ٹرمپ اور مولا جٹ
از، معصوم رضوی
بالاخر امریکہ نے پاکستان کو نئے سال کا تحفہ دے دیا، ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹ آتے ہی بھونچال سا آ گیا مگر کیا یہ سب غیر متوقع تھا؟ اس سے پہلے امریکہ افغانستان پالیسی کا واضح اعلان کر چکا تھا۔ ڈبل گیم کے الزامات، ڈو مور کا مطالبہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نوٹس، تو حضور نئے سال کا چیلنج تو روز روشن کی طرح پوری قوم پر واضح تھا اگر قیادت نا واقف رہی ہو تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے اس طوفان سے نمٹنے کی کچھ تیاری کی؟ کیا حکومت سفارتی محاذ پر سرگرم ہوئی؟ کیا سیاسی رہنماؤں نے بیانات کے علاوہ کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا؟ کیا کوئی قومی بیانیہ، کوئی حکمت عملی، کوئی پالیسی سامنے آئی؟ افسوس ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم بونوں کے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔
افغان پالیسی میں خطے میں بھارت کی ترجیح اور پاکستان کو سبق سکھانے کے معاملات بالکل واضح تھے، ابتدا میں ٹرمپ انتظامیہ مطالبات کو دھراتی رہی اور رفتہ رفتہ لہجہ سخت ہوتا گیا پھر نوبت یہاں تک جا پہنچی مگر ہم نے سوچ رکھا ہے کہ ہر مسئلے کا سامنا بڑھکوں اور جگتوں سے کرنا ہے۔ وزیر اعظم، وزیر خارجہ سمیت پوری کابینہ امریکی فیصلے کے خلاف سینہ سپر ہو کر بڑھکیں مار رہی ہے۔ سیاسی رہنما ہر پریس کانفرنس، جلسے اور میڈیا ٹاک میں لازمی طور ٹرمپ کو للکارتے ہیں۔ میڈیا ٹرمپ کی حماقتوں پر جگتیں لگانا نہیں بھولتا، طرح طرح کی مضحکہ خیز فوٹیج بار بار پلے کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر امریکہ اور ٹرمپ کے بارے میں مضحکہ خیز کوسنوں کی بھرمار ہے، لگتا ہے کہ ٹرمپ حکومت اب گئی کہ جب گئی۔ آپ کو یہ باتیں بری لگ رہی ہونگی، قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے خلاف، مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ میں آپ سے زیادہ بونا بلکہ بونگا ہوں مگر کیا کروں یہ کمبخت سوالات میرے ذھن میں خودبخود اگ آتے ہیں کسی خودرو پودے کی طرح، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما، سماجی و ثقافتی عمائدین، سبزے سرخے دانشور، ہمارے ادارے سب ہماری طرح بونے ہیں مگر یہ قومی راز ہم ایک دوسرے سے چھپا کر دیوقامتی کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔
بات جانے کہاں نکل گئی، یکم جنوری کو ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد سے صورتحال ملاحظہ فرمائیں، نواز شریف، عمران کو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا قرار دیکر اداروں کو دھمکا رہے ہیں، عمران خان نواز شریف کو دیرینہ لاڈلا بتا کر صداقت و امانت کا پرچم بلند رکھے ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب دونوں کو شرم دلاتے ہوئے خود بھی شرما رہے ہیں، طاہر القادری قصاص تحریک کی تیاری کر رہے ہیں تو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے استعفے کا طبل جنگ بجایا جا رہا ہے۔ کیا کہیں سے لگتا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور آپ کے خلاف صف آرا ہونے جا رہی ہے۔ معاملہ صرف امداد اور تقاضوں کا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتا ہے، میرے منہ میں خاک مگر شاید پورا خطہ اتھل پتھل ہونے جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا آپ ضرور مذاق اڑائیں مگر یہ حقیقت نہ بھولیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کسی طور چین کی بڑھتی قوت اور ون لنک ون روڈ کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پوری منٖصوبہ بندی سے پاکستان اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکہ اس سوچے سمجھے منصوبے کی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عرب ممالک گرتی معشیت کے ساتھ سعودی عرب کی قیادت میں ایران کے خلاف کمربستہ، ایران