لا وقت میں ایک منجمد مسافت
کہانی از، محمد عاطف علیم
وہ ایک طویل نیند سے جاگا تو کھویا گیا۔
ارد گرد پھیلے جنگل میں کوئی قہر مچا تھا، یا لگا کہ جیسے اس پر سے کوئی سانپ رینگ گیا ہو، وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
اس نے جیتی جاگتی دنیا میں واپسی پر آنکھیں مل کر حیرانی سے دیکھا کہ وہ کائی کی دبیز تہوں میں چھپے دیو قامت بوڑھے درختوں کے جھنڈ میں بنی ایک کھوہ میں موجود تھا جس کے دھانے پر تنا ہوا جالا ہوا کے جھولے پر ہولے ہولے جھول رہا تھا جب کہ پسِ منظر میں پھیلی جنگل کی شُوکَر سارے میں دہشت کے ایفیکٹس پیدا کر رہی تھی۔
وہ کچی نیند کے ہلکورے میں بیٹھا اس پُر اسرار سیٹنگ میں اپنے ہونے پر غور کرتا رہا۔ درپیش سوال یہ تھا کہ وہ کون تھا، اس کھوہ میں کیوں اور کیسے آیا اور کب سے یہاں گہری نیندوں سویا پڑا تھا۔ اس نے بہت زور مارا لیکن کچھ یاد نہ آیا۔
اس نے خود پر نگاہ کی تو دیکھا کہ اس کے بدن پر سلیقے سے استری کی ہوئی پتلون قمیض تھی اور پاؤں میں نئی وضع کے جُوتے تھے جن پر محنت سے کئی گئی پالش کی چمک ابھی تک باقی تھی۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کلائی پر ایک گھڑی بندھی تھی جو دِکھنے میں نئی تھی مگر اس کی سُوئیاں بے جان تھیں۔ اس نے گھڑی اتار کر ہلائی جلائی، چابی بھری لیکن سوئیوں میں جان نہ پڑی۔
اسے گھڑی سے تو وقت کا اندازہ نہ ہو سکا لیکن کھوہ کے باہر سے آتی روشنی صبح کے تازہ سورج کی گواہی دے رہی تھی۔
اس نے خود کو پانے کی کوشش میں جیبوں کو الٹ دیکھا کہ کوئی ایسا کاغذ پَتّر مل جائے جس سے اسے اپنا سراغ مل سکے، لیکن وائے نا کامی کہ ساری جیبیں خالی تھیں۔ شاید کوئی چور اُچکا اسے نیند میں پا کر ہاتھ دکھا گیا تھا۔ لیکن وہ اناڑی پن میں یا بھاگ نکلنے کی جلدی میں اس کی جرابیں الٹا کر اَز راہِ دانش مندی چھپائے گئے چند کرنسی نوٹوں کا نوٹس نہ کر سکا جو خود اس نے چبھن محسوس ہونے پر دریافت کر لیے تھے۔
اس کی متلاشی نظروں کی واحد کامیابی وہاں پڑا ایک شاپنگ بیگ تھا جسے وہ سرہانہ بنا کر نیند کے جھُونٹے لیتا رہا تھا۔ اس نے جھپٹ کر بیگ اٹھایا اور جاننے کی بے چینی میں اسے زمین پر الٹ دیا۔ اس کے سامنے ایک لہریے دار دو پَٹہ، کانچ کی رنگین چوڑیاں اور کچھ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے مشینی کھلونے بکھر گئے۔ اس نے ایک آرکیالوجسٹ کے سے کھوجی پن کے ساتھ ایک ایک شے کو الٹ پلٹ کر بغور دیکھا کہ ان چیزوں کے اپنے سوالوں کے ساتھ کسی ممکنہ داخلی ربط کو دریافت کر سکے۔
اس نے وہاں گھوم پھر کر یہ بھی جانا کہ وہاں اس کی طرح کے چھ اور شاپنگ بیگ پڑے تھے جو سب کے سب اسی کے جیسے تھے۔
گویا وہ سات جَنے تھے جو وہاں جانے کب سے سوئے پڑے تھے لیکن وائے حیرت کہ ان کے جسموں کے دباؤ سے دبی گھاس پر بنے ہیولے سے باقی تھے، مگر وہ خود نا موجود تھے۔ وہ ہوتے تو ان کے وسیلے سے اسے اپنے بارے میں بھی کچھ معلوم پڑتا۔ بہت آوازیں دیے جانے پر بھی جب جنگل کی غصیلی شُوکَر کے سوا کچھ سنائی نہ دیا تو اس نے جان لیا کہ جاگ اٹھنے پر وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تھے البتہ اپنے سامان کو یہیں چھوڑ جانا کچھ عجیب سی بات ضرور تھی۔
اس نے بے تابی سے شاپنگ بیگ کو الٹا تو کچھ مشینی کھلونے، ایک دو پَٹہ اور ہار سنگھار کی کچھ چیزیں زمین پر بکھر گئیں۔
اس کی یاد کی چادر لِیر و لِیر تھی پھر بھی اس نے تند تند جوڑ کر جان لیا کہ کھلونے ضرور کسی بچے کے لیے ہوں گے اور دوسری چیزیں تو یقیناً کسی جوان عورت کے سنگھار کا سامان تھیں۔ اس نے سوچا اگر یہ شاپنگ بیگ اسی کا ہے تو ضرور ان دو جَنوں کے ساتھ اس کا کوئی گہرا رشتہ رہا ہو گا۔
’’لیکن یہ پھنکارتا جنگل، یہ کھوہ اور اس کے دہانے پر تنا مکڑی کا جالا؟‘‘ اتنی بے بہا دریافتوں کے با وجود اس کی الجھن کم نہ ہوئی۔
شاید نا معلوم رشتوں کے ہونے کا احساس ابھی باقی تھا کہ اس کے شعور کی سکرین پر ایک گھر کی دھندلی سی مورت چمکیں مارنے لگی۔ یہ ہوتے ہی اس نے پا لیا کے انداز میں تالی بجائی اور امکانات کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔
