ٹھیک ہے بھائی ، لپیٹ دو سسٹم
فاروق احمد
زرداری کی مفاہمت کی بھرپور کوشش کے پانچ سال اور نواز کی جانب سے بھرپور تعاون اور درگزر کی حکمت کے چار برس کے باوجود اگر خاکی اسٹیبلشمنٹ ارنے بھینسے کی طرح آگے بڑھ بڑھ کر سینگ مارنے اور ٹکرانے کی روش پر گامزن ہے تو اب سویلین طاقتوں کو بھی یہ چاہیے کہ نرم روی برداشت تعاون ایک طرف رکھیں اور ٹکراؤ سے اجتناب کی کوشش ترک کر دیں۔ بہت ہوا کھیل تماشہ۔ فوج کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔
بس اب بہت ہوا۔ خاکی کے دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو چلے ہیں۔ یہ نہ کرو فوج مارشل لا لگا دے گی وہ نہ کرو جمہوریت ختم ہو جائے گی ۔ زبان بند رکھو فوج ناراض ہو جائے گی۔ امے فوج نہ ہوئی منہ زور بے لگام طاقت کا پاگل ہاتھی ہو گئی ۔ اررر یہ نہ کرو، اررر وہ نہ کرو ، اررر ذرا بچ کے ۔
بس بھائی بہت ہوئی یہ دادا گیری اور غنڈہ گردی ۔ اب صاف کہہ دو کہ اچھا ٹکرانا ہے تو آؤ اب ٹکرا ہی جاؤ ۔ سیاستدانوں نے جتنی تحمل مزاجی برتنی تھی برت لی ۔ اس ارنے بھینسے بدمست ہاتھی کو بھی تو بولو ۔ یعنی وہ چالیس فٹا ٹرک درندے پن سے دوڑائیں جائیں اور کاریں موٹر سائیکلیں بچتی پھریں اور ٹکراؤ سے بچیں۔ یہ وحشیانہ کٹکھنا پن جاری رہا تو اوروں کی لاکھ کوشش کے باوجود ٹکر ہو کر رہے گی۔
ٹھیک ہے ہم ٹکراؤ سے بچ لیتے ہیں لیکن کوئی اس کو بھی تو روکو جو طاقت کے نشے میں بدمست ہے ۔ کیا فوج کی کوئی ذمے داری نہیں ہے جمہوریت اور ملک کی طرف۔ فوج کو کوئی کیوں نہیں کہتا ہے کہ ٹکراؤ سے بچو ۔ فوج کو کیوں نہیں کہا جاتا کہ اپنی بدمستی پر قابو کرو۔ فوج سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازشیں نہ کرو ۔ فوج سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ فوجیت کرو دھندے نہ کرو ۔ فوج سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ اپنی آئینی حدود میں رہو۔
کیا یہ فوج کا آئینی حق ہے کہ خارجہ پالیسی میں ٹانگ اڑائے ۔ کیا کہا ۔ وہ بارڈر پر رات گزارتے ہیں۔ اول تو سرحدوں پر فوجی نہیں بارڈر رینجرز ہوتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں تو کیا یہ دنیا کی اکلوتی انوکھی فوج ہے جو سرحدوں پر لڑتی ہے۔ دوسری فوجیں کیا گھر کے آنگن میں آلتی پالتی مار کرسوئیٹر بنتی ہیں۔
ویسے بھی جس نچلے درجے کے غریب فوجی کے سرحدوں پر سردی گرمی میں اندھیری راتیں گزارنے اور دشمن کی فوجوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور بے جگری سے لڑنے کے نام پر ملک پر حکومت کرنے اور سازشیں رچانے کا حق مانگتے ہو، وہ بیچارہ تو ریٹائرمنٹ کے بعد جرمن شیپرڈ اور بل ٹیریئر کے ساتھ ہوٹلوں کے گیٹ پر بیٹھا آٹھ ہزار کی چوکیداری کیا کرتا ہے۔
اس کی جرات اور مظلومیت کو کیش کر کے جنرل صاحبان حکومت کرتے ہیں اور اس بیچارے کو بھوکا مرتا چھوڑ دیتے ہیں۔ خود لاکھوں ایکڑ اراضی بٹور کے قبضہ جما لیتے ہیں اور اس غریب کو رہنےکے لیے کٹیا بھی نہیں دیتے۔ لیکن جہاں بات ہو فوج کو آئینی حدود میں رکھنے کی وہاں فرماتے ہیں کہ سرحد پر گولی بھی تو ہم ہی کھاتے ہیں۔
ابے تو کیا گولی کھانے کے نام پر پورے ملک کا بادشاہ مان لیں تم کو ۔ دوسرے ملکوں کی فوجیں کیا پیپرمنٹ کی گولی کھاتی ہیں اور تم دنیا سے انوکھے ہو جو سیسے اور بارود کی کھاتے ہو ۔ کیا کوئی اور ملک دیتا ہے سرحد پر گولی کھانے کے نام پر فوج کو حکومت کا حق ۔ تو بھائی اب بس بہت ہوا۔
نواز شریف سمیت تمام سویلینز کو چاہیے کہ ڈر ڈر کر جینا چھوڑیں۔ بہت للو پچو کر لیا، اب کوئی تعاون نہیں اب کوئی ڈیل نہیں ان کوئی مفاہمت نہیں۔ چلو کر لو تم بھی اپنی سی۔ دیکھتے ہیں۔ بہت ہوئیں دھمکیاں کہ آواز نکالی تو فوج سسٹم لپیٹ دے گی۔ ٹھیک ہے بھائی ، لپیٹ دو سسٹم ۔ دیکھتے ہیں۔