(وحید مراد)
لبرل ازم نے اسلامی تحریکیوں کو شکست دے دی وہ لبرل ازم کی تنقید پیش نہیں کر سکے یہ سب سے بڑی ناکامی ہے۔
میرے برادر محترم شاہنواز فاروقی صاحب نہایت صاحب ایمان، صاحب علم اور بہت متقی، عبادت گزار ہستی ہیں ان کے کالموں اور کتابوں سے راقم نے تہذیب مغرب اور فلسفہ مغرب کی تفہیم کے لئے بہت استفادہ کیا ہے۔ ان کے انداز بیان اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ قاری اس کے سحر میں بہتا چلا جاتا ہے، مگر گزشتہ چند ماہ سے ان کے کالموں میں اپنے سابقہ موقف سے انحراف واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ جدیدیت سے لڑتے لڑتے وہ جدیدیت کے اثر میں آگئے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ، عالم اسلام اور مغرب کی یلغار کے حوالے سے بھی ان کی باتیں بہت پرانی ہو گئی ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ پرانی معلومات کی بنیاد پر ہی کالم نگاری کر رہے ہیں اور جدید دنیا اور نئی تبدیلیوں سے ان کی آگہی بالکل نہیں ہے۔ 25 نومبر کے فرائیڈے اسپیشل میں جماعت اسلامی علاقہ وسطی کے ارکان کی تربیت گاہ سے ان کا خطاب اس کا تازہ ثبوت ہے۔ اذیل میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ ان کے فکری التباسات کا جائزہ پیش کریں گے۔
جماعت اسلامی کا اصل کارنامہ کیا ہے، وہ اس حوالے سے کہتے ہیں، پاکستان میں یہ جو اسلام کا شور و غلغلہ ہے یہ سب مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی وجہ سے ہے پاکستان میں اب کوئی اسلام کے خلاف بات کرنے کے بارے میں مشکل ہی سے سوچ سکتا ہے اور اگر سوچے گا تو اس کی بڑی سخت مزاحمت ہوگی۔ “فرائیڈے اسپیشل 25 نومبر 2016۔”
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہنواز فاروقی صاحب اندھیرے میں ہییں۔ پاکستان میں اسلام کا شور و غلغلہ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد مسلسل کم ہوتا چلا گیا۔ پرویز مشرف نے لبرل پاکستان کا اعلان کیا، اپنے ہاتھوں میں دو پلوں(کتے کے بچوں) کو لے کر انہوں نے مصطفیٰ کمال کو اپنا ہیرو قرار دیا اور اس کے بعد میڈیا کے ذریعے، غامدی صاحب کے اسلام کے ذریعے اور لبرل، سیکولر طبقات کی حمایت کے ذریعے،جیو کے ذریعے حدود و تعزیرات کے قوانین کے خلاف جو زبردست مہم جوئی کی، یہ سب اسلام کے خلاف باتیں تھیں، اسلام کے خلاف مہم جوئی تھی، یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا تھا، ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے اور شاہنواز فاروقی صاحب فرما رہے ہیں کہ اسلام کے خلاف بات کرنا مشکل ہے ،کریں گے تو مزاحمت ہوگی۔
پرویز مشرف، جاوید غامدی،ان کے حلقے کے تمام مدبر، مفکر، خورشید ندیم، ڈاکٹر فاروق خان، وغیرہ وغیرہ سب اسلام کے خلاف کھلم کھلا باتیں کرتے رہے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، مزاحمت تو دور کی بات ہے تمام اسلامی مذہبی جماعتیں پاکستان کے لبرل، سیکولر اسلام دشمن حکمران پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار و اختیار میں شریک رہیں۔پرویز مشرف نے میڈیا کو جو آزادی دی اور یہ آزادی MMA اور مشرف صاحب کے اتحاد کے زمانے میں دی گئی۔ اس کا انجام یہ ہے کہ آج پاکستان کے 120 چینل صبح و شام اپنی مذہبی، غیر مذہبی نشریا ت کے ذریعے اپنے ڈرامے، پروگرام، ٹاک شوز، فلموں ثقافت سے اسلام کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں اور شاہنوازفاروقی صاحب فرما رہے ہیں کہ کوئی اسلام کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔۔۔