ہوا یہ ہو گا کہ وہ سات جنے جو نیند میں کھوئے گئے تھے اپنی اپنی بیویوں اور بچوں کے لیے گھر سے کچھ خریدنے نکلے ہوں گے کہ بازار سے واپسی پر راہ میں اک ذرا سی اونگھ آنے پر سو گئے ہوں گے۔ رہ گئے جنگل، کھوہ اور مکڑی کا جالا تو یہ چیزیں اگتے بنتے کون دیر لگاتی ہیں؟
یہ وہ کہانی تھی جو اس نے خود کو بہلانے کے لیے گھڑی اور پھر جالا توڑ کر کھوہ سے باہر نکل آیا۔
وہ اس پگڈنڈی کے بغیر پُر شور جنگل میں خار دار جھاڑیوں سے الجھتا دیر تک چلتا رہا اور آخر کھلے میں آ کر اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے تا حدِ نگاہ ایک شہر پھیلا ہوا تھا جس پر سَجری سَویر کی چادر تنی ہوئی تھی۔ اس نے اطمینان کی گہری سانس لی اور شاپنگ بیگ بغل میں داب گھر کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔
شہر میں داخل ہوتے ہی پہلی آواز جو کان میں پڑی وہ ایک مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے کرخت آواز میں نشر ہوتا کسی شخص کی گُم شدگی کا اعلان تھا:
’’حضرات ایک ضروری اعلان سنیے … ایک آدمی جس کی عمر … اور جو … ‘‘
اس نے اعلان سنتے ہوئے لا شعوری طور پر ایک نگاہ خود پر ڈالی اور دل ہی دل میں کھوئے گئے شخص کے گھر والوں سے اظہارِ افسوس کرتا گلیوں گلی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
ایک گلی سے دوسری، دوسری سے تیسری … وہ اپنے آس پاس کو بغور دیکھتا جا رہا تھا کہ چلتے چلتے اسے ایک پریشان کر دینے والے احساس نے گھیر لیا۔
وہ شہر مُبہم طور پر دیکھا دیکھا لگنے کے با وجود اینٹ اینٹ سے اوپرا تھا۔ اس احساس کی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو کہ وہاں کی زمین درختوں اور آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ شہر والوں نے انچ انچ پر تارکول بچھا کر کوشش کی تھی کہ وہاں درخت تو کَجا گھاس کی ایک پتی تک سر نہ اٹھا سکے سو اگر درخت اور سبزہ ہی نہیں تو چرند پرند کا کیا سوال؟
اس نے راہ چلتے حیران نظروں سے دیکھا کہ اس کی راہ میں آنے والی نئی پرانی ساری عمارتیں قَلعَہ بند تھیں۔ ان میں کوئی روشن دان تھا نہ کھڑکی کا تکلف روا رکھا گیا تھا۔ نئی تو خیر نئی لیکن پرانے وقتوں کی عمارتیں جن کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کا خیال رکھا گیا تھا، ان کے مکینوں نے جانے کس سہم کی جکڑ میں ان عمارتوں کے روشن دانوں میں اینٹیں چُنی تھیں اور کھڑکیوں کو لکڑی کے ان گھڑ تختوں میں بھدے پن سے کیلیں ٹھونک کر ہمیشہ کے لیے بند کر دیا تھا۔
مزید و متعلقہ: خانے اور خوف افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
اردو کا نیا فکشن از، معراج رعنا
رہے دروازے تو وہ موجود تو تھے لیکن اس نے کوئی ایسا دوازہ نہ دیکھا جو بھولے سے بھی کھلا یا ادھ کھلا رہ گیا ہو۔ یوں لگتا تھا کہ ان ہوا بند مکانوں میں انسانوں کی بجائے ڈر نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے راہ میں دکھائی پڑنے والے کسی بھی بندے کو کسی دوسرے کے ساتھ ہنستے بولتے نہ دیکھا تھا۔ وہاں کیا عورتیں، کیا مرد، کیا بچے اور کیا بوڑھے سبھی کوک بھرے کھلونے سے دکھتے تھے، اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے، کسی زندگی جیتے ہوئے کھلونے۔ pre-programmed گہری سوچ میں کھوئے ہوئے اور ایک
اس نے یہ بھی نوٹس کیا کہ ان مشینی کھلونوں کے ماتھے پر غصہ اور آنکھ میں ڈر لکھا ہوا تھا۔ شاید وہاں کوئی بڑا پَواڑا ہوا تھا یا ادھر ادھر سے کان میں پڑی باتوں کے مطابق کسی بد مست ایٹمی طاقت کی پری ایمپٹیو سٹرائیکس کی خبر پھیل گئی تھی جس نے شہر پر ڈرے ہوئے بے بس غصے کی چپ تان دی تھی۔
’”خیر، اب تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ تلاش کیا جائے ورنہ یہ طول طویل گلیاں تو جانے کہاں کی کہاں لے جائیں۔‘‘، اس نے شاپنگ بیگ ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کیا اور تھکن سے بوجھل قدموں اپنی راہ بدل لی۔ یہ کوئی اور گلی تھی لیکن دوسری گلیوں جیسی۔ اس راہ پر ابھی وہ تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ فضا میں سائرن چیخنے لگے جو بعد میں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق وہاں ہوائی حملے سے با خبر کرنے کے لیے بجائے جاتے تھے۔ یہ ہوتے ہی کوک بھرے کھلونے اچانک حالت تنویم سے باہر نکل آئے۔ ان کی سب کی تنویمی نیند کیا ٹوٹی کہ اچانک وہاں سراسیمگی اور دہشت پھیل گئی۔ بہت سے لوگ یک بہ یک کسی ایک جانب کو بھاگ اٹھے جس پر وہاں بھگدڑ مچ گئی۔
