طویل تحریریں، بمقابلہ مختصر لکھنے کی سیاست
از، سرور الہدٰی
ادب کے کسی موضوع پر مختصر یا طویل لکھنے کا تعلق موضوع سے بھی ہے اور لکھنے والے سے بھی۔ کوئی تحریر مختصر ہو نے کے باوجود خراب ہو سکتی ہے اور طویل تحریر اپنی طوالت کے باوجود اچھی ہو سکتی ہے۔ گویا کم لکھ کر خراب لکھا جا سکتا ہے اور زیادہ لکھ کر اچھا لکھنا ممکن ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اردو میں مختصر یا طویل لکھنے کے تعلق سے کو ئی تحریر سامنے آئی یا نہیں۔
لیکن طویل اور مختصر لکھنے کے سلسلے میں ذہن صاف نہیں ہیں۔اسی لئے غیر ذمہ داری کے ساتھ کو ئی بات ایسی کہہ دی جاتی ہے جو مختصر اور طویل تحریر کے ساتھ انصاف نہیں کرتی ۔دنیا بھر میں مختصر لکھنے کی ایک سیاست رہی ہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ طویل لکھنے کی بھی سیاست ہوسکتی ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ سیاست تو مختصر لکھنے کی ہی ہو سکتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہم مختصر کیوں لکھنا چاہتے ہیں ایسا کون سا خوف ہے جو طوالت سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مختصر لکھنا دراصل مطالعے کی تنگنائی کوچھپانا بھی ہے۔
طویل مضمون مختصر مضمون کے مقابلے میں بے خوف اور آسودہ ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے پاس چھپانے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔اس کے فکر و خیال کی دنیا اظہار میں بخالت سے کام نہیں لیتی ۔وہ جیسی ہے اور اس کے پاس جتنا کچھ ہے دوسروں تک پہنچانے میں کو ئی عار محسوس نہیں کرتی۔
اسے اس بات کا بہر حال اطمینان ہے کہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ اس کی سمجھ کے مطابق ضبط تحریر میں آچکا ہے اور ایک معنی میں اس کا علمی اور نظری کشکول خالی ہے ۔وہ اسے بھرنے کے لئے اپنی سی کوشش شروع کر دیتا ہے۔جب یہ احساس ہی نہ ہو کہ ہمارا کچھ خرچ بھی ہوا ہے تو پھر وہ حاصل کرنے کے لئے کیوں کر سوچے گا۔ مضمون کی طوالت بھی ایک طرح کی نہیں ہوتی ۔اور نہ مضمون کا اختصار ہی ایک طرح کا ہوتا ہے۔ مضمون کی طوالت کا تعلق مضمون نگار کے مطالعے کی وسعت سے ہے۔
لازما مطالعے کی وسعت اظہار کی سطح پر وسعت پیدا کر دیتی ہے۔مضمون نگار کے پیش نظر کسی موضوع کے تعلق سے مختلف مسائل ہوتے ہیں ۔وہ ایک دو بات پر اکتفا کرنے کے بجا ئے کئی پہلوؤں کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک طرح کی دیوانگی ہے ۔ایک موقع پر وارث علوی نے کہا تھا کہ جو گھوڑا جتنا کھائے گا اتنی ہی لید کرے گا ۔وارث علوی نے بہت کم مختصر مضمون لکھا ہے۔ ان کے مضمون کی طوالت وسعت نظری کی مرہون منت ہے لیکن بعض سہل پسندوں نے اس طوالت کو برداشت نہیں کیا اور اپنی کم مائیگی کو چھپانے کا وسیلہ بنا لیا ۔مجھے اس مضمون کے عنوان کا خیال اسلئے آیا کہ میں نے وارث علوی کی تحریروں کی طوالت کے سلسلے میں بہت غیر ذمہ دارانہ باتیں سنی ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو وارث علوی کی علمی اور ذہنی سطح کو نہ پہنچ سکتے ہیں اور نہ ویسا ایک صفحہ لکھ سکتے ہیں۔
