تین عورتیں تین کہانیاں
از، نصیر احمد
پھر میں نے کہا مجھے محبت ہے۔ پہلے ہنسی اڑی۔ پھر شور مچا۔ پھر تشدد ہوا۔ لیکن میں پھر بھی محبت کرتی رہی۔ لیکن وہ محبت کے خاتمے کے ماہر تھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں جس سے محبت کرتی تھی، انھوں نے اس سے سب کچھ چھین لیا جس کی بنا پر میں اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کی بہادری کو رحم کے لیے گڑگڑاتے دیکھا۔ اس کی صداقت کو جھوٹ گھڑتے پایا۔ اس کی سخاوت کو بھکاریوں کے پیسے چراتے دیکھا۔ پھر چند روپوں کے عوض اس نے میری عزت فروخت کر دی۔جسم ہوتا تو شاید میں اس سے پھر بھی محبت کرتی رہتی لیکن اس نے میری انسان ہونے کے ناتے عزت کے دام وصول کر لیے۔ شروع میں وہ مجبور سا لگا، لیکن بعد میں مجھے علم ہو گیا کہ یہ اس کے فیصلے تھے جو اس نے حرص و ہوس کی آگ بجھانے کے لیے کیے۔ میں نے اس سے محبت ترک کر دی۔
لیکن اس سب کے باوجود میں اپنے آپ سے محبت کرتی رہی۔ اپنی عزت کرتی رہی۔ اور وہ مجھ سے نفرت کر تے رہے۔اس مسلسل جنگ سے میں تنگ آگئی۔اور ایک دن میں نے بھی کسی بہت اچھے آدمی کو فروخت کر دیا۔اس کے بعد انھوں نے مجھ سے جنگ ترک کردی۔ اب میں ان کی اپنی ہو گئی تھی۔
تب سے میں ایک جعلی زندگی گزار رہی ہوں۔ ہر وقت محبت کی عظمت کے گن گاتی ہوں لیکن مجھے نفرت ہے۔
تو پھر میں نے کہا میں سوچتی ہوں۔وہ قہہقے لگانے لگے۔ قہقہوں سے میں سوچنے سے باز نہ آئی۔ انھوں نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ڈانٹتے ڈانٹتے وہ مجھے مارنے بھی لگے۔پھر انھوں نے میری سوچوں کو کھونٹے سے باندھنے کی کوشش کی، میری سوچیں اڑنے لگیں۔
ایک دن انھوں نے میری سوچوں کو مار گرایا۔ پھر میری سوچوں کو انھوں نے پنجرے میں بھی قید کیا۔ لیکن دوڑنے، بھاگنے، اڑنے کے دوران میں نے جو دنیائیں دیکھیں، وہ قفس میں میری مسیحا بن گئیں۔ انھیں یہ بات اچھی نہ لگی ایک دن انھوں نے مجھ سے میرا دماغ چھین لیا۔ اس کے بعد میں ان سے ہار گئی۔ اب وہ جو کہتے ہیں، وہ میں کرتی ہوں۔ بھونکنے کو کہیں بھونکتی ہوں، کاٹنے کو کہیں کاٹتی ہوں۔ راتب دیتے ہیں تو پاوں بھی چاٹتی ہوں، کسی مرے ہوئے کو اٹھا کے ان کے قدموں میں لانا ہو، وہ بھی کرتی ہوں۔یہ نہیں کہ میں خاتون نہیں رہی لیکن سوچنا ہی تو میرے انسان ہونے کی وجہ تھی وہ انھوں نے چھین لی۔ اب میں سوچتی نہیں ہوں۔
تو پھر میں نے کہا میں آزاد ہوں۔ وہ رنگ برنگی رسیاں، بیڑیاں، ہتھکڑیاں، سلاخیں اٹھا لائے اور مجھے باندھ دیا۔ کچھ دیر میں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی لیکن پھر میں نے آزادی کی خواہش ہی ترک کردی۔ بلکہ آزادی چھین لینے پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی تسلی ہوئی۔ لیکن میں آزاد نہیں رہی۔
انھوں نے کہا اب تیرے مقامات بلند ہو گئے۔ اور تیرے چہرے پہ نور آگیا۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کیونکہ مجھے تو یاد ہی نہیں کہ بلند مقامات کیا ہوتے ہیں؟ کوہسار کہ کہکشاں، رفعت خیال کہ حسن بیاں یا اعلی کردار۔
لیکن محبت، تخیل، اور آزادی کی چند یادیں ابھی بھی باقی ہیں۔ اور محبت ، تفکر اور آزادی کے بغیر بلند مقامات سے میں کبھی کبھی بے اطمینان ہو جا تی ہوں۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہے اور وہ صبرو تحمل کے درس دیتے ہوئے میری اس بے اطمینانی کو رفع کرتے رہتے ہیں۔ٹھیک ہی کرتے ہوں گے،انھیں سب کچھ پتا ہے۔ انھیں میری سب کمزوریوں کا ادراک ہے، میرے امکانات کا بھی کچھ اندازہ ہے مگر میرے امکانات سے وہ خوفزدہ ہیں اور میں ان سے۔ یہاں پہ بات رک جاتی ہے۔ شاید کبھی یہاں سے بات بڑھ جائے لیکن محبت، تفکر اور آزادی کے بغیر بات کیسے بڑھے گی؟