درخت درویش ہوتے ہیں، محمد شفیق فاروقی کے فن مصوری پر تبصرہ
از، افضل رَضوی
تخلیقِ آدمؑ سے دورِ موجود تک انسان کئی ادوار سے گزرا ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ زمانۂِ قبل اَز تاریخ سے تمدنی دور تک آتے آتے اس نے رنگ رنگ اور قسم قسم کے علوم و فنون سے آگہی حاصل کی۔ پتھر کے دور سے نکل کر انسان جب تہذیب و تمدن سے واقف ہوا تو قدیم یونان اور اہلِ مصر تک پہنچتے پہنچتے اس نے نہ صرف علمی ترقی کی، بَل کہ، شعوری طور پر بھی ممتاز ہو گیا۔
علوم وفنون کا مرکز یہ تہذیبیں ماہرینِ علوم و فنون کا مرکز بن گئیں۔ ارسطو، سقراط اور افلاطون جیسے عظیم فلسفی پیدا ہوئے اور علم و فن انسان کا زیور بن گیا۔ انسان نے فنونِ لطیفہ کے ایسے ایسے فن پارے تخلیق کیے کہ انہیں دیکھ کر آج بھی عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس فنی سفر کو جاری رکھتے ہوئے بڑے بڑے نابغۂِ روز گار پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا اور اس دنیا سے کوچ کر نے کے با وجود آج بھی زندہ ہیں۔
فنونِ لطیفہ میں مُصّوری اور خطاطی کی اہمیت اور حیثیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس فن کو زندہ رکھنے والوں کی طویل فہرست ہے؛ تاہم پاکستان میں دورِ حاضر میں اس فن میں نام کمانے والوں میں ایک بڑا نام محمد شفیق فاروقی کا ہے۔
محمدشفیق فاروقی کے فنِ مصوری پر قلم اٹھانے سے پہلے اس بات کا علم ہونا بہت ہی ضروری ہے کہ یہ فن کن کن ادوار سے گزر کر آج کے دور میں داخل ہوا ہے۔ یہ فن ایسا ہے کہ اس پر انسان نے زمانۂِ قبل اَز تاریخ سے لے کر دورِ جدید تک مختلف انداز میں کام کیا اور کئی نادر نمونے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑے۔
فنِ مصوری کا پہلا دور پتھر کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور (stone age art) کی مصوری بنیادی طور پر تین ادوار Paleolithic، Mesolithic اور Neolithic میں تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ دور 2.5 ملین سے 3000 قبلِ مسیح تک مانا جاتا ہے اور اس کے نشانات وسطی ہندوستان میں پائے گئے ہیں۔ اس کے بعد کا دور تاریخ میں کانسی کے دور (bronze age art) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو 3000 سے1200 قبلِ مسیح پر محیط ہے۔ اس دور میں مصر اور ایران کے علاوہ سومیری اور منان آرٹ پر بہت کام ہوا، نیز دھاتی نمونہ جات بھی قابلِ ذکر ہیں۔
ایک اور دور لوہے کادور (iron age art) کہلاتا ہے۔ یہ دور 1500 قبلِ مسیح سے 350ء تک کا ہے۔ اس دور میں مسینین آرٹ، یونانی آرٹ، سیلٹک اور رومن آرٹ نے خوب ترقی کی۔ اس کے بعد آرٹ قرونِ وسطیٰ (350 ء سے 1300ء)، نشاۃِ ثانیہ (1300ء سے 1600ء) اور نشاۃِ ثانیہ کے بعد کے دور (1600ء سے 1850ء) سے ہوتا ہوا دور جدید (1850ء سے1970ء) میں داخل ہوا۔ اس دور میں اِمپریشن ازم، کلر ازم، ایکسپریشن ازم اور کیلی گرافی کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 1970ء سے شروع ہونے والا دور آج تک جاری ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ان ادوار کی تقسیم مغربی ہے جب کہ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی اسلامی آرٹ کا بھی آغاز ہو گیا تھا، چُناں چِہ اسلامی عقائد کے زیرِ اثر فنونِ لطیفہ کے ماہرین نے بیش بہا نادر نمونے تخلیق کیے۔
