ٹرمپ کی دھمکیاں اور پاکستان کے مفاد میں کیا ہے؟
اسد علی طور
امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہے پالیسی ساز حلقوں کی طرف سے اُس کا ردعمل پریشان کُن حد تک مضحکہ خیز ہے۔ وہی روایتی گردان ہے کہ ہماری قربانیوں کی قدر نہیں کی گئی، ہم نے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز فوجی آپریشن کیے، افغان طالبان ہماری سرزمین پر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ منترہ ہے جو سترہ سالہ افغان جنگ اور کم از کم ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکی انتظامیہ کے سامنے بکنے والا نہیں۔ بلکہ شاید پورے مغرب میں بکنے والا نہیں۔ اِس کی ایک جھلکی ہم کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کے لیے مغربی دارلحکومتوں میں پارلیمانی وفود بھیج کر دیکھ چُکے ہیں جہاں سے واپسی پر عالمی رہنماؤں کے سوالات سے زِچ پارلیمنٹیرینز بھی چیخ اُٹھے تھے کہ بھائی یہ حافظ سعید کونسی مُرغی ہے جو سونے کے انڈے دے رہی ہے اور ہم نے غیر ریاستی عسکریت پسندوں کو کیوں پناہ دے رکھی ہے؟ ریاستِ پاکستان کو اپنے ہم وطنوں کو اب ستر سالوں بعد گمراہ کرنے سے بعض آجانا چاہیے۔
برائے مہربانی قوم کو یہ مت بتائیے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ہیں اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ چین اور روس پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چین اور روس کی مدد اقوامِ متحدہ کی اسکیورٹی کونسل میں پاکستان پر پابندیوں کی کسی بھی کوشش کی صورت میں تو مددگار ہوسکتی ہے لیکن اگر امریکہ اور اِس کے حلیف یورپ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا پاکستانی مصنوعات کی درآمدات (اِمپورٹس) پر پابندی لگا کر اپنی بزنس کمیونٹی کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے روک دیتے ہیں تو ایسے میں روس اور چین کا ویٹو عملی طور پر غیر موثر ہوجائے گا۔ ایسی صورتحال میں ہم ایسے مالی دباؤ کا شکار ہوں گے جس سے نبر آزما ہونے کے وسائل نہ تو پاکستانی ریاست کے پاس موجود ہیں اور نہ ہی ہماری کمزور معیشت کو لگانے کے لیے روس و چین کے پاس ایسا کوئی انجیکشن ہوگا کہ ہم ایسی پابندیوں کے سامنے مزاحمت کرسکیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہمارا تجارتی خسارہ بڑھا ہے ہم اڑتالیس ارب ڈالر کی (امپورٹس) درآمدات کرکے صرف اٹھارہ ارب ڈالر کی برآمدات (ایکسپورٹس) کررہے ہیں یعنی تیس ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ۔ ان برآمدات (ایکسپورٹس) میں ہماری مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ سمیت اس کے مغربی حلیف ممالک ہیں نہ کے روس و چین۔ عام آدمی نہیں تو کم از کم فیصلہ ساز حلقے بخوبی جانتے ہیں اگر مغربی ممالک نے اپنی منڈیوں کے دروازے خدانخواستہ پاکستانی مصنوعات پر بند کردئیے تو روس اور چین نے ہمیں ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی (اور نہ ہی اس کی اُمید بھی رکھنی چاہیے) کہ وہ یہ سارا خام مال کپڑا، آلاتِ جراحی، کھیلوں کا سامان، گندم، چاول، گوشت اور پھل و سبزیاں اُسی تعداد یا مقدار میں اُتنی ہی قیمت پر خریدنا شروع کردیں گے تاکہ ہماری معیشت کسی بحران کا شکار نہ ہو اور پاکستان کو اپنی ریاستی پالیسیوں (جن کا براہِ راست روس و چین کو کوئی فائدہ نہیں) کے سبب پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔
اپنی اِس دلیل کی وضاحت کے لیے قوم کی خدمت میں اعداد و شمار کے ساتھ کُچھ حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔ دیکھتے ہیں ہماری ریاست جن ایشیائی و مسلم ممالک کو دوست بتا کر قوم کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور جن مغربی ممالک کو پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والا دِکھا کر قوم کا بلڈ پریشر ہائی کرتی ہے اُن کے ساتھ تجارت کا توازن ہمارے حق میں ہے یا ہمارے مبینہ حلیف و حریف ممالک کے حق میں۔ امریکہ سے پاکستان کا تجارتی حجم ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا ہے جس میں پاکستان تین اعشاریہ چار ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ کو فروخت ہے اور بدلے میں دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی مصنوعات خریدتا ہے جس کے لحاظ سے امریکہ کا پاکستان سے تجارتی خسارہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر ہے جو تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں بتاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان یورپی یونین سے دس ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے جو کہ پاکستان کی کل برآمدات (ایکسپورٹس) کا اکیس فیصد سے زائد جبکہ یورپی ممالک سے اپنی کل درآمدات (امپورٹس) کا صرف سولہ فیصد منگواتا ہے یعنی یہاں بھی یورپی یونین خسارے میں اور پاکستان منافع میں ہے یاد رہے یورپی یونین نے پاکستان کو مصنوعات یورپی منڈیوں میں فروخت کرنے کے لیے خصوصی ٹیکس چھوٹ بھی دے رکھی ہے۔