وہ ہکا بکا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اچانک ہجوم میں سے کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچ لیا اور وہ سعادت مندی کے ساتھ کھنچتا چلا گیا۔ بہت سے دہشت زدہ لوگ جنگی طیاروں سے پناہ لینے کو بھاگ رہے تھے اور وہ بھی ہجوم کے دباؤ سے بغیر سوچے سمجھے بھاگنے پر مجبور تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ وہ دہشت زدہ وجودوں کی دوسراتھ میں ایک زیر زمین حفاظتی پناہ گاہ میں موجود تھا۔
وہ کہ جانے کس سمے کا تھا اور یہ سب کچھ جانے کس سمے کی باتیں تھیں کہ وہ کچھ نہ جان پایا کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔
پناہ گاہ میں پہنچا دیے جانے پر اس نے دوسروں کی دیکھا دیکھی طاری ہونے والی بے معنی دہشت کو جھٹکا اور نوٹ کیا کہ پتھریلی دیواروں کے اس تنگ و تاریک تہہ خانے میں قدامت کا ٹیکسچر بہت نمایاں تھا۔ لگتا تھا کہ وہاں سورج کی کرنوں نے کبھی راہ نہ پائی تھی کہ سیلن اور تہہ در تہہ جمی ہوئی کائی کی نمی سے بوجھل بو وہاں تھکی ماندی پڑی تھی۔
’’کروز میزائل …؟‘‘ کسی نے سر گوشی میں اپنے ساتھ والے سے پوچھا۔
’’نہیں شاید اس بار بی باون بم بار آئیں گے۔‘‘ جواب ملا۔
’’مائی گاڈ! گویا کارپٹ بمبنگ …؟‘’ ایک سہم کے ساتھ پوچھا گیا۔
’’کون جانے؟‘‘
’’ایک ہی بار سو پچاس ڈیزی کٹر کیوں نہیں چلا دیتے بے غیرت کے بچے؟‘‘
’’ہاں، تو اور کیا؟ قصہ ہی پاک ہو۔‘‘
’’بے وقوف، ہمیں ایک ہی بار مار کر انہیں کیا ملے گا۔ ہم نہ رہے تو ان کے ڈر سے کس کا موت نکلے گا؟‘‘
غصیلی بھنبھناہٹ کو سنتے ہوئے وہ اتنا ہی اندازہ لگا سکا کہ آہنی پرندے جیسی کوئی چیز ہوتی ہے جو ایک تیز سیٹی کے ساتھ اچانک آسمان پر نمُو دار ہوتی ہے اور کچھ ایسا گرا کر چلی جاتی ہے جس کے پھٹنے سے بہت تباہی مچتی ہے۔
وہ گہرے تجسس کے ساتھ بہت دیر تک کان لگائے رہا، لیکن آہنی پرندوں کی تیز سیٹیاں سنائی دیں نہ کسی چیز کے پھٹنے سے دیواریں لرزیں۔ اندر تیز تیز چلتے سانس تھے اور باہر فقط خاموشی۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک بار پھر سائرن چیخ اٹھے۔ لیکن معلوم ہوا کہ اس بار حملہ ٹلنے کی اطلاع تھی۔ ’’ایں! یہ کیا، حملہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘ اس سے رہا نہ گیا تو اس نے بچگانہ تجسس کے ساتھ تاریکی میں سوال لڑھکا دیا۔
ماں کے یار ہمیں ڈرا ڈرا کر مارنا چاہتے ہیں۔‘‘، کسی نے زہریلے لہجے میں اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔”
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’ہائیں! تم یہاں کے نہیں ہو؟‘‘ کسی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرد لہجے میں پوچھا۔
’’سالا معصوم بنتا ہے۔ پکڑو اسے کہیں دشمن کا ایجنٹ نہ ہو۔‘‘
’’اس کی پتلون اتار کر لُ**ی چیک کرو۔ ‘‘
’’پکڑو … پکڑو۔ ‘‘
اس سے پہلے کہ بہت سے ہاتھ اس پر جھپٹ پڑتے وہ ترنت باہر نکلتے ہجوم کی ٹانگوں میں گھس گیا اور تعاقب کرنے والوں کو جل دیتا نیویں نیویں ہو کر کھلی فضا میں نکل آیا۔
وہ باہر نکلا تو شاپنگ بیگ کی اُوٹ میں اپنا چہرہ چھپائے کسی انجان سمت تیز قدموں چل دیا۔
یہ میں کہاں آ گیا ہوں؟‘‘، اس نے غصیلے ہجوم سے محفوظ فاصلے پر پہنچ کر جھنجھلاہٹ میں سوچا۔”
اس کے دماغ نے اس ڈرائے گئے شہر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ دماغ کے کسی تاریک گوشے میں ایک جیتے جاگتے اور ہنستے کھیلتے شہر کی دھندلی سی تصویر ابھی باقی تھی۔
یہ میرا شہر ہو سکتا ہے نہ میرا گھر یہاں ہونا ممکن ہے۔‘‘، اس نے سوچا اور اپنے شہر اور اپنے گھر کی تلاش میں کسی اور راستے پر چلنے کا ارادہ باندھ لیا۔”