ان میں مساجد کے محرابوں کے اندر آیاتِ قرآنیہ کی کیلی گرافی اور دیگر بیل بُوٹے شامل ہیں۔ عربوں نے جلال الدین رومیؒ کے افکار کو پینٹ کیا اور ایرانیوں نے قالینوں پر نقش و نگار سے منفرد مقام حاصل کیا، جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان میں صادقین نے فنِ مصوری کو عروج دیا اور اسلامی اقدار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئی نادر فن پارے تخلیق کیے۔
پاکستان کے مایہ ناز مصور محمد شفیق فاروقی سے میری شناسائی تو بہت قدیم نہیں ہے، لیکن میں ان کے حسنِ اخلاق اور فنی مہارت کی بَہ دولت ان کا گرویدہ ہوں۔ لاہور کے ایم اے او کالج میں کلامِ اقبال میں مظاہرِ فطرت کے موضوع پر میرا لیکچر تھا، اس میں جناب فاروقی صاحب بھی تشریف لائے۔ انہوں نے میری باتوں کو نہایت انہماک سے سماعت کیا اور بعد از لیکچر ان سے گفتگو کر کے ایسا لگا جیسے ایسے درویش سے ملاقات ہو گئی ہو جو تصنع، بناوٹ اور ریا کاری سے مبرا ہو۔ اندازِ گفتگو نہایت سلیس اور سادہ لیکن اپنے فن میں ایسے ماہر کہ دور دور تک کوئی ثانی نہ ملے۔
میری کتاب در برگِ لالہ و گل کے سلسلے کی تقاریب میں جناب شفیق فاروقی صاحب کی شرکت سے ان کی حکیم الامت علامہ اقبالؒ سے عقیدت اور محبت صاف عیاں تھی۔ مجھے ان کی درویش گاہ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا اور ان کی زیرِ نظر کتاب درخت درویش دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ کتاب ان کے فن کی مُنھ بولتی تصویر ہے جس میں انہوں نے دو سو کے قریب سکیچز شامل کیے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کتاب میں کِیکر اور شیشم کے درختوں پر فوکس کیا ہے اور یہ سکیچز ایسے ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہوں کہ ہم نے تمہیں (انسان) بہت کچھ دیا لیکن تم نے تو ہمیں صفحۂِ ہستی سے ہی مٹا دیا۔
شفیق فاروقی صاحب کا تعلق سیال کوٹ سے ہے اور وہ اب لاہور میں مقیم ہیں۔ لیکن ان کا دونوں شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ فاروقی چُوں کہ ایک درویش منش انسان ہیں اس لیے انہیں انسانوں کے ساتھ ساتھ درختوں سے بھی بے انتہا محبت اور عقیدت ہے۔ فاروقی کے بَہ قول جب وہ لاہور سے سیال کوٹ سفر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں ان درختوں کو تلاش کرتی ہیں جو کبھی سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہوتے تھے۔ ایسے میں ان کے لب حرکت کرنے لگتے ہیں اور وہ بر ملا پکار اٹھتے ہیں:
کِتھے گیاں پنڈ دی ٹالیاں تے بیریاں
کِتھے ساڈے پِپلاں دی چھاں گئی
شفیق فاروقی بھی حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی تقلید میں درختوں سے اظہارِ محبت کرتے نظر آتے ہیں کیوں کہ علامہؒ کے کلام اگر بَہ نظرِ غائر مطالَعَہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں درختوں سے خاص لگاؤ تھا۔ چُناں چِہ علامہؒ کے کلام میں درختوں کا ذکر جا بَہ جا مل جاتا ہے۔ نظم ہمالہ میں انہوں نے منظر کشی میں اپنا ہنر کمال کی حد تک پیش کیا ہے۔ یہ بات وہ لوگ بَہ خوبی سمجھ سکتے ہیں، جو سوچ و فک رسے آگہی رکھتے ہیں کہ سرِ شام درخت واقعی ایسے نظر آتے ہیں جیسے کسی گہری سوچ میں گُم ہوں اور اسی بات کو علامہؒ نے شعر کی صورت اور شفیق فاروقی نے سکیچ کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
علامہ اقبال ؒ کی نظم و نثر کے گہرے مطالعے سے یہ بات اہلِ علم پر عیاں ہو جاتی ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ درخت بھی کلام کرتے ہیں؛ چناں چِہ ایک جگہ پرندے اور درخت کی گفتگو بیان کرتے ہوئے اَشیاء کے کردار اور ان کی افادیت کو موضوع بنا کر انصاف اور ظلم و ستم کا فرق واضح کیا ہے۔
کہا درخت نے اک روزمرغِ صحرا سے
ستم پہ غم کدۂِ رنگ و بو کی ہے بنیاد!