اب ذرا اپنے دوست ممالک کی ساتھ تجارتی توازن ملاحظہ ہو جن پر ہم تکیہ کرنے کا ارادہ کررہے ہیں۔ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرے دوست چین کو ہم صرف ایک ارب انہتر کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد (ایکسپورٹ) کرکے بدلے میں بارہ اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا مال خرید رہے ہیں یعنی کے عددی اعتبار سے تیرہ اعشاریہ ستتر ارب ڈالر حجم کی تجارت کو یکطرفہ طور پر چین کے حق میں ہی سمجھئیے۔ روس جس سے ممکنہ قربت کا کارڈ ہم پاکستان بننے کے بعد دوسری دفعہ کھیل رہے ہیں (پہلی بار یہ “بلف” لیاقت علی خان نے امریکی دورہ کی دعوت کے حصول کے لیے کھیلا تھا) سے ہمارے تجارتی تعلقات بھی ملاحظہ ہوں۔ روس سے پاکستان کی تجارت ابھی تک اربوں ڈالر تو چھوڑئیے چالیس کروڑ ڈالر پر بھی نہیں پہنچ سکی۔ ہم روس کو اٹھارہ کروڑ ڈالر سے زائد کی برآمدات (ایکسپورٹس) کرکے بیس کروڑ ڈالر سے زائد کی درآمدات (امپورٹس) پاکستان میں کررہے ہیں یعنی انتہائی معمولی سے تجارتی تعلقات میں بھی پاکستان دو کروڑ ڈالر کا خسارہ اٹھا رہا ہے اور تجارتی توازن روس ہی کے حق میں ہے۔
مسلم امہ کی طرف ویسے دیکھنے کی ضرورت نہیں الحمداللہ سب سے زیادہ پاکستانی افرادی قوت فی الحال سعودی عرب سے ہی نکالی جارہی ہے اور پاکستان کی افرادی قوت کی نئی بھرتیوں میں بھی پریشان کُن حد تک ستر فیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ پچھلے مالی سال میں چار لاکھ باسٹھ ہزار پاکستانیوں کو سعودی عرب میں روزگار ملا جبکہ اِس مالی سال میں یہ تعداد بے انتہا گھٹ کر صرف ستتر ہزار رہ گئی۔ اسی لیے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں آٹھ اعشاریہ تین فیصد کی کمی بھی ہوئی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات سے بھجوائی جانے والی رقوم میں بھی ایک اعشاریہ چھ فیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ مجموعی طور پر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے جانے والی رقوم میں تین اعشاریہ ایک فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اب ذرا ان مسلم ممالک سے تجارت کا حال بھی ملاحظہ ہو۔ پاکستان کا برادر اسلامی ملک سعودی عرب جس سے اسٹریٹجک معاہدہ کی وجہ سے ہم اُس کے دفاع کے بھی ذمہٰ دار ہیں کو پاکستان صرف پچاس کروڑ ڈالر کی اشیا فروخت کرکے دو ارب ڈالر کی درآمدات (امپورٹس) پاکستان کے لیے کرتا ہے۔ یعنی کل دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی تجارت میں ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا خسارہ پاکستان کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے پاکستان کا تجارتی حجم نو ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان صرف ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کی مصنوعات یو اے ای کی منڈیوں میں بیچ پاتا ہے اور وہاں سے سات اعشاریہ تین ارب ڈالر کی مصنوعات پاکستان میں درآمد (امپورٹ) کرتا ہے مطلب تجارتی توازن بھاری فرق سے متحدہ عرب امارت کے حق میں ہی ہے۔
یہ اعدادو شمار دوست دشمن کا فرق نہ بھی بتاتے ہوں تو ہمارے مفادات کِن ممالک سے جڑے ہیں ضرور ظاہر کرتے ہیں۔ عقلمند حکومتیں کبھی ایسی پالیسی نہیں بناتی کہ اگر مغربی ممالک سے پابندیاں لگ بھی جائیں تو ہم سی پیک سے وہ خسارہ پورا کر لیں گے۔۔ جناب آپ خسارہ ابھی بھی مغربی ممالک سے تجارت اور پاکستانی افرادی قوت کو بیرونِ ملک کھپا کر پورا کریں جبکہ سی پیک کو وہ منصوبہ بنائیں جو آپ کے پہلے سے موجود ذرائع آمدن میں ایک اور “لائف لائن یا سورس” بن سکے تاکہ ملکی خزانے میں آمدن کے ذرائع بڑھیں اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرتے ہوئے ملک ترقی کرے۔ جو اضافی آمدن ہوگی اُس کا رخ ملک میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی طرف موڑ کر عام شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر کریں۔
یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم ایک مختلف دنیا میں جی رہے ہیں جہاں عام پاکستانیوں کی ضروریاتِ زندگی و ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اب زیادہ عرصہ ہم اپنی قوم کو صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر “وطن کی خاطر گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے” کے ٹوٹکوں پر زندہ نہیں رکھ سکتے۔ ریاستی اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مالی و کاروباری مفادات کی خاطر کب تک عام شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھ سکتے ہیں جن کی ضمانت آئینِ پاکستان دیتا ہے۔ پچھلے پندرہ برس میں پاکستان بہت بدلا چکا ہے۔ آپ ایک کم تر معیار کے حجام کی دکان میں بھی جائیں تو وہاں بھی آپ کو دکان میں اے سی لگا نظر آتا ہے، چوراہوں پر کھڑے فقیر سے لے کر گھروں کے باہر بیٹھے اسکیورٹی گارڈ تک موبائل فون استعمال کرتے نظر آتے ہیں جس کا سن سو ہزار تک ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سماج وقت کے ساتھ ساتھ ایسی زندگی کا عادی ہوتا جا رہا ہے جو سہل پسند ہے۔ کیا ہم ان سے محروم ہونا “افورڈ” کرسکتے ہیں؟ انسانی جبلت ہے وہ اپنے معیارِ زندگی میں بہتری کی خواہش لیے تگ و دو تو کرسکتا ہے لیکن جو کُچھ دسترس میں ہو کھونے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ٹیکنالوجی کی جدت اور سوشل میڈیا سمیت انٹرنیٹ پر موجود غیر روائیتی ذرائع ابلاغ نے ہمیں مغرب کی اپنے شہریوں کو دی گئی بہترین سہولتوں سے روشناس کروا دیا ہے جس نے ہمارے دلوں میں بھی ویسے معیارِ زندگی کی خواہش پیدا کر دی ہے اور اب ہم اپنی ریاست کی طرف ایسے مواقع پیدا کرنے کے لیے دیکھ رہے ہیں جو ہمیں مغرب کے ہم پلہ معیارِ زندگی دینے میں مددگار ہو۔
ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور چھوڑئیے مغرب کو ہمیں اپنی خاطر ہی اِن عسکری گروہوں سے جان چھڑوا لینی چاہیے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو صرف تعلیم کے زیور سے روشناس کروا کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اتارنا ہوگا اور اُن کے لیے ایسے مواقع بھی پیدا کرنے ہوں گے کہ وہ پاکستان اور بیرونِ ملک اس میدان میں اپنا لوہا منوا کر پاکستان کا مثبت چہرہ بن سکیں۔ یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب عالمی برادری میں قابلِ بھروسہ تشخص رکھتے ہوں گے اور ایک عام کاروباری شخص بھی جانتا ہے ساکھ کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ شعبہِ طب اور آئی ٹی میں دنیا بھر میں آج سب سے زیادہ ماہرین کا تعلق بھارت سے ہے جبکہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم دنیا کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بین الاقوامی برادری میں کوئی تعمیری کردار بھی ہے؟ آئیے اپنے شہریوں کی فلاح کی خاطر اس سب جھنجٹ سے جان چُھڑوا لیں۔ رکھنی ہے فوج تو ضرور رکھیں فوری درپیش اسکیورٹی چیلنجز کے لیے ایک مضبوط فوج ہماری ضرورت ہے لیکن اب معاشی ترقی کے میدان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ریاستی اداروں کو اب اس خُمار سے نکلنا ہوگا کہ اگر ہم اپنے گھر کے بچھلے حصے میں سانپ پالیں گے تو وہ صرف ہمارے ہمسایوں کو ہی کاٹیں گے۔ یہ سانپ ہمیں بھی ڈس رہے ہیں اور ستر ہزار ہم وطن شہید کروا کر اب ہمیں ہوش آجانا چاہئے۔ ہم اسی کی دہائی سے افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیبتھ (تزویراتی گہرائی) کی پالیسی پر انحصار کرتے رہے ہیں جس کو ہم عملی جامہ پہنا سکے یا نہ پہنا سکے افغان طالبان پاکستان کے اندر اسٹریٹجک ڈیبتھ (تزویراتی گہرائی) دیکھتے ہوئے ہمارے بڑے بڑے شہروں میں آباد ہوچکے ہیں۔ کبھی ملا عمر کے کراچی میں مرنے، ملا اختر منصور کے کوئٹہ میں مرنے، اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں مرنے اور موجودہ طالبان امیر ملا ہیب اللہ اخونزادہ کے کوئٹہ کی مصافات میں کُچلاک کے مدرسہ میں معلم رہنے کی خبروں کے بعد کوئی ہمارا یقین نہیں کرے گا کہ ہماری سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہورہی۔ خدارا بیرونی دنیا تو چھوڑئیے خود فریبی کا شکار رہ کر اپنے شہریوں سے تو دھوکہ مت کیجئے۔