عریانی،فحاشی کے ذریعے کیا اسلام کے حق میں بات ہو رہی ہے؟ ٹی وی ڈراموں میں تمام مذہبی اقدار، قرآن و حدیث کے احکامات کے ذریعے عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر تمام اسلامی اقدار ، روایات، احکامات کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور شاہنواز فاروقی صاحب کہہ رہے ہیں کہ کوئی اسلام کی مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہنواز صاحب اس ملک میں اسلام کے خلاف ہونے والے کاموں اور لبرل لوگون کے کارناموں سے بالکل بے خبر ہیں مثلا سپریم کورٹ کے دو اہم فیصلے جنہوں نے پاکستان کی نام نہاد اسلامی دستوریت کا نقاب بھی نوچ کر پھینک دیا ہے۔ شاہنواز صاحب اس سے واقف نہیں۔علماء، مذہبی مفکرین، مذہبی سیاسی جماعتیں 1973 سے اس مشترکہ متفقہ التباس کا شکار تھیں کہ پاکستانی ریاست نے 1973 کے دستور میں اسلام کو بالاتر قانون تسلیم کر کے کلمہ پڑھ لیا ہے حالانکہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ فرد پڑھتا ہے ریاست نہیں۔۔۔ قبر میں جواب دہ ریاست نہیں ہوتی خلیفہ جواب دہ ہوتا ہے۔۔۔ کلمہ ہمیشہ فرد ،نفس پڑھتا ہے کوئی تجریدی وجود abstract entity نہیں پڑھتی۔ یہ محض خطابت تھی لہٰذا خطابت کا اثر زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔۔۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس خطابت کو نقطہ عروج اس وقت ملا جب ضیاء صاحب نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قرار داد مقاصد کو جو آئین کے دیباچے کا حصہ تھی آئین سے ماورا ء ہی نہیں آئین پر برتر اور حاکم بنا دیا۔اب قرار داد مقاصد supra constitutional ہوگئی۔مذہبی حلقے حسب معمول شاہنواز فاروقی صاحب کی طرح خوشی سے نہال ہو گئے کہ اب پاکستان کا آئین سو فی صد اسلامی ہو گیا کیونکہ قرارداد مقاصد کو آئین کی تمام سیکولر، لبرل، ملحدانہ شقوں پر برتری حاصل ہو گئی۔ لہٰذا اب آئین کی ہر سیکولر لبرل شق اصول کی تشریح اسلام کی روشنی میں ہوگی لہٰذا پورا قانون ہی اسلامی ہو جائے گا۔
ان سادہ لوح لوگوں کو اکیسویں صدی میں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ آئین کبھی اسلامی نہیں ہو سکتا۔ اسلامی صرف شریعت ہوتی ہے وہ قانون نہیں ہوتی۔ قانون اس کا حصہ ہوسکتا ہے اس کے نفاذ اور نفوذ کے لئے قوانین، پارلیمنٹ، آرڈیننس، ایکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ تمام جدید آئینی دستوری سیکولر، لبرل ادارے ہیں جن کے سانچے میں شریعت کو ڈالتے ہی ریاست اور اس کے قوانین بظاہر اسلامائز ہوتے جاتے ہیں مگر اسلام اور خود ریاست اور ریاستی قوانین مذہبی ہونے کے باوجود اصلاٰ سیکولر ہو جاتے ہیں۔ اسلامی شریعت۔۔۔صرف شریعت ہوتی ہے ایکٹ، آرڈیننس، ریگولیشن نہیں ہوتی۔ شریعت نہ آئین ہے نہ دستور ہے۔۔۔ دستور آئین، فیڈرلسٹ پیپرز سے نکلتے ہیں یہ کبھی مذہبی نہیں ہو سکتے لہٰذا آئین اور جدید ریاست کبھی مذہبی نہیں ہو سکتے۔
ان بے چاروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آئینی ترمیم حتمی، مستقل نہیں ہوتی، آئینی شقیں بھی مطلق نہیں ہوتیں اکثریت جب چاہے ان کو تبدیل کر سکتی ہے، منسوخ کر سکتی ہے، ان پر تنقید کر سکتی، اعتراض اٹھا سکتی ہے لہٰذا جب اسلام کو جدید سیکولر قانون سازی کے طریقے سے پاکستانی ریاست میں آرڈیننس اور ایکٹ کے ذریعے نافذ کر دیا گیا تو پارلیمنٹ کی منظوری لازمی ہوگئی، پارلیمنٹ جو بھی قانون بناتی ہے وہ نہ حتمی ہے نہ مطلق ،وہ مقدس۔