اس نے دیکھا کہ وہاں خطرہ ٹلتے ہی زندگی کی تمام علامتیں پہلی حالت میں واپس آ گئی تھیں۔ کوک بھرے کھلونے جنہیں جان کو لا حق ہونے والے خطرے نے تھوڑی دیر کو زندہ کر دیا تھا واپس اپنی تنویمی حالت میں گم ہو چکے تھے۔ اس نے پھر سے دماغ میں گھر کے تصور کو جمانا چاہا لیکن وہ بہت تھک چکا تھا۔
گھر ڈھونڈنے کی تھکن اور التوا شدہ بھوک نے جب اسے ایک ہوٹل کا راستہ دکھایا تو وہاں ایک اور حیرت اس کے انتظار میں تھی۔ اس نے کھانے کا بِل دینے کے لیے جراب میں سے ایک نوٹ کھینچ کر دیا تو ہوٹل والے نے آنکھیں سُکیڑ کر نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اسے مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے آواز دے کر دو چار بندوں کو بلا لیا۔
وہاں پڑنے والے لمبے پواڑے میں سے جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ہوٹل والے کو دیا جانے والا کرنسی نوٹ تو دادے پڑدادے کے زمانے سے منسوخ ہو چکا تھا جب کہ آج کل اس شہر میں کرنسی نوٹوں کی بجائے چمڑے کے سکوں کا رواج تھا۔
اس سے پہلے کہ پولیس کو بلا لیا جاتا اور وہ جعلی کرنسی چلانے کے جرم میں دھر لیا جاتا اس نے شاپنگ بیگ بغل میں دبایا اور موقع پا کر وہاں سے کھسک گیا۔
وہ جب سے نیند سے جاگا تھا ایک سے ایک الجھن میں الجھتا جا رہا تھا۔ اب تک وہ یہ بھی جان نہ پایا تھا کہ وہ کون ہے اور اسے در اصل کس کی تلاش ہے۔ اگر باقی کے چھ لوگ اسے اکیلا چھوڑ نہ گئے ہوتے تو شاید اسے اتنا نہ الجھنا پڑتا۔ شاپنگ بیگ سے ملنے والی چیزوں کی گواہی کے مطابق ضرور کہیں نہ کہیں اس کا ایک گھر ہے جہاں امکانی طور پر ایک عورت اور ایک بچہ اس کے منتظر ہوں گے (شاید اس گھر میں کچھ اور لوگ بھی ہوں جن کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ ہو سکتا ہے) … لیکن کون شہر کی کون گلی میں؟
وہ اس ڈرائے گئے شہر کے شہری لوگوں سے بچ بچا کر کہیں دور بیٹھا اسی بجھارت کی تَند تانی کے سرے تلاش رہا تھا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ نیند کے دوران اس میں رُو نما ہونے والے نا معلوم حیاتیاتی نَقص کے باعث اس کی یاد کے لینڈ سکیپ پر دھند چھا گئی تھی اور یہ شہر جو امکانی طور پر اس کا اپنا شہر تھا اس کے لیے اوپرا ہو گیا تھا تب بھی اس کے پاس موجود کرنسی کے بدلے جانے کی کیا منطق تھی؟ اس کا تو سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ کوئی نہ کوئی وقت کے آہلنے سے گر گیا تھا لیکن کون؟ … وہ خود یا یہ شہر؟
بات میں تہہ در تہہ پیچیدگی یہ تھی کہ اس کے کپڑے، جوتے، رِسٹ واچ (جو بھلے نا کارہ تھی) اور شاپنگ بیگ میں موجود مال و متاع تو زمانے کی چَلت پِھرَت کے عین مطابق تھے جس بولی میں اس کی بات کو سنا اور سمجھا جا رہا تھا وہ بھی کچھ کچھ ویسی ہی تھی لیکن دوسروں کے جیب میں چمڑے کے سکے اور اس کے پاس نا معلوم زمانے کے کرنسی نوٹ؟ یہ سب کیا تھا؟ وقت کی سیٹنگ میں کون کہاں تھا اور سچ کیا تھا اس کا وجود یا شہر میں چلتے چمڑے کے سِکؔے؟
وہ سوچتا رہا اور الجھتا رہا۔
یہ تو خیر مذاق کی بات تھی کہ وہ نیند کی سرنگ میں پھسلتا کسی اور وقت میں جا نکلا ہو۔ پھر بھی اس کے ساتھ کوئی ایسا ہاتھ ضرور ہوا تھا کہ بات اس کی سمجھ سے باہر ہو گئی تھی۔
سارا معاملہ تو اب گھر جا کر ہی صاف ہو سکتا ہے۔‘‘، اس نے سوچا اور گھر کی راہ تلاش کرنے کے لیے سامنے کی ایک گلی میں گُھس گیا۔ اس نے بھٹکتے ہوئے سارا شہر چھان لیا اور ہار گیا۔
’’اب تو کسی سے اپنے گھر کا پتا پوچھنا ہی پڑے گا۔ ‘‘
اس نے دیکھا کہ گلی کے موڑ سے وقت کی مار کھایا ہوا ایک بوڑھا لاٹھی کے سہارے مشکلوں سے چلتا نمو دار ہوا۔ اس میں ایک عجیب بات یہ تھی وہ سامنے سے آنے والے ہر آدمی کے پاس رک کر اپنی موتیے سے دھندلائی آنکھوں پر ہاتھ کی آڑ کر کے اسے غور سے دیکھتا پھر مایوسی سے سَر ہلاتا آگے بڑھ جاتا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ ہر بندے میں سے کسی اور بندے کو تلاش کرتا پھر رہا ہو۔
’’بابا لگتا تو کریکٹر ہے کہ خود کھویا ہوا ہے اور کسی دوسرے کو تلاش کرتا پھر رہا ہے لیکن یہاں کا پرانا باسی لگتا ہے کیوں نہ اسی سے پوچھ لیا جائے؟‘‘
