ٹائیگر زندہ ہے ، سلمان خان کی دم دار واپسی
از، حسین جاوید افروز
فلم بینوں کے طویل انتظار کے بعد آخر کار سلمان کترینہ سٹارر فلم ’’ٹائیگر زندہ ہے‘‘ 22 دسمبر کو ریلیز ہو ہی گئی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مذکورہ فلم 2012 میں آئی فلم ایک تھا ٹائیگر کے سیکوئل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ گزشتہ فلم کی طرح ٹائیگر زندہ ہے بھی ایکشن سے بھرپور ثابت ہوئی ہے۔ فلم کے ہدایت کار علی عباس ظفرہیں جو کہ فلم کے رائٹر بھی ہیں۔ جبکہ فلم کے سکرین پلے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے ۔فلم کے پرڈیوسر آدتیہ چوپڑہ ہیں۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ عراق میں پاکستانی اور ہندوستانی نرسوں پر مشتمل ایک بس کو ایک خطرناک دہشت گرد گروہ کی جانب سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ یوں اب یہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے لیے چیلنج بن جاتا ہے کہ کیسے نرسوں کو اس سفاک دہشت گرد گروہ کے چنگل سے چھڑوا لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے را کو اپنے پرانے منجھے ہوئے ایجنٹ ٹائیگر(سلمان) کی یاد ستاتی ہے جو کہ اپنی بیوی زویا (کترینہ)اور بیٹے کے ہمراہ آسٹریا کے بر ف زاروں میں نارمل زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔
را چیف (گریش کرناڈ) اپنی ٹیم کے ساتھ ٹائیگر سے ملاقات کرتے ہیں اور اسے اس مشن کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آخرکار زویا کے سمجھانے پر ٹائیگر اس مشن کا حصہ بننے کے لیے آمادگی ظاہر کرتا ہے ۔ یوں اپنی شرائط اور اپنی چوائس کے افراد پر مشتمل ٹیم کے ساتھ ٹائیگر عراق پہنچ کر حکمت عملی وضح کرتا ہے کہ کیسے نرسوں کی بازیابی ممکن بنائی جاسکے؟
دہشت گردوں کا سربراہ ابو عثمان ایک انتہائی دہشت گرد ہوتا ہے جو محض اپنی تنظیم کی شہرت کے لیے ایسی خون آشام کارروائیاں کرنے کا ماہر ہوتا ہے ۔کہانی میں ڈرامائی موڑ اس وقت آتا ہے جب ٹائیگر کا دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے وقت اچانک اپنی بیوی زویا سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے جو کہ پاکستانی نرسوں کی رہائی کے لیے تشکیل کی گئی پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کا مرکزی حصہ ہوتی ہے۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی را اور آئی ایس آئی کی ٹیمیں دیار غیر میں اپنے لوگوں کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے یکجا ہوجاتی ہیں۔ کیا دونوں ایجنسیاں مشترکہ کاوش کے تحت قیدی نرسوں کو ابو عثمان کے شکنجے سے بازیاب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں؟ کیا یہ خونی مشن زویا اور ٹائیگر میں دائمی جدائی کا سبب بن جاتا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب ہمیں ٹائیگر زندہ ہے میں ہی ملے گا۔
اداکاری کے شعبے کی بات کی جائے تو سلمان خان بطور ٹائیگر اپنے جوبن پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس فلم سے ثابت ہوگیا کہ سلمان کے پرستار ان کو ٹیوب لائٹ کے بے ضرر کردار میں دیکھنے کے بجائے کسی دبنگ کردار میں ہی پسند کرتے ہیں۔
سلمان کے گیٹ اپ میں داڑھی اور ان کی بے مثال فٹنس نے ان کی شخصیت کو اور بھی زیادہ جاذب نظر بنا دیاہے۔ فلم میں ان کی اپنے بیٹے کے ساتھ ہم آہنگی بھی فلم بینوں کو خاصا متاثر کرتی ہے ۔ جبکہ زویا کے کردار میں کترینہ کیف بھی سنجیدہ اداکاری کرنے کی کوشش میں خاصی کامیاب محسوس ہوتی ہیں۔