عموماً مطالعے کی زحمت سے بچنے کے لئے یہ کہ دیا جاتا ہے کہ جامع اور مختصر لکھنا مشکل ہے ۔بے شک جامع اور مختصر لکھنا مشکل ہے لیکن یہ مشکل اس کے لئے ہے جس کے پاس دریا ہو اور جو اسے کوزے میں بند کرنا چاہتا ہو۔ جس کے پاس دریا ہی نہیں وہ دریا کو کوزے میں بند کیا کرے گا ؟وارث علوی نے گو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ کوزہ بھی دریا کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا وارث علوی کا علمی دریا اور علمی کوزہ خود اپنا تعارف ہے اسے کسی اور کے دریا اور کوزہ سے ملا کر کیوں کر دیکھا جا ئے ۔میں کسی اور موقع پر تفصیل سے وارث علوی کی علمی طوالت کا ذکر کروں گا۔ دریا کو کوزہ میں بند کرنا ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا۔
بعض ادبی معاملات تفصیلی اظہار کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مختصر اور جامع جیسے الفاظ کو ادبی جلسوں اور سیمیناروں نے مقبولیت بخشی۔ یہ کہا جانے لگا کہ اپنی بات دس سے پندرہ منٹ میں مکمل کر لیں ۔یقیناًکسی ادبی جلسے کے لئے اتنا ہی وقت مل پاتا ہے لیکن اسے ادبی کاوشوں اور کار گذاریوں کے لئے رہنما اصول نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔لیکن کیا کیا جائے ادھر ان دو الفاظ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مختصر اور جامع تحریر کی سیاست کا براہ راست تعلق سیمیناروں سے تو نہیں ہے لیکن اس میں ایک لہر وہاں سے ضرور آئی ہے۔ سیمیناروں میں وقت کا جبر زیادہ ہوتا ہے اوراختصار کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ وقت کا جبر ہی ہے کہ بعض اوقات مقالہ نگار مضمون پڑھنے کے بجا ئے تقریر کرنے لگتا ہے ۔یہ انداز بھی مستحسن ہے اس طرح تحریر بھی تقریر ہی کی شکل میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔سامعین کی موجودگی مقالہ نگار کو تقریر پر مائل کر دیتی ہے ۔یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مقالہ نگار کے سامنے جو تحریر تھی اس کا تعلق سیمینار کے موضوع سے تھا ہی نہیں ۔صرف دکھا نے کے لئے چند صفحے رکھ لئے گئے۔
ایسے میں مقالہ نگار کو مقرر تو بننا ہی تھا۔ اس افسوس ناک صورت حال کو پیدا کرنے میں سیمینار کے کلچر اور مختصر نویسی نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔جب پڑھنے کے لئے وقت نہ ہو تو یہی ہو سکتا ہے کہ مقالہ ٹرین میں، بس میں اور ہوائی جہاز پر لکھا جائے۔ان حالات میں جو تحریر سامنے آئے گی وہ مختصر بھی ہوگی اور ٹیڑھی ترچھی بھی ۔اب یہ تو ممکن نہیں کہ ذہن سفر میں زیادہ رواں ہو جا ئے ۔لیکن ہو کیا رہا ہے اس بارے میں ہر شخص شاکی ہے مگر اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ۔اس کی بنیادی وجہ شکوہ سنجی بھی ہے اور اس افسوس ناک صورت حال کا خود کو ایک حصہ بنانا بھی۔
ہم اس صورت حال کو چھوڑنا بھی چاہتے ہیں، اس کا حصہ بھی بننا چاہتے ہیں۔ کسی موضوع کے تعلق سے ممکنہ یا موجود پورے مواد کو اکٹھا کرنا ضروری ہے لیکن کس کے لئے ۔کسی موضوع سے متعلق حوالوں کو جمع کرنا اور پڑھنا اپنی پریشانی کو بڑھا نا اور آسودگی کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔لہٰذا سب سے محفوظ راستہ یہ ہے کہ کسی موضوع سے متعلق مواد کو دیکھا ہی نہ جا ئے یا سر سری طور پر دیکھا جا ئے یا یہ ارشاد فرمایا جا ئے کہ کو ئی تحریر یا کو ئی کتاب بہت سرسری ہے ۔اصل تنقید تو اب میرے ذریعہ سامنے آئے گی۔