قریب پہنچنے پر اس نے بابے کا راستہ روک لیا۔
’’بابا جی، ایک گھر کا پتا تو بتائیں۔‘‘، اس نے تمیز داری سے کہا۔
بابا اس کی آنکھوں میں اپنی کھوجی آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو گیا۔ تب اس نے سوچ سوچ کر اپنے گھر کی نشانیاں بتانا شروع کیں:
گھر کے ایک کمرے میں مدتوں سے بند گھڑیال جس کی سُوئی اوپر سُوئی چڑھی ہے اور پنڈولم چوری ہو چکا ہے … کوٹھے پر الٹی رکھی کالی ہانڈی اور صحن کے بیچوں بیچ ایک کیکر کا درخت … اس کے علاوہ اور کیا تھا؟ … ہاں، گھر کی دہلیز پر ایک اڈیکن ہاری ماں کی مری ہوئی ہوئی اڈیک … انتظار کے پھانسی گھاٹ پر دھری چوڑیوں کی کھنک … جگہ جگہ بکھری معصوم کلکاریاں اور …
بابا یہ سن کر ہنس ہنس دُہرا ہو گیا۔
آپ بے شک میرے سامان کی تلاشی لے لیں۔ یہ دیکھیں کھلونے … یہ چُنّی اور … یہ رہیں چوڑیاں۔‘‘، اس نے بابے کو یقین دلانے کے لیے ایک ایک کر کے چیزیں نکال کر دکھائیں۔
بابا اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی دھندلائی، گدلائی آنکھوں سے اسے گھور گھور دیکھتا رہا پھر جیسے اس نے اپنے آپ سے پوچھا، ’’کہیں تم وہی تو نہیں ہو؟”
’’کون …؟‘‘ ایک اچانک پن سے اس کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
“میرے بچپنے میں میرا باپ یا شاید اس کے بچپنے میں اس کا باپ، ایک روز بازار جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا یا ممکن ہے کہ وہ خود نہ گیا ہو اسے لمبی ڈاڑھیوں اور لال آنکھوں والے خدا پرست کنواری حوروں کا لالچ دے کر ورغلا لے گئے ہوں۔ مجھے ٹھیک طرح سے تو یاد نہیں پر میری بہشتن ماں کہا کرتی تھی کہ ایک بار وہ گھر سے ایسا گیا کہ پھر نہ لوٹا۔”
کہیں وہ میں ہی تو نہیں ہوں؟‘‘اس نے پائے جانے کے امکان کے جوش میں لرزتی آواز میں کہا۔
’’کون جانے مجھے تو اس کا مُہاندرا بھی یاد نہیں۔‘‘
’’اپنے حافظے پُر زور تو دوں کیا پتا میں ہی تمہارا کھویا ہوا باپ ہوں۔ ‘‘، وہ ضد میں آ گیا۔
’’لو پھر سنو۔‘‘، بابا انکشاف کے جوش میں لاٹھی کے سہارے زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے چِٹّے کورے آسمان پر نظریں گاڑ کر کہنا شروع کیا۔
’’کل کی بات لگتی ہے کہ کسی بہت پرانی اخبار کا ٹکڑا جانے کہاں سے میری ماں کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ اخبار میں کسی دور دراز کے نا معلوم ملک میں واقع کسی قَلعَہ جنگی کے صحن میں پڑی گِدھوں کی منتظر انسانی لاشوں کی تصویر چھپی تھی۔ ان کے بے روح جسموں پر لال کیچڑ جما تھا اور ان سبھوں کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ وہ پہچانے تو نہ جاتے تھے پر جانے کس طرح میری ماں نے مردوں کے ڈھیر میں اسے پہچان لیا۔ تب ایک چیخ اس کے حلق سے نکلی اور اس نے رانیں پیٹتے ہوئے چوڑیاں توڑیں اور اپنے بال کھول دیے۔ اس کے بعد وہ چھاتی پیٹتی گھر سے ایسی نکلی کہ پھر نہ لوٹی۔ تب سے میں لیکھن ہار اس جَھلّی اور اس جانے والے کو جس کی پہچان بھی گم ہو چکی ہے بندے بندے میں تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔‘‘ بابے نے تاسُّف سے سر ہلایا اور بات جاری رکھی، ’’لیکن تم وہ تو نہیں ہو، کوئی بھی وہ نہیں ہے … یا شاید سبھی وہ ہوں۔ کون جانے!‘‘
بابے نے جانے کا ارادہ باندھا اور ایک کراہ کے ساتھ گھٹنے کو دباتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’لیکن میرے گھر کا پتا …؟‘‘، اس نے ایک اضطراب سے بابے کو پکڑنے کی کوشش کی۔
’’گھر …؟‘‘ بابے نے بازو چھڑاتے ہوئے قہقہہ لگایا اور کون جانے کی تکرار کرتا کھوئے ہوؤں کی تلاش میں چل دیا۔
گلی کا موڑ مڑنے تک بابے کے ٹھٹھے اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔
ابھی وہ حیران اور پریشان کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ کس اور جائے کہ اس نے دیکھا کہ گلی کی نُکڑ سے جہاں بابا غائب ہوا تھا ایک جوان عورت فیشنی حلیے میں لہراتی چال چلتی اس کی جانب یوں بڑھی چلی آئی جیسے اسے یقین ہو کہ وہ اسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ اس اشتہا بکھیرتے بالوں والی کی آنکھ میں نشہ تھا اور اس کے رس بھرے ہونٹ تازہ لہو سے رنگے ہوئے تھے۔ اس درشنی عورت نے قریب آ کر ایک ادا سے بال جھٹک کر پیچھے کیے اور بے تکلفی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھلائی:
