مجھے لگا کہ میں ہُو بَہ ہُو وہ ہی کچھ کر رہا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اُسی کی عکاسی کر رہا ہوں جو کچھ آئینے میں ہو رہا تھا اور وہ مجھ پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
طاقت کی آخری پائی تک کھینچ کر میں پورے زور سے چیخا۔ جن جڑوں نے مجھے جکڑ رکھا تھا وہ سب ٹوٹ گئیں۔ میں نے لکڑی کی بنی کینڈو تلوار بلند کی اور جتنی طاقت میں لگا سکتا تھا لگا کر پورے زور سے اُسے آئینے پہ دے مار۔
شیشہ ٹوٹ کر بکھرنے کی آواز میں نے سُنی لیکن اپنے کمرے میں پہنچنے تک میں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ اندر آتے ہی جلدی سے میں نے دروازہ بند کر لیا اور چھلانگ لگا کر چادر کی نیچے چھپ گیا۔ میں فرش پر گرے سگریٹ کی بابت پریشان تھا لیکن ایسی کوئی صورت نہ تھی کہ میں واپس جاتا۔ ہوا ساری رات چیختی رہی، تالاب پر لگا گیٹ سَحَر ہونے تک ہاں، ہاں … نہ
… ہاں … نہ، نہ، نہ کا شور کرتا رہا۔
مجھے یقین ہے کہ آپ نے میری کہانی کے اختتام کا اندازہ لگا لیا ہو گا۔ کبھی کوئی ایسا آئینہ نہ تھا۔ سورج کے طلوع ہونے تک طوفان تھم چکا تھا۔ دن سورج چمک رہا تھا اور ہوا دم توڑ چکی تھی۔
میں داخلی دروازے کے پاس گیا، سگریٹ کا ٹنڈ وہاں گرا پڑا تھا ساتھ ہی وہاں میری تلوار پڑی ہوئی تھی۔ لیکن آئینہ نہیں تھا، وہاں کبھی بھی کوئی آئینہ نہیں تھا۔
جس کو میں نے دیکھا وہ بھوت نہیں تھا، وہ میں خود ہی تھا۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ اُس رات میں کتنا گھبرا گیا تھا، جب ہی مجھے یہ سب یاد آتا ہے میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ دنیا میں سب سے خطر ناک چیز ہماری اپنی سوچ ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں؟
آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہاں میرے گھر میں کوئی ایک آئینہ بھی نہیں ہے۔ میرا یقین کرو بغیر کسی آئینے کے شیو بنانا سیکھنا کوئی آسان کارنامہ نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