ہم درخت نہیں کاٹتے ، ہم خودکشی کرتے ہیں
(ظہیر استوری)
درخت اور سبزہ زمین کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ زندگی کے لئے نہایت ہی اہم ہیں، چاہے وہ معاشی لحاظ سے ہوں یا ماحولیاتی، ہر صورت میں زمین میں زندگی کی بقا کی علامت ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک ترقی یافتہ ملک کا کم از کم 25 فی صد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئیے۔ جنگلات نہ صرف انسان کی بنیادی ضروریات میں حصہ دار ہوتے ہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے زمین کا درجہ حرارت معتدل رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں صنعتی انقلاب نے ایک طرف انسانی زندگی کو ٹیکنالوجی اور آسائشوں سے بھرپور بنا دیا ہے تو دوسری طرف انہی صنعتوں میں استعمال ہونے والے ایندھن اور تیل سے نکلنے والا دھواں اور زہریلے کیمیکلز زمین پر موجود ذی حیات کے لئے ایک خطرہ بن کر اُبھر رہا ہے۔ 1975 سے زمینی درجہ حرارت میں اضافہ دو تہائی ہو چکا ہے جس کے سبب ایک طرف دنیا میں موجود برف کے ذخیرے پگھلنا شروع ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سیلاب، طوفان، گرمی کی شدت اور دوسرے مسائل انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
آلودگی کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسز کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے جو کہ زمین کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ انہی گیسز کی وجہ سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث سورج سے آنے والی ایکس ریز سیدھی زمین پر پہنچتی ہیں اور درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف موذی بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہیں۔
پاکستان کے کل رقبے کا صرف 2.5 فی صد حصے پر جنگلات موجود ہیں جن میں سے بھی سالانہ انسانی سرگرمیوں کے باعث 1.6 فی صد حصہ جنگلات سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف ترقیاتی پروجیکٹس کے سلسلے میں درختوں اور زمینی کٹاؤ سالانہ بڑھتا جاتا ہے مگر اس کمی کو پورا کرنے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جارہا۔ کیونکہ جنگلات پرندوں اور دوسرے جانداروں کے لئے مسکن کا کام دیتے ہیں اور انہی پرندوں اور جانداروں سے ایکو سسٹم بنتا ہے۔
جنگلات میں کمی کے باعث یہ جاندار ہجرت کر جاتے ہیں اور اسی ہجرت کی وجہ سے ایکو سسٹم کا توازن خراب ہوتا ہے۔ ورلڈ کنزرویشن مانیٹرنگ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1027 قسم کی پرندوں اور جانوروں کی انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے 3.5 فی صد مقامی ہیں اور 4950 قسم کے پودے پائے جاتے ہیں جن میں سے 7.5 فی صد مقامی ہیں۔ ان درختوں اور دوسرے جانداروں کا رشتہ لازم و ملزوم ہے کیونکہ انہی جنگلات اور درختوں سے ہی یہ اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور یہی ان کا مسکن ہے۔
جنگلات میں کمی موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ پاکستان کہلاتا تو ایک زرعی ملک ہے مگر جس رفتار سے درخت اور زمینی کٹاؤ کا سلسلہ چل رہا ہے اسے تو لگتا ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو قدرتی ماحول کی جگہ سیمنٹ، کنکریٹ اور آلودگی سے بھری ہوئی ایک مصیبت ہی پیش کر سکیں گے جس میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ آنے والے وقتوں میں تباہی اور بربادی کے نشانات ہم 2005 کے زلزلے سے لے کر 2010 سے شروع ہونے والے سیلاب کی شکل میں دیکھتے آ رہے ہیں۔
کسی نہ کسی بہانے ہم آئے روز درخت اور زمینی کٹاؤ کے جرم میں اپنا منھ کالا کر رہے ہوتے ہیں۔ 2010 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں تقریباَ ایک لاکھ پچاس ہزار ایکڑ سے بھی زیادہ جنگلات کے لئے مختص زمین، کٹاؤ کے باعث صحرا میں بدل چکی ہے اور اسی رپورٹ میں پاکستان کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر 2015 تک جنگلات کی مقدار 6 فی صد تک نہیں بڑھائی گئی تو انٹرنیشنل معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 1992 میں 4.24 ملین ہیکٹرز زمین جنگلات سے بھری ہوئی تھی مگر بدقسمتی سے 2001 تک یہ کم ہو کر 3.44 ملین ہیکٹرز تک پہنچ چکی تھی۔ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، نیشنل ڈزاسٹر منیجنمنٹ جیسے ادارے موجود تو ہیں مگر جب تک کوئی آفت نہیں آتی تب تک ان کا پتا بھی نہیں چلتا۔
این ڈی ایم اے تو 2010 میں عطا آباد کی لینڈ سلائیڈ کے بعد سے آج تک شاید ہی کہیں نظر آئی ہو۔ ہیٹ اسٹروک اور سیلاب سے بچاؤ کے میسیجز چلانے کے، باقی کام ان کے پورے ہو چکے شاید۔ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے نام سے ہماری آدھی سے زیادہ آبادی واقف ہی نہیں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک لوگوں کو اس خطرے سے آگاہی دینے کے لئے ہزاروں ڈالر خرچ کرتے ہیں مگر ہم صرف اداروں کے نام پہ بجٹ لُٹاتے ہیں۔
آج پاکستان کے شہروں میں درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے۔ کراچی جیسے شہر جس میں درجہ حرارت اگر 35 ڈگری تک پہنچتا تھا تو لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے مگر آج اسی شہر میں 45 ڈگری معمول بن چکا ہے اور آنے والے سالوں میں 50 سے اوپر پہنچ جائے گا۔ اس بڑھتے ہوئے ٹمپریچر میں صرف زندہ رہنا کمال کہلائے گا۔ اس بڑھتے ہوئے ٹمپریچر سے نہ صرف ہیٹ اسٹروک جیسے جان لیوا حادثات سے متعارف ہوئے بلکہ ہزار قسم کی نئی بیماریاں بھی ہمارے دروازے پر منہ کھولے کھڑی ہیں۔ مئی کے شروع ہوتے ہی ملک کے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ملتی اور دوائیں کم پڑ جاتی ہیں۔
ہم ترقی کی راہوں پر چلنا چاہتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان راستوں پر چلتے ہوئے ہم اپنے آنے والے وقت کو اپنے لئے مصیبت بنا دیتے ہیں۔ جس انداز سے ہم بڑی بڑی سڑکیں بناتے ہیں، دنیا کی بڑی بلڈنگز بناتے ہیں مگر اپنے ارد گرد ماحول کو اس حد تک ڈسٹرب کر دیتے ہیں کہ انہی بلڈنگز میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ترقیاتی کام ضرور ہونے چاہئیں مگر اس کام کے دوران جتنے درخت کاٹ دیئے جاتے ہیں، جس حد تک قدرتی ماحول کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اس کے بدلے میں جتنا ممکن ہو ان جگہوں کو ماحول دوست بنانا چاہئے۔ ہماری یہی لا علمی اور بے پروائی ہماری زندگی کے لئے خطرہ بن کے سامنے آ رہا ہے۔ ہم خود اپنی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