’’اینی دیر لادتی آ اڑیا۔ لیا میری چُنّی تے ونگاں کِتھے نیں؟‘‘
اس نے جھپٹا مار کر اس کے ہاتھوں سے شاپنگ بیگ چھین لیا اور بے تابی سے ہاتھ ڈال کر ایک کھلونا نکال لیا۔ وہ دیر تک بُت بنی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بہت سا رو چکنے پر اس نے کہا:
’’بڑا چَیتا اے اَڑیا تیرا … وَرھے لنگ گئے تُوں اجے وی اوس نُمانے نوں نئیں بُھلیا؟‘‘
اگلے پل اس نے آنکھیں پونچھیں اور ایک سرد آہ کھینچ کر ڈبڈبائے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگی:
’’وے اڑیا، ایہہ تے دَس، تینوں مِینوں کیہڑے جُرماں دیاں سزاواں مِلیاں نیں؟‘‘
وہ خاموش کھڑا لا تعلقی سے اسے گھورتا رہا۔
تب اس نے دائیں بائیں دیکھا اور تھوڑا قریب کھسک کر راز داری سے کہا:
’’ہلا! ایہہ تے دس، او ہر واری تینوں مِینوں بَنھ کے کیوں ماردے نیں۔ اونھاں نوں ساڈے توں کاہدا ڈر اے؟‘‘
’’لیکن تم کون ہو اور یہ بجھارتیں کیوں بھجوا رہی ہو؟‘‘ اس نے جوان اَتھرے جسم کی پاگل کر دینے والی باس سے بچتے ہوئے پوچھا۔
’’میں …؟‘‘، اس کے گلے میں گھنگھرو کھنکے۔’’ مجھے کیا پتا کہ میں کون ہوں، میری پہچان تو تم نے مجھے کرانی ہے۔‘‘
’’لیکن میں تو خود گم شدہ ہوں … وقت سے کٹا ہوا کَلّم کَلّا۔‘‘
’’گھونسلے سے گرے ہوؤں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اور کھوئے ہوؤں کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔‘‘ اس رنگ بدلتی عورت نے لہجہ بدلتے ہوئے ایک فیلسوف کی سی سنجیدگی سے کہا۔ ’’چل ہم دونوں بے ذاتے مل کر اپنا گھونسلا تلاش کرتے ہیں۔‘‘
وہ ابھی تک اوپرے پن اور شک کی گُھمّن گھیری میں ڈول رہا تھا۔ لیکن اپنا گھر پا لینے کے امکان نے یکا یک اسے شک کے بھنور سے نکال کر پُر جوش کر دیا۔ اس نے بڑھ کر اس نشے بھری عورت کا ہاتھ تھام لیا:
’’ہمارا گھر؟ … ہے کوئی ہمارا گھر؟ … کہاں ہے، مجھے لے چلو۔‘‘
’’ہاں، تو کہاں ہے ہمارا گھر؟‘‘وہ سوچ میں ڈوب گئی اور پھر بے پروائی سے زلفیں جھٹکتے ہوئے بولی، ’’ کہیں تو ہو گا، کوئی تو ہو گا … جلدی چلو، ابھی تو میں نے نِکّے کو اپنا دودھ بھی پلانا ہے۔ جانے شوہدا بھوکا پیاسا کس حال میں ہو گا؟‘‘
وہ ایک پاؤں پاؤں چلتے بچے کی سی سعادت مندی کے ساتھ اس کے پیچھے چل پڑا۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی کھیت کھلیان شروع ہو گئے۔ اس نے افسوس کے ساتھ دیکھا کہ تا حدِ نگاہ پھیلے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو کہیں تو پالا مار گیا تھا اور کہیں ان کی ہریالی جھاڑ جھنکاڑ نے چوس لی تھی۔ کھیتوں میں جگہ جگہ بوائی اور کٹائی کے کام آنے والی مشینری کھڑی تھی، پر دور دور تک کوئی ڈھور ڈنگر تھا، نہ بندے کی ذات تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے فصلوں کے راکھوں پر اچانک کوئی ایسی اُفتاد آن پڑی تھی کہ وہ اپنے جنور لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔
کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو ریگستان شروع ہو گیا۔
اس سمندر جیسے کاہلی سے پھیلے ریگستان کے لق و دق ویرانے میں جگہ جگہ پیاس سے دم توڑ جانے والے انسانوں اور جنوروں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور فضا میں ان کی پیاس کی پکار اور دل دوز صدائیں جمی ہوئی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہریالے کھیتوں کے مالک تھے لیکن انہیں ریگستان کی سفاک وسعتوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔ ان دونوں کو وہاں پا کر موت کی کافوری مہک سے بوجھل صدائیں ان کی جانب لپکیں لیکن انہوں نے سختی سے کان بند کیے رکھے۔ وہ دونوں ایک اپنے سے گھر کے متلاشی اپنی سیدھ میں تیز قدم چلتے رہے کہ کہیں راہ سے بے راہ نہ ہو جائیں۔ اپنے سفر کے دوران وہ کئی بار آندھیوں کی زَد میں آئے، کئی بار غیظ بھرے بگُولوں نے ان کی اٹھا پٹخ کی، لیکن وہ بگوں سے الجھتے، جھکڑوں کی مار سہتے گرتے پڑتے چلتے رہے۔
