ہیجڑے : روایت،نوآبادیات اور لبرل ازم
(سالار کوکب)
د- براہ راست بغاوتوں میں ملوث تھے۔
ہیجڑے جو کہ ہندوستانی معاشرے میں ایک تسلیم شدہ درجہ رکھتے تھے برطانویوں کے مرد۔عورت کی ثنویت پر مشتمل جنس کے تصور سے باہر تھے۔ اسی طرح ان کا رہن سہن جس کی ثقافتی اور مذہبی جڑیں بہت مضبوط تھیں برطانویوں کے لیے اجنبی اور غیر اخلاقی تھا۔ حکومت نے اس خیال کو فروغ دیا کہ ہیجڑے بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور پھر ان کو زبردستی مردانہ خصائل سے محروم کرتے ہیں۔ Criminal Tribes Act 1871 جس میں لوگوں کو کسی خاص caste میں پیدا ہونے کی بنا پر پیدائشی طور پرہی مجرم قرار دےدیا جاتاتھا ہیجڑوں کو بھی شامل کر دیا گیا۔اس بہیمانہ ایکٹ کی دفعہ 26 کے مطابق پولیس کواختیاردیا گیا کہ:
Any eunuch so registered who appears, dressed or ornamented like a woman, in a public street or place, or in any other place, with the intention of being seen from a public street or place, or who dances or plays music, or takes part in any public exhibition, in a public street or place or for hire in a private house, may be arrested without warrant, and shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to two years, or with fine, or with both.
برطانوی راج سے پہلے ہیجڑوں کو حق ملکیت حاصل تھا اور ہیجڑوں کو امراء، نوابوں اور حکمرانوں کی طرف سے قطعات اراضی بھی دئیے جاتے تھے۔ برطانویوں کے خاندان کے تصور میں خونی رشتوں کے بغیر غیر رسمی طریقے سے خاندان کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔ برطانوی دور کے قوانین کے تحت مالک ہیجڑوں کے مر جانے کے بعد دوسرے ہیجڑوں کے لیے اپنا حق وراثت ثابت کرنا دشوار تھا چنانچہ اس دور میں ہیجڑے بتدریج اپنی جائیدادوں سے محروم کر دیئے گئے۔ برطانوی حکمرانوں نے خواجہ سراؤں کے درباری کردار کی حوصلہ شکنی کی۔ مثلا اودھ کے حکمران پر دباؤ ڈالا کہ وہ خواجہ سراؤں کو انتظامی عہدے نہ دیں۔ فوجداری قوانین بننے کے بعد تعزیرات ہند کی دفعہ 320 کو ہیجڑوں کے خلاف استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے اعضائے تناسل کوکاٹنے اوربعض اوقات اس کے نتیجے میں مرجانے والے کی لاش کو دفنانے کاعمل ایک انتہائی خفیہ رسم کی حیثیت اختیار کر گیا۔
سرکاری سطح پر مجرم قرار دیا جانا ، تھانوں میں اندراج ، کسی بھی وقت سولہ سال سے کم عمر افراد کی تلاش میں ہیجڑوں کے گھروں کی تلاشی اور حق وراثت سے محرومی ان عوامل میں سے کچھ تھے جن کی وجہ سے ہیجڑے رفتہ رفتہ معاشرے میں اپنے روایتی مرتبے سے محروم ہو گئے۔ پاکستان میں جب 1950 میں Criminal Tribes Act ختم کیا گیا تو معاشرے اور اداروں میں ہیجڑوں کے خلاف تعصبات جڑ پکڑ چکے تھے۔ تعلیم کے فروغ نے جہاں ہیجڑوں سے متعلقہ روایات کے اثر کو کم کیا وہیں اپنی مخصوص سماجی حیثیت کی وجہ سے ہیجڑے تعلیمی طور پر پسماندہ ہی رہے۔
تاہم جنرل ضیاء الحق کے مذہبی قوانین کے نفاذ تک ہیجڑوں نے اپنے معاشرتی نظام کو کسی نہ کسی صورت میں قائم رکھا ہوا تھا۔ جنرل ضیاء کے قوانین کی وجہ سے پولیس کے اس روئیے کو جو کہ Criminal Tribes Act کے خاتمے کے با وجود تبدیل نہیں ہوا تھا کو دوبارہ قانونی جواز مل گیا۔ نئے قوانین کی وجہ سے ہیجڑوں کو جسم فروشی کے الزام میں گرفتار کرنے کی دھمکی دینا، ان سے جبرا بھتہ لینا اور اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا پولیس کا معمول بن گیا۔آمدنی کم ہونے ، بدلتی ہوئی سماجی صورتحال میں اپنا پرانا تشخص کھو دینے، پولیس اور جرائم پیشہ افراد کی زیادتیوں اور دوسرے عوامل نے مل کر ستر کی دہائی کے بعد ہیجڑوں کو انتہائی کم آمدنی والے ‘جنسی کارکنوں ‘ کی صف میں دھکیل دیا۔