اس فلم کے لیے ایکشن سیکوئنس میں کتیرینہ نے لاجواب کارکردگی دکھائی ہے۔ انہوں نے سلمان خان کے مد مقابل خاصی خود اعتماد ی سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ جبکہ را کے خفیہ ایجنٹ کے طور پر پاریش راول بھی اپنے کردار سے انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں را کے چیف کے طور پر گریش کرنارڈ اپنے دھیمے پن کے ساتھ بہترین تاثرات دینے میں ہمیشہ کی طرح کامیاب رہے۔ جبکہ ابو عثمان کے کردار میں نئے اداکار سجاد نے جم کر سلمان کے سامنے اپنے جوہر دکھائے۔ اور ان کے سفاکی سے لبریز مکالمے فلم میں مزید گہرائی کا سبب بنے۔
فلم کا سکرین پلے بھی ناظرین کو کسی لمحے بور نہیں ہونے دیتا اور ہر دم بدلتی صورتحال میں فلم معیاری ایڈٹینگ کے سبب دلچسپی سے خارج ہوتی محسوس نہیں ہوتی ۔علی عباس ظفر کے مکالمے بھی جاندار رہے خصوصا را اور آئی ایس آئی کے ممبران کے مابین نوک جھونک خاصے لطف کا سبب بنتی ہے۔ یہاں بطور رائٹر علی عباس ظفر کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی جنہوں نے پاک بھارت پیچیدہ اور خراب تعلقات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ٹیم سپرٹ کو خاصی ذہانت اور مہارت سے اجاگر کیا ہے۔ را اور آئی ایس آئی کے کسی کاز کے لیے مشترکہ کام کو سرانجام دینا ایک دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔ لیکن اس خواب کی فلم میں عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔ اگرچہ کہانی کا یہ اچھوتا پہلو بھارت میں کٹر سوچ کے حامل افراد کے لیے ہضم کرنا مشکل ہوگا لیکن اس جرات مند سوچ کے لیے علی عباس ظفر نے اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔
جبکہ میوزک کے شعبے کی بات کی جائے تو وشال شیکھر نے بےمثال کام کیا ہے۔ فلم کے گانے، دل دیاں گلاں اور سویگ سے سواگت نے ہندوستان کے گلی کوچوں سے لے کر بیرون ملک تک نے دھوم مچا دی ہے۔
آخر میں بات ہوجائے فلم کے بزنس کی تو پہلے ہی روز سے اب تک فلم کا کاروبار اسی طرح دم دار رہا ہے جو کہ سلمان خان کی فلموں کا خاصا رہا ہے۔ اپنے اولین دن فلم کا بزنس 34 کروڑ رہا۔ یوں اس نے عامر خان کی دھوم تھری کا اوپننگ کا ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ جبکہ رواں برس فلم کی اوپننگ باہو بلی ٹو کے بعد دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ فلمی پنڈتوں کے مطابق فلم ابھی کئی اور ریکارڈ بھی اپنے نام کرے گی۔ یہ فلم با آسانی تین سو کروڑ کا آنکڑہ پار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ صرف بیرون ملک سے اتوار تک اس نے 190 کروڑ کما لیے ہیں۔ بلاشبہ یہ فلم سال کی چند بڑی فلموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔
اب بات ہوجائے فلم کی خامیوں کی تو فلم میں کہیں کہیں ایکشن حد سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ایسا مصالحہ 80 اور90 کی دہائی میں چل جاتا تھا مگر مسلسل ایکشن سین کہیں کہیں بیزاری کو جنم دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات کہ فلم شروع سے آخر تک قابل پیش گوئی ہے۔ فلم میں کہیں بھی سوچنا نہیں پڑتا کہ اب کیا ہوگا؟ اور آخر میں مانا کہ زویا اور ٹائیگر دونوں خفیہ ایجنٹ ہیں مگر ان کو ہر مشکل سے با آسانی بچتے دکھایا گیا ہے۔ حالانکہ ان کو داعش سے مشابہت رکھنے والے گروہ کی جانب سے کڑی مزاحمت کا سامنا رہا۔ لیکن بحیثیت مجموعی سلمان خان کے پرستاروں کے لیے فلم میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں جو اس فلم کو چار چاند لگانے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