وہ ریگستانی ٹیلوں کو پیچھے چھوڑ کر کسی اور دنیا میں نکل آئے تھے، مگر ان کا سفر تھا کہ جاری تھا۔ انہوں نے پہاڑ الانگے، دریا، جنگل بیلے، شوریدہ ندیاں اور شانت دریا پار کیے اور آخر کو چلتے چلتے وقت کی حدوں سے باہر کسی اور زمان اور کسی اور مکان میں جا نکلے۔
وہاں پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ سامنے ایک مکان تھا جس میں کوئی روشن دان تھا نہ کھڑکی کا تکلف روا رکھا گیا تھا، صرف ایک دروازہ تھا جو چوپٹ کھلا ہوا تھا۔
عورت نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچ کر مکان کے اندر لے گئی۔
اس نے حیرت اور خو ف سے دیکھا کہ اس کے سامنے میلوں پھیلا کچا صحن تھا۔ اس قدیم بنجر کے ڈرا دینے والے پھیلاؤ کے بیچوں بیچ موجود واحد ذی روح کیکر کا ایک درخت تھا، جس کی چھدری چھاؤں تلے ایک تازہ قبر کھدی ہوئی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ آثار کے مطابق ابھی اس مُنھ کھلی قبر کے ساتھ کسی مردے نے با قاعدہ سے ملاپ نہیں کیا تھا لیکن اس کے سرہانے ایک کَتبہ نصب تھا جس پر ہڑپا کے تحریری اشاروں کی مدد سے متوقع مردے کے کوائف لکھے ہوئے تھے۔ اس تازہ قبر کا کتبہ شاید کئی ہزار سال پرانا تھا کہ اس کے اندر سرسراتی دراڑیں بھی اس کی قدامت پر صاد کر رہی تھیں۔
اس نے یہ بھی دیکھا کہ مکان کے چھتے ہوئے حصے میں کئی راہ داریاں اور ان گنت کمرے تھے۔ ان کمروں میں سے ہر ایک کا دروازہ انتظار کی سُولی چڑھی آنکھ کی طرح چوپٹ کھلا ہوا تھا۔
وہ ایک دروازے پر تنا ہوا جالا توڑ کر اندر کی نیم تاریکی میں گیا تو دیکھا کہ دھول مٹی اور جالوں سے اَٹے ہوئے اس کمرے میں دیوار پر پرانے وقتوں کا ایک نا کارہ گھڑیال ٹنگا ہوا تھا، جس کی سوئی اوپر سوئی چڑھی تھی اور پنڈولم غائب تھا۔
اس نے آس پاس نظر دوڑائی کہ پنڈولم اگر چوری نہیں ہوا تو یہیں کہیں گرا پڑا ہو گا اور اگر مل جائے تو وہ اسے گھڑیال میں لگا کر کوک بھرے اور ٹھہرے ہوئے وقت کو رواں کر دے۔ ابھی وہ کوئی چارہ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ چھت کے ساتھ چمٹی ایک چِھپکلی نے اسے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور ہنسی کے مارے دُہری ہوتی اس پر آن گری۔ اس نے دہشت زدہ ہو کر چھپکلی کو زور سے نوچ پھینکا اور خوف سے پسینہ پسینہ پلٹا کہ اس عجائب خانے سے جلدی سے باہر نکل جائے، لیکن دروازے پر وہ عورت سلفے کی لاٹ بنی راستہ روکے کھڑی تھی۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر پہلے اس نے قہقہہ لگایا پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’میرا نِکّا کہاں ہے، ابھی تو میں اسے اس کمرے میں چھوڑ کر گئی تھی؟‘‘
عورت نے یکا یک اسے غور سے دیکھا اور اس کی آواز لاڈ کی شدت سے بھرّا گئی۔
’’ہیں وے! کہیں تم ہی میرے نِکّے تو نہیں ہو؟‘‘
اس نے جواب کا انتظار کیے بغیر قمیص اونچی کی اور اس کے مُنھ سے اپنی چھاتی بِھڑا دی۔
’’ایہہ لَے! خورے توں کِدوں دا بُھکھا ہوویں گا۔ ‘‘
وہ پھٹے ہوئے دودھ کی ہمک سے گھبرا کر پیچھے ہٹا تو عورت نے تاسُّف سے قمیص نیچے کر لی۔
’’اچھا تو تم وہ نہیں ہو؟‘‘ اس کی مایوسی سے مری ہوئی آواز کہیں پاتال سے آتی معلوم پڑی۔’’ جانے وہ نُمانا مجھے کہاں ڈھونڈتا پھر رہا ہو گا؟‘‘
اگلے پل اس نے ایک ادا کے ساتھ بال کھولے اور آنکھوں میں نشہ بھر کر بولی، ’’اگر تم وہ نہیں تو ضرور اس کے باپ ہو گے لیکن تم اتنے چپ چپ کیوں ہو کہیں کوئی میدان تو نہیں ہار آئے ہو؟ … آئی مِین کوئی جنگ شنگ، کوئی دست پنجہ، کوئی کھیل کھلواڑ وغیرہ؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے عورت نے ’چل پھر آ جا‘ کے انداز میں ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور ایک جھٹکے سے اپنے کپڑے نوچ پھینکے۔
’’مگر میں تمہیں نہیں جانتا … آخر تم ہو کون؟‘‘اس نے دہکتے ہوئے جسم کی مار سے بچنے کے لیے آنکھیں مُوند لیں۔
’’چلو پھر آنکھیں کھولو اورمیری پہچان کر لو۔‘‘، اس نے یہ کہا اور ہاتھ پُشت کی طرف لے جا کر جسم کے سارے ٹانکے کھول دیے۔