نوے کی دھائی میں ہیجڑے دو وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز بنے۔ عالمی سطح پر مرد۔مرد اور عورت۔عورت کے جنسی تعلق کی قبولیت اور حقوق کی تحریک کے نتیجے میں پاکستان میں ہیجڑوں پر بطور مرد۔مرد جنسی تعلق کے نمائندہ گروہ اور ہیجڑوں کے جنسی کام کی وجہ سے HIV / AIDS کا خوف، ہیجڑوں پر اس توجہ کی ایک وجہ تحقیق اور فنڈنگ کے مواقع تھے۔ چونکہ معاشرے میں انقلاب کی داعی کسی پارٹی نے ہیجڑوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی اس لیے این جی اوز وہ واحد ادارہ تھے جن کو ہیجڑوں کے ساتھ کام کرنے کے موا قع ملے۔ نو آبادیاتی دور میں برطانوی حکمرانوں نے مرد۔عورت کے جنسی تصور کو قوانین کی مدد سے مستحکم کرتے ہوئے ہیجڑوں کی تسلیم شدہ پہچان کو نقصان پہنچایا۔ موجودہ دور کی لبرل اقدار میں مرد۔مرد ، عورت۔عورت اور مرد۔عورت تسلیم شدہ جنسی رشتے ہیں۔
لبرل اقدار کے نمائندہ کے طور پر بیشتر این جی اوز نے ہیجڑوں کو مرد۔مرد رشتے میں ڈال کر فنڈ لیے۔ بعض اوقات این جی اوز اس مسلے کو Transgender کے حقوق کے حوالے سے بھی پیش کرتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ برصغیر میں نو آبادیت اور جدیدت سے پہلے ہیجڑے ایک تسلیم شدہ معاشرتی گروہ تھے۔ جبکہ مغرب میں ایسی پہچان جدیدیت کے بعد کی پیداوار ہے۔ یوں پاکستان میں ہیجڑوں کا فوری مسلہ ثقافت کے منفی اور ظالمانہ پہلوؤں کو نکال کر ان کے معاشرتی اور معاشی رتبے کی بحالی کا ہے نہ کہ مغربی خطوط پران کو نئی پہچان دینے کا!این جی اوز کے LGBT / MSM پروگرام مغرب کے انفرادی معاشرے میں رہنے والے فرد کی ضروریات کو لبرل معاشی فلسفے کی حدود کے اندر رکھ کر طے کیے گئے ہیں۔ ان لبرل تصورات کو ‘انسانی حقوق ‘ کی شکل میں معیار بنا کر باقی دنیا پر مسلط کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہیجڑا ہزاروں سالوں سے ایک خاندانی اور برادری کے نظام میں رہتا ہے جہاں اس کی معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ ہیجڑا نو آبادیاتی نظام اور لبرل معاشی فلسفے کا براہ راست نشانہ بنا ہے۔ نو آبادیاتی نظام اور لبرل معاشی فلسفے نے دیگر استحصال زدہ معاشی ، معاشرتی ، جغرافیائی ، ثقافتی ، اور قومی گروہوں کو بھی اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے۔ ہیجڑا ہونے کا مطلب ہے کہ ان افراد پر استحصال کی کچھ اضافی تہیں بھی ہیں۔ ہیجڑوں کے مسائل کا اصل حل نو آبادیاتی نظام کے اثرات اور (نیو) لبرلزم سے آزادی میں ہی مضمر ہے۔ این جی اوز کا LGBT /MSM ماڈل ہیجڑوں کے استحصال میں نو آبادیاتی حکمرانوں کے کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔
ہیجڑوں کے موجودہ پیشوں میں رقص اور جنسی کام دو نمایاں پیشے ہیں۔ رقص شروع سے ہی بیشتر ہیجڑوں کی زندگی کا حصّہ رہا ہے۔ موجودہ نظام میں دوسروں کے لیے کیے گئے رقص کی ادائیگی کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔ تاہم جنسی خدمات کی فراہمی عمومی طور پر ہیجڑوں میں ایک نا پسندیدہ کام رہا ہے۔ ہیجڑوں پر LGBT /MSM جیسے تصورات جو کہ جنس / صنف سے متعلق ہیں کا اطلاق کرنا ان کے ثقافتی استحصال کے مترادف ہے۔ ان تصورات کا اطلاق ہیجڑوں کے تشخص کو تاریخ سے علیحدہ کرکے ان کو ایک نیا اور بدتر تشخص دیتا ہے۔ ہیجڑے کی اصطلاح ایک متنوع گروہ کی نمائندگی کرتی ہے جس میں نروان / نربان ، کھسرہ ، اور زنانہ بھی شامل ہیں جو کہ مغربی تعریفوں کے اندر نہیں سماتے۔ اس طرح مغربی لیبل اس تنوع کی نفی کرتے ہیں جو کہ ہیجڑوں کی تاریخ اور ثقافت سے وابستہ ہیں۔
ہیجڑوں کے مسائل کا ایک مجوزہ لبرل حل ‘ مساوی شہریت ‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہیجڑوں کو پاکستان کے دوسرے استحصال زدہ گروہوں کے برابر کا رتبہ مل جائے۔ لیکن ‘مساوی شہریت ‘ ہیجڑوں کو تھر کے باسیوں یا بلوچستان کے خانہ بدوشوں جتنے ‘حقوق’ تو دلا سکتی ہے لیکن ان کے مسائل کا پائیدار حل نہیں ہے۔