یہ غرور اگر کلیم الدین احمد کا یا آل احمد سرور کا ہوتا تو بھی ہم اس کی قدر کرتے اور نئے سرے سے مطالعے کا آغاز کرتے لیکن جس غرور کی کو ئی معقول علمی اور ادبی بنیاد نہ ہواس کا کیا کیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ سہل پسندوں کی تعریف کرنے وا لے بھی اسی معاشرے میں موجود ہیں ۔سہل پسندی در اصل افواہوں پر زندگی گذارنا ہے ۔نہ جانے کتنی بار بنیادی ماخذ اصل ماخذ جیسے الفاظ سامنے آئے لیکن افواہ پر جینے والوں کا کچھ بگڑا نہیں ۔ادھر سے ادھر سے چند جملے ،چند فقرے جمع کر کے اور سنی سنائی باتوں پر اکتفا کر کے ادبی نقطۂ نظر سے خود کو خود کفیل اور ثروت مند بنانے کی روش ختم نہیں ہوئی ہے۔ ادب میں افواہوں پر جینے والے اور افواہیں پھیلانے والے پہلے بھی ہو ں گے لیکن ان افواہوں میں کو ئی نہ کو ئی عنصر علم اور مطالعے کا رہا ہے۔
افواہ میں ایک طرح کا اختصار ہے اور وہ بہت جلد ایک دو جملوں کے ذریعہ پھیلا ئی جا سکتی ہے ۔اگر افواہ کو تھوڑی طوالت نصیب ہو جا ئے اور اسے ذرا دیر کے لئے حقیقت پسند ذہن مل جائے تو افواہ اور صاحب افواہ دونوں کی چمک دمک جلد ماند پڑ جا ئے ۔ اختصار اور جامعیت کا ہم کیا کریں اس کا نہ کو ئی سیاق ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کو ئی منطق ۔کہیں سے بات شروع کر دیجئے اور کہیں ختم کر دیجیے۔ افواہ میں لذت بہت ہوتی ہے اسے پربھی لگ جاتے ہیں ۔بے شک ایسی مختصر جامع تحریریں بھی ہیں جن میں فکری بصیرت ہے اور نئے پہلو کی تلاش بھی۔
ایسی تحریروں کو پڑھ کر رشک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اختصار اور جامعیت اس طوالت کی مرہون منت ہے جو برسوں کی علمی اور ادبی ریاضت کے بعد نصیب ہو تی ہے ۔یہ ریاضت طوالت سے بھی ایک رشتہ قائم کرتی ہے ۔کبھی ہم ایک ہی قلمکار کی طوالت سے اختصار کی طرف آتے ہیں اور اختصار سے طوالت کی طرف۔اس منطق کو سمجھنا کو ئی آسان کام نہیں ہے۔عموماً کہا جاتا ہے کہ متن کا مطالعہ متن کے دائرہ کار میں رہ کر کر نا چاہئے ۔یہ بہت اچھا زاویہ ہے اسے کلوز اسٹڈی بھی کہا گیا۔
مگر اس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ نہ مصنف کو پڑھا جا ئے ،نہ مصنف کے عہد کو ،نہ مصنف کے معاصرین کو۔ گویا تاریخ، تہذیب اور دوسرے وسائل سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔متن اساس مطالعے سے کچھ اچھے نتائج بھی بر آمد ہوئے۔ لیکن ان کے یہاں جن کے مطالعہ کی سطح بلند تھی اور جو کسی ایک متن کے تجزیۂ و تفہیم میں کو ئی نئی جہت پیدا کر سکتے تھے ۔ سہل پسندی کے بعد جو بھی تحریر سامنے آئے گی وہ جامع بھی ہوگی اور مختصر بھی۔بصیرت کو ئی ایسی شئے نہیں جسے خرید کر لایا جا ئے یہ کب پیدا ہوتی ہے اور کب حماقت کی نذر ہو جاتی ہے اس بارے میں کو ئی بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔
یہ بات کتنی اچھی لگتی ہے کہ زیادہ پڑھا جائے اور کم لکھا جائے۔ زیادہ پڑھنے اور کم لکھنے کی ترغیب وتعلیم کا مقصد قلم کار کو زیادہ حساس بنانا ہے۔ بعض اوقات کسی کا کوئی قول ہماری روش سے ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے اور ہم اس روش کو بامعنی ثابت کرنے کے لیے کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا قول جو اپنے اختصار کی وجہ سے جلد یاد ہوجاتا ہے اسے عموماً اپنے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قول تو کسی بڑے مفکر اور عالم کا ہوتا ہے اور ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ جس شخصیت سے یہ قول منسوب ہے اس کے علم اور مطالعے کی سطح کتنی بلند ہے۔ کیا صرف ایک قول کو اپنی ذات کے سیاق میں دیکھنے اور بتانے سے اس علم اور مطالعے کی سطح کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ قول کو دہرانا اور قول سے منسوب شخصیت کا ادراک اور اس کی تلاش میں سرگرم رہنا دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔
اقوال کو استعمال کرنے کی بھی ایک سیاست ہے۔ اس کے پردے میں بہت آسانی کے ساتھ اپنی کم مائیگی کو چھپا کر دوسروں کو کم ترین ثابت کیا جاسکتا ہے۔ بس یہ ہے کہ اقوال کی قرأت میں کون سبقت لے جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر جو چیز سب سے زیادہ آسانی فراہم کرتی ہے وہ اختصار ہے۔ زیادہ پڑھا جائے اور کم لکھا جائے یہ قول کس کا ہے میں اس کی تحقیق نہیں کرسکا ۔ لیکن جب بھی یہ قول میری سماعت کی نذر ہوا ہے ایک عجیب خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ کلیم عاجز کا ایک شعر اس سیاق میں کتنا بامعنی ہے:
یہ ارباب خرد یہ زلف ورخ سے کھیلنے والے
ہمارے سامنے دار و رسن کی بات کرتے ہیں
یہ کس طرح معلوم ہو کہ کون کتنا پڑھتا ہے اور کتنا سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تحریر اور تقریر کی روشنی میں ہی اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ خیالات کا دباؤ داخلی چیز ہے۔ غیب سے مضامین اگر آتے ہیں تو اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ مطالعے کا سلسلہ موقوف کردیا جائے۔ خیالات کے دباؤ کا رشتہ تو مطالعے کی وسعت سے ہے۔ تقریر میں یہ دباؤ وقت کی پابندی کے سبب اختصار کا پابند ہوجاتا ہے۔ تحریر پر صاحب تحریر کا اس لحاظ سے کنٹرول ہے کہ وہ اسے مختصر کرسکتا ہے اور طویل بھی۔
ممکن ہے چند جملے زائد بھی آجائیں لیکن خیالات کا دباؤ مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ اپنے موضوع کے دائرہ کار میں رہ کر مطالعے کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ ایک مضمون یا ایک خیال سے دوسرے مضمون یا خیال تک ہم پہنچ جاتے ہیں۔ کڑیاں جڑنے لگتی ہیں اور مطالعے کے جس انداز کو متن اساس مطالعہ کہا جاتا ہے وہ بھی مختلف متون کے مطالعے کے فیضان کا نتیجہ بن جاتا ہے۔ جب مطالعہ یک رخہ اور محدود ہو تو دنیا کے کسی بھی موضوع پر لکھنے اور بولنے کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔ سوال کوئی ہو جواب ایک ہے۔ بس جواب دینے کا اسلوب مختلف ہوجاتا ہے۔ ہر سوال کا جواب اگر ایک ہے تو اندازہ کیجئے کہ جواب دینے والا ذہنی طور پر کتنا آسودہ ہوگا۔ ادب کے فکری مسائل میں دلچسپی کا مطلب زبان وبیان کی صحت ہی نہیں بلکہ زبان وبیان کی اوپری سطح سے گزرنے کے بعد اس کے deep structure کی طرف آنا ہے۔
