کراچی میں ٹریفک حادثات کا ذمے دار کون ؟
(ابو سانول)
ایک خبر کے مطابق کراچی میں ایک ماہ میں 300 نوجوان موٹر سائیکل سوار سڑک حادثات میں جاں بحق ہوگئے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ 300 اموات نوٹس لینے کے قابل بھی نہیں ہیں کسی کو کیا معلوم8 ان کے جگر گوشہ کے ساتھ اور کس کس کا لخت جگر مد فون کیا جارہا ہے۔ صاحب اقتدار کو خود تو فرصت نہیں کہ اس جانب بھی توجہ دے اپوزیشن کیلئے بھی اس قسم کے مسائل اس وقت تک قابل توجہ نہیں بنتے جب تک لواحقین سڑک پر جنازے رکھ کر احتجاج نہ شروع کردیں ۔
ملک بھر میں لیکن خاص طور پر کراچی میں ٹریفک حادثات آکاس بیل کی طرح بڑھ رہے ہیں۔ اس آکاس بیل کا شکار سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار ہیں۔ لیکن اسکے علاوہ سڑک پار کرنے والے بھی اندھی گاڑیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار موجود نہیں کہ سالانہ کتنے ذمہ داروں کو عدالت سے سزا ہوئی لیکن ہمارا گمان یہی ہے کہ اشاریہ ایک فیصد سے بھی کم نتیجہ سامنے آئے گا۔ شہر میں بڑھتی ٹریفک اور ٹریفک جام کی صورت حال میں نوجوانوں کیلئے تعلیمی اداروں، دفاتر تک وقت پر پہنچنے، ذاتی کاروبار میں مصروف عمل،مہنگے کرایوں سے بچنے کیلئے فیملی ٹرپ، وغیرہ کیلئے موٹر سائیکل آسان اور سستی سواری کے طور پر مقبول ہے۔
کئی بار حکومتوں کی جانب سے بڑھتے حادثات کی روک تھام کیلئے ہیلمٹ کو لازمی قرار دینے کی اسکیمیں بھی شروع کی جاتی رہی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد ہی یہ ٹریفک پولیس کی کمائی کا ایک ہتھیار بن کر رہ جاتی ہے۔ موٹر سائیکل سوار بھی چند دن بعد ہی جب کبھی پولیس کی پکڑ میں آہی جائے تو 50 روپے قسط ادا کرکے آگے بڑھنے کو ترجیح دیتا ہے چونکہ اسے علم ہے کہ ہیلمٹ لگائے ہوئے بھی اگر ٹریفک پولیس نے روک ہی لیا پھر بھی قیمت ادا کیے بغیر جان خلاصی ہو نہیں سکتی ۔اور رہی جان تو وہ تو ہے ہی اللہ کی امانت۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ کراچی میں ایک فیصد بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے چالان نہیں ہوتے بلکہ اگر کسی تحقیقاتی ادارے کو توفیق ہو تو پورے شہر کے کیمروں کی ویڈیوز کو چیک کر لیں ٹریفک اہلکار عام طور پر سڑک کے کنارے کھڑے موٹر سائیکل سواروں،کمرشل گاڑیوں،کاروں اور دیگر گاڑیوں کو روکتے ہیں ان کے کاغذات چیک کرتے ہیں اور کوئی نا کوئی خامی تلاش کرکے چالان کاٹ دیتے ہیں ۔ اکثر مواقعوں پر چالان کی نوبت ہی نہیں آتی بلکہ نقدی نقدی میں ہی کام چل جاتا ہے۔
اگر کوئی ریفرنس موجود ہے تو کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں پریشر ہارن یا مسلسل ہارن پر کوئی چالان نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوئی گاڑی روکی جاتی ہے، ہارن کی بھی بے شمار قسمیں مارکیٹ میں عام ہیں کبھی آپ کو اچانک کتا بھونکنے کی آواز آجائے گی تو کبھی لگے گا سر پر ایمبولینس پہنچ گئی ہے کہ اچانک شوں سے عام گاڑی گذر جائے گی ،رانگ سائیڈ پر شازو نادر ہی چالان دیکھنے میں آئے گا،فٹنس تو چیک کرنا کام رہ ہی نہیں گیا،لائسنس بنوانے کیلئے ہمارے یہاں وقت دیا جاتا ہے پھر اس کے ساتھ ہی کمپئین ختم ہوجاتی ہے۔ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس میں دھڑلے سے LED استعمال ہورہی ہے لیکن کسی کو فکر ہی نہیں۔ سب سے حیرت انگیز تو یہ ہے کہ چالان کا بھی ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔
حکومت کی ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد پر غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہونے والے روڈ ایکسیڈنٹس کی روک تھام کیلئے کوئی پلان ہی موجود نہیں صرف ریوینیو بڑھانے کیلئے جرمانوں کی رقم بڑھادی گئی ہے۔ ہمیں درست تو معلوم نہیں کہ اس سے کتنی ٹریفک کنٹرول ہوئی یا ریوینیو میں کتنا اضافہ ہوا مگر ہمیں یقین ہے کہ ٹریفک پولیس کی اوپر کی آمدنی میں مہنگائی کے تناسب سے اچھا اضافہ ہوگیا ہوگا۔
موٹر سائیکل حادثات میں صرف ٹریفک پولیس ہی ذمہ دار نہیں بلکہ اس کی بہت بڑی ذمہ داری موٹر سائیکل چلانے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔یا ان والدین پر جو بچوں کو کم عمری سے ہی موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ کم عمر موٹرسائیکل سواروں کا مشاہدہ کرنا ہو تو کسی بھی اسکول کے باہر کھڑی موٹر سائیکلوں کو گنتی کر لیں۔ اسکول میں پڑھنے والوں کی زیادہ سے زیادہ عمر 17 سال ہوگی ۔یعنی لائسنس کی عمر سے ایک سال کم ویسے عموماً 16 سال تک کے بچے میٹرک پاس کر لیتے ہیں ۔جو بچے موٹر سائیکل پر اسکول آتے ہیں وہ گھر والوں کی اجازت سے ہی آتے ہوں گے ۔پھر اسکول کے اساتذہ کو بھی علم ہوگا کہ کون سے بچے موٹرسائیکل پر اسکول آتے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کوئی بھی قانون پر عمل درآمد اور بچوں کو خطرات سے بچانے کی کوشش نہیں کرتا۔ عام طور پر موٹر سائیکل پر خواتین اور بچوں کی فوج کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی انہیں روک کر قانون کی سنگین اور پوری فیملی کو خطرے میں ڈالنے والی حرکت پر ٹوکے ۔ اب یہ بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ موتر سائیکل پر دو عرتون سمیت تین سواریاں جائیں اور کوئی پوچھے بھی نہیں کیونکہ موٹر سائیکل پر عورتیں ہیں۔ بس حادثات پر بڑی گاڑی کو مورد الزام یا اللہ کی چیز تھی کہہ کر صبر کی تلقین۔ سڑکوں کی حالت تو ویسے ہی حادثات کی دعوت ہے نہیں معلوم کہاں کوئی گڑھاآجائے یا اسپیڈ بریکر، ایک ہی لائن میں سائیکل سے ٹرک چلتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی ٹریفک اہلکار کسی گاڑی کو درست لائن کی تلقین کرے۔
حکومتیں ہوں یا اپوزیشن نے طے کیا ہے کہ بنیادی اور روزمرہ مسائل پر بھی توجہ نہیں دیں گی۔ بس لوگ اپنے حال میں مست رہیں اور محکمے اپنے حال میں جس کا جب بس چلے قانون شکنی پر فخر کرلے اور جب اداروں کے ہتھے چڑھیں تو وہ جیب خالی کروا لیں ۔قانون اور حفاطت صرف کتابوں تک محدود۔ حادثہ ہوجائے تو اللہ نے ایسے ہی لکھا تھا، زخمی ہوجائیں تو سڑک پر ہی سر پٹھول۔ زندگی کی گاڑی ایسے ہی ڈب کھڑبی سڑکوں کی طرح چلتی رہے۔ جگر گوشے، لخت جگر کلیجے کاٹتے مدفن ہوتے رہیں۔ حکومت ذمہ دار، اپوزیشن ذمہ دار لیکن سب سے بڑھ کر ہم خود ذمہ دار جو مرتے بھی ہیں مگر چیختے نہیں۔