اس نے دہشت سے لرزتے ہوئے دیکھا کہ اس نشے بھری کے جسم کا سارا گوشت اس کے پاؤں میں تھا اور سامنے ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ کِھڑ کِھڑ ہنس رہا تھا۔
’’چل ہُن آ جا، ہور نہ تَرسا۔‘‘، ڈھانچہ با قاعدہ چھچھورے پن پر اتر آیا اور ہڈیالا پنجہ اس کی کلائی پر جما کر اسے خالی قبر کی جانب کھینچنے لگا۔
قبر کے بلاوے پر وہ ہپناٹائزڈ سا آپ ہی آپ اس کی اور بڑھنے لگا۔ قریب تھا کہ اس کے پاؤں قبر کنارے کو چُھو لیتے کہ اچانک کہیں دور سے کسی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز لہروں پر ٹھلتی، ڈوبتی ابھرتی اس کے کانوں تک پہنچی۔
’’حضرات ایک ضروی اعلان سنیے … ایک آدمی جس کی عمر … اور جو …‘‘
اس ڈوبتی ابھرتی آواز کو کسی بچے کی کلکاری نے اور چوڑیوں کی کھنک میں لپٹی شرمیلی ہنسی نے سُپر اِمپوز کیا اور جادو کا تانا بانا تار تار ٹوٹ گیا۔ اس نے سرت میں آتے ہی زور لگا کر ہڈیالے پنجے کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اس جادو گھر سے نکلنے کے لیے اندھا دھند بھاگ اٹھا۔ اس کے پیچھے نسوانی ٹھٹھے چیخ رہے تھے اور سامنے سے کالی دھند کے بادل امڈے آ رہے تھے۔
وہ پلٹ کر دیکھے بغیر بھاگتا رہا۔ اس کی راہ میں ندیاں نالے، جنگل بیلے، دریا، پہاڑ، ریگستان اور کھیت کھلیان حائل ہوئے لیکن وہ ایک ایک کرکے انہیں پھلانگتا رہا۔
اس کا سانس ٹوٹا تو اس نے دیکھا کہ وہ دو بارہ سے اسی شہر میں تھا جس کی زمین درختوں اور آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ وہ ایک جا کھڑا منجمد مسافت کی گرفت میں ہانپ رہا تھا اور اس بیزار کن مضحکہ خیزی کو بے کار کے اسرار کا ٹچ دینے کے لیے گلیوں میں کالی دھند کے بادل پھیلے جا رہے تھے۔
’’یا میں گھونسلے سے گھرا ہوا ہوں یا یہ شہرِ لا وقت میں بھٹکا ہوا ہے۔ واقعہ کچھ بھی ہو لیکن یہ وہ شہر نہیں جہاں میرا گھر ہوا کرتا تھا۔‘‘
دفعتاً اس نے اپنی جرابوں میں کرنسی نوٹوں کی چُبھن محسوس کی اور اس کا دل مسرت اور ایقان سے بھر گیا۔
’’میں ہوں … اور کوئی طلسم مجھے میرے اپنے پن سے جدا نہیں کر سکتا۔‘‘
اس نے کھلونوں اور چوڑیوں سے بھرا ہوا شاپنگ بیگ سینے کے ساتھ بھینچا اور اپنی تیسری آنکھ کھول کر اس شہر پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔
تب اس نے معلوم وقت کے کسی اپنے اپنے سے شہر کی کھوج کا نئے سِرے سے ارادہ باندھا اور اس طلسم زدہ شہر سے نکلنے کے لیے تیز قدموں ایک گلی سے دوسری میں مڑ گیا۔ وہ رات ہونے سے پہلے اس شہر سے نکل جانا چاہتا تھا لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ جس گلی میں جائے وہی آگے سے بند ملے۔ وہ ہانپتا رہا اور دیوانہ وار چلتا رہا۔ اسے ایک گلی مسترد کرتی تو وہ دوسری کا دامن پکڑ لیتا۔
جلد ہی اس نے جان لیا کہ اس شہر سے باہر نکلنے کے ہر راستے پر طلسم کا پہرا لگا ہے اور یہ بھی کہ اس شہر نے کسی گوشت خور پودے کی طرح اسے اپنے میں سمیٹ کر مٹھی بند کرلی تھی …
نوٹ: راقم کو سخت افسوس ہے کہ اسے یہ کہانی قاری کی پروازِ تخیل پر بھروسہ کرتے ہوئے درمیان میں چھوڑنا پڑے گی۔ جس پرانے قلمی نسخے سے یہ کہانی نقل کی گئی ہے اس کے اگلے صفحات کسی استعمار پسند کِرم کی جہنمی بھوک کا شکار ہو گئے تھے۔ اس اجل رسیدہ نے یہ ظلم تب کیا جب یہ کہانی ایک رزمیہ میں ڈھل رہی تھی۔ خیر، یہ کوئی ایسا عذر بھی نہیں، ممکن ہے راقم تھوڑی سی دماغ سوزی کے بعد اس کہانی کا کوئی مناسب سا انجام سوچ ہی لیتا، لیکن میں اصحاب کہف کا جاں نثار ساتھی، مسمیٰ قطمیر راقم تحریر ہَذا اندریں حالات کسی قسم کے تخلیقی عمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ راقم اپنے گُم شدہ ساتھیوں سمیت جب سے طلسمی نیند سے بیدار ہوا ہے ایک جنونِ لا حاصل کی گرفت میں ہے۔ اب بھی راقم کی آبِ خود میں تر تھوتھنی قریب آتے کسی انسانی وجود کی اشتہا انگیز باس سے بوجھل ہو رہی ہے۔ مجھے بہ ہرطور اپنے جنون کا زہر کسی دوسرے کے جسم میں اتارنا ہو گا۔
لو وہ آن پہنچا … سو اے میرے عافیت زدہ قاری، ہیو اے گڈ ڈے!
* * * *
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.