عموماً فکری مسائل سے بچنے کے لئے زبان وبیان کی صحت تک خود کو محدود کرلیا جاتا ہے۔ بے شک زبان کی صحت بنیادی چیز ہے مگر کیا تمام عمر اس صحت پر گفتگو کرنے میں صرف کر دیا جائے۔ سارتر اور دریدا سے بہتر فرانسیسی زبان بہتوں کو آتی ہوگی۔ کچھ عجب نہیں کہ لوگوں نے سارتر اور دریداکے یہاں زبان کی غلطیاں بھی نکالی ہوں جیسا کہ ہمارے یہاں اقبال کے ساتھ ہوا۔ لیکن دنیا جس سارتر اور دریدا کو جانتی ہے وہ اس کی فکری اور فلسفیانہ نظر کی وجہ سے ہے ۔ اس کی فرانسیسی زبان کی وجہ سے نہیں۔ لہٰذا زیادہ پڑھ کر کم لکھا جائے یا زیادہ لکھا جائے اس کا فیصلہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ میں لکھ چکا ہوں پڑھنا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہوتا۔ بعض حضرات نے اس کرب کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب ذرا پڑھ کر تو دیکھئے اور انہیں بھی پڑھ کر دیکھیے جنہیں آپ کے مربی اور آپ پسند نہیں کرتے۔
کوئی کسی اور کے لیے اگر پڑھ دیتا تو پڑھنے والوں کی مشکل کتنی آسان ہوجاتی۔ فکری مسائل سے گھبرانے والے لوگ یوں تو پڑھنے کی بات کرتے ہیں لیکن جس طرح پڑھتے ہیں اس طرح آج نہیں پڑھا جاسکتا۔ اپنی معصومیت کو متن کی معصومیت بتانا یا سمجھنا واقعی حوصلے کی بات ہے۔ ادب کی دنیا میں زیادہ پڑھنے یا کم لکھنے کے مسائل عملی سطح پر ہی حل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اس کا اظہار تو ہو کہ کس نے کتنا پڑھا اور پھر کیا لکھا۔
کہنے سننے میں طوالت بھی ہوسکتی ہے اور اختصار بھی اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ مطالعے نے تحریر ،تقریر میں کتنے اور کیسے نکات کتنے پیدا کئے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ کسی کا قول دہراتے رہیں اور نہ لکھیں اور نہ بولیں۔
بازار مصر میں آ یوسف کا سامنا کر
کھوٹے کھرے کا سکہ کھل جائے گا چلن میں
جسے پڑھنا نہیں ہے وہ کسی قیمت پر نہیں پڑھے گا۔ وہ اقوال ہی سے کام چلاتا رہے گا۔ نہ پڑھا جائے نہ لکھا جائے اوراگر لکھاجائے تو یہ التباس پیدا ہو کہ بہت زیادہ پڑھ کر لکھا گیا ہے۔ یہ بھی بڑی ہنر مندی ہے ،اس کی داد بھی مل جاتی ہے۔ مگر التباس تو التباس ہے۔ فقرے بازی میں عموماً علم نہیں ہوتا۔ اس کی بنیاد افواہ اور ذہنی قلاشی پر ہوتی ہے۔ کم وقت میں مجلسی انسان بنا جاسکتا ہے۔ ہر علمی ڈسکورس کو مذاق میں اڑایا جاسکتا ہے۔اس طرح زندگی کو ایک رخ مل جاتا ہے۔
کچھ ایسے پڑھنے والے بھی ہیں جن سے لکھا نہیں جاتا انہیں دیکھ کر حسرت ہوتی ہے کہ کاش اس خاموشی کا کچھ حصہ مل جاتا ۔تجزیے کا عمل اس وقت سمٹ جاتا ہے جب تجزیہ نگار کے پاس متن کو دیکھنے کا صرف ایک زاویہ ہو یا کوئی زاویہ ہی نہ ہو۔ ادب کے فکری مسائل اور عصری تناظر سے گھبرانے کا مطلب ایک ذہنی قلاشی کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
قاری کی نظر جب بہت جلد انتخابی ہو جاتی ہے تو اس کاذہن جمود کا شکار ہو جاتا ہے ۔ایک ساتھ کلیم الدین احمد ،حسن عسکری اور آل احمد سرور کو پڑھنے کا مطلب مختلف ادبی میلانات سے آشنائی کے ساتھ ساتھ خود کو تعصبات سے بچانا بھی ہے ۔ایک قاری کے طور پر اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ذہن وسعت سے ہمکنار ہونے کے بجائے سمٹ تو نہیں گیا۔ جب انتخاب اور اختصار ابتدا میں ہی زندگی کا عنوان بن جا ئے تو نتیجہ ظاہر ہے۔
سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں