سچ اور جھوٹ کے درمیاں
از، معصوم رضوی
ہماری غیر جانبداری لازوال ہے کیونکہ سچ اور جھوٹ کے عین نکتہ وسط میں پائے جاتے ہیں۔ انگریزی میں اسے گرے ایریا کہا جاتا ہے، تو بس یوں جانیں ہم اس گرے ایریا کے قابل فخر باسی ہیں۔ ستر سالوں سے کولہو کے بیل کی طرح ایک ڈگر پر گھومتے نت نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ جھوٹے وعدوں، کھوکھلے نعروں، سہانے سپنوں اور کڑوی تعبیروں کے باوجود آج بھی ہمارا سچ دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار ازلی غفلت میں ڈوبے معاشرے کو وحشی ہوائوں کے سرکش بگولے آسیبی نیند میں چونکا دیتے ہیں مگر جلد ہی خوابیدہ آسیب پھر ہمیں اپنی آغوش میں لیتا ہے۔
حکومت، ادارے، میڈیا خودساختہ گرد و غبار کا طوفان اٹھانے کے ماہر اور بیس کروڑ عوام بیوقوف بننے کے دلدادہ، ایسے میں اگر کوئی حقیقت کا آئینہ دکھانا چاہے تو سب ملکر اسے احمق اور نکو بنا ڈالتے ہیں۔ ابہام گوئی کے بے دریغ استعمال نے نہ صرف سچ اور جھوٹ کے فرق کو ختم کر ڈالا بلکہ جھوٹ کو دھڑلے کیساتھ مقدس جامہ پہنا دیا گیا کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی والی کیفیت طاری ہے۔ اگر آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے تو یہ آپکا حق ہے، مگر صورتحال کا سرسری ہی سہی، جائزہ لینے میں کیا حرج ہے۔ یقین جانیں، ارباب اقتدار نے بڑے غوروخوص کے بعد ابہام کی پالیسی وضع کی ہے۔ آپ سوچتے ہونگے اسکا کیا فائدہ، تو جناب من فائدے ہی فائدے ہیں۔ ذرا سوچیئے آپ کے گھر پانی نہیں آتا تو ٹینکر منگاتے ہیں، منرل واٹر خریدتے ہیں، بجلی نہیں آتی تو یو پی ایس، جنریٹر کیلئے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ سرکار تعلیم کا انتظام کرنے سے قاصر ہے تو پرائیوٹ اسکول، کالجز کی بھاری بھرکم فیسیں، نخرے اٹھاتے ہیں، علاج معالجے کی سہولیات ناپید ہوں تو نجی اسپتالوں کے ہوشربا اخراجات اور نکما پن برداشت کرتے ہیں۔ اگر سڑکوں پر چور، لٹیروں کا راج ہو اور گھر میں ڈاکے کا دھڑکہ تو پیسے ادا کر کے سیکورٹی گارڈز رکھتے ہیں۔ اب ذرا ایک لمحے کو سوچیئے اگر آپ گھر کے سربراہ کے طور پر یہ اعلان کریں کہ یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے تو آپ کیساتھ کیا سلوک ہوگا؟ بیوی، بچے کیا کہیں گے، رشتہ داروں کے جان لیوا حملے، سماج میں ذلت تضحیک زندگی اجیرن بن جائیگی، چونکہ یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے لہذا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے۔ مگر کیا ہمارے ساتھ یہی سب کچھ نہیں ہو رہا، حکومت جمہوری ہو یا فوجی، کیا کسی نے ذمہ داریاں پوری کیں؟ اعلیٰ قیادت مسلسل ناکامی و نااہلی کے باوجود بے قصور رہے تو جناب من کیا یہ جادو نہیں؟ اگر عوام مسلسل نااہلی کے بعد بھی انہیں کو مسیحا جانیں، تو کیا یہ ابہام کی معراج نہیں؟
خیر آگے بڑھیئے، یہ کوئی قومی راز نہیں کہ پاکستان میں فوج اور سیاستدانوں میں کبھی نہیں بنی، مگر دونوں ہمیشہ ایک پیج پر پائے جاتے ہیں۔ طالبان پہلے بہت اچھے ہوتے تھے، شریف النفس، پاکباز، نیک اور باکردار بالکل نسیم حجازی کے ہیرو کیطرح، پھر اچانک عسکریت پسند ہوئے، پھر جنگجو اور اب دہشتگرد، مگر ٹہریئے ابھی ابہام کا چلہ پورا نہیں ہوا، گڈ اور بیڈ طالبان بھی ہوتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ تیس فیصد طالبان کے ہمدرد، تیس فیصد مخالف اور تیس فیصد گڈ اور بیڈ میں فرق ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، باقی دس فیصد خود طالبان بن چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ طالبان بنانا قومی سلامتی کا عین تقاضہ تھا اب انکو مٹانا بھی ملکی مفادات کی عین ضرورت ہے، بس اس دوران 70 ہزار بیگناہ جانوں کے بارے میں سوال پوچھنا حب الوطنی کے خلاف ہے۔ عدم اور وجود کی عالمانہ بحث تو جانے کب سے جاری ہے مگر ہم کالعدم کی بحث میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اے پی ایس حملے کے بعد ایسا لگا کہ تمام کالعدم تنظیمیں ختم، مگر یہ تنظیمیں آج بھی اسٹریٹیجک اثاثوں کی صورت میں موجود ہیں، مگر اس پر بات کرنا قومی سلامتی کے منافی ٹہرا۔ خیر ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ کمیونسٹ روسی کفار کے خلاف جہاد کیلئے عالم اسلام سے مجاہدین کا لشکر عظیم جوڑا گیا آج انہیں روسی کفار سے دوستی کا رشتہ جوڑنے کیلئے راستوں کی تلاش ہے۔ پوری قوم پوری یکجہتی کیساتھ امریکہ کو شیطان عظیم گردانتی ہے مگر امریکی امداد، ویزے اور مصنوعات کی دلدادہ ہے۔ بھارت کیساتھ دشمنی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں مگر کیا کیا جائے کہ شاہ رخ خان، کرینہ کیف، دیپکا پڈوکون، سنی لیون سب ہندوستانی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بھارت سرحدی خلاف ورزی کرے تو دشمن، افغانستان اور ایران کریں تو برادر اسلامی ممالک، سعودی فوجی اتحاد میں گلے گلے شامل مگر ایران سے تاریخی دوستی کے پرجوش دعویدار بھی ہیں۔ حضور بات یہ ہے کہ دنیا کیلئے سچ اور جھوٹ کی سرحدیں بڑی مختصر ہیں تو ہوا کرتی ہیں مگر ہماری وسیع اور عریض اس درمیان ساری فصل ہمارا اسٹریٹیجک اثاثہ ہے۔
ہنسیے گا نہیں مگر جانے کیوں مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تربوز کی طرح ہے، اوپر سے سبز اور اندر سے سرخ، کہیں کہیں چلمن سے جھانکتے سیاہ بیجوں کے جلوے رونق دکھاتے ہیں۔ منافقانہ عظمت کا یہ پہلو بھی نہایت دلچسپ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے بیشمار مصدقہ مفروضے موجود ہیں جنکا وجود بذات خود سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ بالادست ہے، فوج کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، انتظامیہ آئین و قانون کی پابند ہے، اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، جمہوریت کے خلاف سازش کرنیوالے سزا سے نہیں بچ سکتے، دہشتگردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ پاکستان جلد ایک فلاحی ریاست بن جائیگا، پولیو ڈراپس مغربی سازش ہے، ہماری ہر خامی و کجی یہود و ہنود کی سازش وغیرہ وغیرہ۔ حضور یہ دو رخی اور کھوکھلا پن ہماری زندگیوں کا ادھورا سچ ہے۔ قول و فعل کا تضاد اب برائی نہیں اسمارٹنس اور فیشن ہے۔ اسلامی ریاست، پورا معاشرہ کٹر مذھبی مگر سبیل پر پانی کے گلاس میں زنجیر اور مساجد میں چپلیں محفوظ نہیں، پوری قوم جمہوری چیمپئین مگر فوجی آمروں کی مداح، سیاسی رہنمائوں میں سو عیب مگر ووٹ پھر بھی انکا، 70 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد یہ بحث حتمی نتیجے پر نہ پہنچی کہ افغان جنگ ہماری تھی یا امریکہ بہادر کی، حضور تربوزیات کی ایک طویل تاریخ ہے، ہم اور آپ سب اس سے بخوبی واقف ہیں بلکہ چاہتے نہ چاہتے اسکا حصہ بھی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان رہنا کتنے ہی اعزاز کی بات کیوں نہ ہو مگر ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد بلکہ ہم سے ٹوٹ کر ملک بننے والے بھی آگے نکل گئے، مگر ہم اپنی خو نہ بدلیں گے کے مصداق اپنے ادھورے سچ پر اٹل کھڑے ہیں۔ چین کی تو بات چھوڑیں بہت بڑا ملک ہے، بھارت، سری لنکا، ملائشیا، انڈونیشیا اور اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے کہیں زیادہ معاشی استحکام کیساتھ آگے کھڑا ہے۔ ستر سال آمریت اور جمہوریت کی گود میں پلنے والی قوم ابہام کے مزے لوٹ رہی ہے۔
سیانے کہتے ہیں ادھورا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے، تو حضور سچ اور جھوٹ کے درمیان منافقانہ روش پر چہل قدمی کرنیوالی قومیں ادھوری کیوں نہ ہوں؟ ویسے آپس کی بات ہے یہ گرے ایریا بڑی پراسرار جگہ ہے جہاں ہر گام ابہام کی دبیز دھند تلے ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا، سو ہم، آپ اور پورا معاشرہ خوفناک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے سہانے سپنوں کی تعبیریں ٹٹول رہے ہیں۔