اندرونی محاذ آرائی کا شکار، بھارت کو خطے میں آگے بڑھاتا امریکہ افغانستان میں خود موجود، اس حکمت عملی کے تحت چین کو براہ راست چھیڑے بغیر امریکہ اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مطالبات اور الزامات پرانے ہیں اور وضاحتیں بھی، وہی ڈو مور اور نو مور، ڈبل گیم اور بیوفائی، حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید، دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں وغیرہ وغیرہ، فرق یہ ہے کہ بھارت ہر عالمی فورم پر جماعت الدعوہ، جیش محمد اور کشمیر میں متحرک دیگر تنظیموں کے خلاف مسلسل سفارتی جنگ لڑ رہا ہے، افغانستان حکومت جس کا عمل دخل صرف کابل تک محدود ہے حقانی نیٹ ورک کا معاملہ دنیا کے سامنے لاتی رہی مگر ہماری وزارت خارجہ سوتی رہی۔ شاید میں غلط کہہ گیا حقیقت تو یہ ہے کہ خارجہ محاذ تو جانے کب کا خالی پڑا ہے۔ مشرف دور میں خورشید قصوری، زرداری کے دور میں شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر کام چلانے کی حد تک تو ٹھیک تھے کوئی قابل قدر سفارتکار نہ تھے۔ اس کے بعد نواز شریف کا دور آتا ہے تو موصوف کو وزیر خارجہ کے منصب کے لیے اپنی ذات کے سوا پوری جماعت میں کوئی نظر ہی نہیں آیا اور وزارت خارجہ جیسا اہم ادارہ یتیم خانے میں تبدیل ہو گیا، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی میں اختیارات کی جنگ، سیاست، اندرونی سازشیں، مناصب کی دوڑ، رہی سہی قابلیت کو بھی نگل گئی۔ عباسی حکومت میں بالاخر وزیر تو ملا مگر کیا خواجہ آصف دنیا کو قائل کرنے کے لیے بہتر انتخاب ہیں؟ سر ظفراللہ خان، منظور قادر، ذوالفقار علی بھٹو اور آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب کا تیار کردہ شاندار ادارہ اب کھنڈر بن چکا ہے۔ بھارت کی تو بات چھوڑیں کیا یہ باعث شرم نہیں کہ افغانستان تک سفارت کاری کے محاذ پر ہمیں شکست دے چکا ہے۔
تمام تر حماقتوں کے باوجود پاکستان کی پوزیشن اتنی بھی کمزور نہیں کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ ایران 25 سال امریکی عتاب جھیلنے کے باوجود آج بھی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ شمالی کوریا تو ہر آن امریکہ کو دھڑلے سے چیلنج کرتا رہتا ہے۔ کیوبا سے زیادہ امریکی مخالفت بھلا کس ملک نے کی ہو گی۔ میکسیکو ٹرمپ کے آنے کے باوجود امریکیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ شومئی قسمت اب پاکستان کے سارے انڈے امریکی جھولی میں نہیں، دفاعی حوالے سے بھی انحصار ماضی کے مقابلے میں خاصا کم ہے۔ پاکستان کو خطے کے ممالک سے اتحاد بڑھانے کی اشد ضرور ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ خطے کے ممالک سے قریبی تعلقات میں اب بھی کوئی خاص پیشرفت نہ ہو سکی، کوشش کے باوجود روس سے معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔ عرب فوجی اتحاد پر اگرچہ پاکستان کا موقف غیرجانبدار رہا مگر پھر بھی ایران سے تعلقات میں پہلی جیسی گرمجوشی پیدا نہ ہو سکی، اس کی سیاسی وجوہات بھی عیاں ہیں۔ جغرافیائی نوعیت کے اعتبار سے امریکہ کو بہرحال کسی نہ کسی طور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ضرورت ناگزیر ہے۔ پاکستان کو 33 ارب ڈالر دینے والا امریکہ افغانستان میں 700 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ آج بھی افغانستان کا 46 فیصد حصہ حکومتی عملداری سے باہر ہے۔
یہ جنگ ہماری تھی یا نہیں، اب بہرحال صرف ہماری ہے، ہمارے بقا اور سلامتی کی، کمزور لمحات میں کیے جانیوالے مضبوط فیصلے قوموں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر معاملے کا حل بڑھک اور جگت سے نکالنا ہے۔ بڑھکیں بھی ایسی شاندار کے سلطان راہی کی فلم مولا جٹ یاد آ جاتی ہے، وہ کیا مشہور ڈائیلاگ تھا سلطان راہی مرحوم کا مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا، بس فرق یہ ہے کہ مولا جٹ کے پاس گنڈاسا ہوتا تھا مگر ہمارے قائدین خالی ہاتھ ہی بڑھکیں مار رہے ہیں-