بَہ عینہ شفیق نے اپنے سکیچز میں درخت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ان کے جان دار ہونے اور کلام کرنے کا احساس روح میں اتر جاتا ہے اور زبان سے بلا تامل واہ! نکل جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ بات بھی ہمارے تجربے میں ہے کہ درخت ماحول کو نہ صرف پرکشش، بَل کہ، صاف رکھنے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، وہ درخت آج زمانے کی نام نہاد ترقی کی نظر ہو گئے ہیں۔ ان درختوں کی عدم موجودگی شفیق کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہے تو ان کے ہاتھوں کی انگلیاں گردش میں آ جاتی ہیں اور وہ ان درختوں کے نقش کاغذ پر اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔
وہ ان درختوں کو درویش مانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ درخت ایسا درویش ہے جو انسان کو بس دیتا ہی دیتا ہے، اس سے کسی شے کا تقاضا کرنا اس کی فطرت نہیں۔ درخت انسان کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں جو انسانی زندگی کی اساس ہے، درخت انسان کو پھل دیتا ہے جو اس کی غذا کا لازمی جزو ہے، درخت انسان کو اپنے برگ و بار دیتا ہے، درخت انسان کو کڑی دھوپ میں سایہ فراہم کرتا ہے، درخت زمیں کو زرخیز بناتا ہے اور نہ جانے درخت انسان کے لیے کیا کیا کرتا ہے؛ لیکن انسان اسے بڑی بے رحمی سے بنا کسی قصور کے کاٹ دیتا ہے۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ قدرت نے اگر ان درختوں کو اگایا ہے تو ان کے رزق کا بھی بند و بست کر رکھا ہے۔ فاروقی اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ اربابِ اخیتار کو چولستان میں درخت لگانے چاہیں تا کہ وہاں کے باسی بھی ان درویشوں سے مستفید ہو سکیں۔
یہ حقیقت ہر کس ناکس پر اَظہرُ مِّن الشَّمس ہے کہ سر زمینِِ پاک درختوں کی دولت سے مالا مال ہے اور ایسے ایسے نا یاب درخت اور پودے یہاں اُگتے ہیں کہ جن کے فوائد اتنے ہیں کہ بیان کے لیے الگ کتب خانہ چاہیے، مثلاً، کیکر، شیشم، املتاس، ارجن، سمبل، فراش یا گز، سکھ چین، کنیر، کچ نار، بیری، توت، نیم، دھریک، پیپل، سفیدہ اور بہت سے دیگر درخت پاکستان میں پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک کثیر تعداد ادویات بنانے کے کام آتی ہے۔
پودوں سے محبت رکھنے والے دنیا کے مشہور و معروف محقق ڈیوڈ ایٹن برا
(David Attenborough) اپنی کتاب The Private Life of Plants میں لکھتے ہیں کہ پودے ایک دوسرے کی باتیں سنتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں اور حیران کن حد تک وقت کا ادراک رکھتے ہیں۔
درخت درویش میں شفیق نے انہی درختوں کے سکیچز شامل کیے ہیں، جو کبھی اس سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچاتے تھے۔ بنیادی طور پر انہوں نے اس ایک علاقے کی مثال دے کر ہر خطے کی بات کی ہے اور اس بات کی آگہی دلائی ہے کہ ہمارے ماحول کو بہتر بنانے میں درختوں کا کردار کتنا اہم ہے۔
پس یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی کے سکیچز میں ایک نئی دنیا آباد ہے۔ فاروقی جب land scaping کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ بات کبھی فراموش نہیں کرتے کہ درخت اس کا بنیادی جزو ہیں۔ وہ دائیں ہاتھ سے پینٹنگ اور ڈرائینگ کرتے ہیں۔ ان کی پینٹنگز کی ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا برش استعمال نہیں کرتے، بَل کہ، قدرت نے ان کی انگلیوں اور انگلیوں کے پوروں میں کمال فن عطا کیا ہے کہ ان کے استعمال سے تخلیق پانے والے فن پارے برش سے بننے والے فن پاروں سے کہیں نفیس اور منفرد ہیں۔
شفیق فاروقی کی درویش گاہ جائیے تو ان کے ساتھ ان کی صاحب زادی بھی اسی انمول فن میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک نفیس، ملن سار اور فنِ مصوری کی دل دادہ اور اس فن کی گہرائی کو سمجھنے والی فن کارہ ہیں۔
میں ذاتی طور پر ان دونوں سے مل کر بے حد متاثر ہوا اور جب فاروقی صاحب نے مجھے درخت درویش پر چند جملے لکھنے کی فرمائش کی تو میرے پاس انکار کی گنجائش نہ تھی۔ میں نے ایک مصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس فرمائش کو بَہ سر و چشم قبول کر لیا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شفیق ایک ایسے مصور ہیں کہ جن کے دل و دماغ سے نکلنے والی ہر آہ اثر رکھتی ہے۔ درخت درویش کے صفحات پلٹتے جائیے، اور ہر صفحے پر ایک نئی داستان سے واقفیت حاصل کرتے جائیے۔
قبل ازیں فاروقی مولانا روم کے افکار پینٹ کر چکے ہیں اور مستقبل میں ان کی تین کتابیں بَہ عُنوان اللہ جلَّ جلالہ، رسولﷺ اور اقبالؒ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منشۂِ شہود پر آنے والی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں ان کے اس مشن میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
آخر میں مَیں جناب محمد شفیق فاروقی صاحب کو ان کی اس نئی کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ جس کے توسط سے انہوں نے درختوں کی اہمیت، افادیت اور ان کی حفاظت کی مہم سے ہمیں آگہی دلائی ہے۔ واقعی درخت درویش آنے والے زمانوں میں ایک نا یاب فن پارہ گردانی جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ درخت درویش کے بعد ان کی اسی موضوع پر اور کتابیں بھی منظرِ عام پر آئیں گی۔