سچ کی تلاش جاری ہے

سچ کی تلاش

از، حیدر شیرازی

میں بور آدمی ہوں پتا نہیں کیسی باتیں کرتا ہوں ہر شخص مجھ سے نالاں ہے۔ میں لوگوں سے اکثر پوچھتاہوں کہ مجھے بھی تو بتاؤ یہاں مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے۔ کالم ایک لکھنا ہے اور خیالات کی بھرمار وہ بھی اس قدر مُنتشر خیالات کہ اگر انہیں یکجا کروں تو وقت درکار ہے اس لئے آج صرف اپنی قوم کے کردار و عمل کو دہرادوں کہ ہم صرف مذمت کرنے کے قابل ہیں ہم جد و جہد بھول گئے ہیں۔ ہمیں اچھے بُرے کا فرق معلوم نہیں ۔ہم وہ قوم ہیں جوآمریت کے خلاف نعرے لگا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور کام آمروں سے زیادہ خطرناک کرتے ہیں ۔ ہمارے مَرے ہوئے زندہ ہیں اور ہماری پوری زندہ قوم مُردہ ہے۔ ہمیں مستقبل کے جھوٹے سپنے دکھائے جاتے ہیں اور سپنے بھی اِیسے کہ ہمارے پاؤں دَلدل میں پھنسے ہیں اور چاند پر سیر کی باتیں۔ ہمیں یہودونصاری کو زِیر کرنے کی تقاریر سُننے کی عادت ہو گئی ہے بھلاجو قوم مریخ پر پانی تلاش کرنے کے عمل سے گذر رہی ہو اُس کا ایسی قوم مقابلہ کر سکتی ہے جس کی 60 فیصد آبادی صاف پانی کو ترس رہی ہو جِس کو بجلی کے لارے لپے دے کر ووٹ لیا جاتا ہو۔ جہاں مزدور کی ساری کمائی دو وقت پیٹ بھرنے پر خرچ ہو جائے۔یقین کی جئے ہمیں اپنی بیگمات کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہُ ان کو دوران حَمل کس کس شے کی ضرورت ہے اور ہم نکل کر اُن سے مقابلہ کی باتیں کرتے ہیں جو مصنوئی طریقوں سے بچوں کو پیدا کر نے کے مراحل طے کر چکے ہیں اور ہم وہیں اٹکے ہیں کہ بچہ پیدا کرنے کے لئے کون سا دِن کون سی ساعت بہتر ہے ۔ہم وہ ہیں جو اِبھی تک اِس سوال پر لڑتے ہیں کہ آیا عورت گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے یا نہیں ۔ ہمارے پاس ہے کیا فقط نامِ پیغمبرؐ اور اُن کے ساتھیوں کی قصے اورانہیں بھی مضبوطی سے نہیں تھاما۔

اِن کے علاوہ کیا رہ گیاہے ہمارے پاس ۔؟آج صبح ہی ایک صاحب کا اعلان سن رہا تھا یہود و نصارا کی ہر چیز حرام ۔۔جس کے بعدمیں نے اپنے ماحول کا جائزہ لگا یا پتا چلا کہ میرے ماحول میں میرے علاوہ ہر شے یہود و نصارا کی ہے اوریہ دیکھ کر مسلمان قوم کے لئے چہرے کے رینٹون سے دو قطرے گرے ۔۔تب یادآیا اقبال یوں ہی نہیں روتے رہے اور وہ بھی تو دیکھو نا کیاکہتے ہیں” شکوہ “میں وہ اللہ سے مخاطب ہیں اور بڑے فخریہ اندازمیں کہتے ہیں
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انسان کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قران کو سینے سے لگایا ہم نے
یہ سب بڑے کمال اور فخر سے کہتے ہیں اور اگلے ہی لمحے خود کی جنجھوڑ کر کہتے ہیں “جواب شکوہ “میں
وہ تو آباء تھے تمھارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دہرے منتظر فردا ہو!
ہماری پاکستانی قوم نے کیا کوئی کمال کیا ۔؟ہاں ایک کمال کرتے ہیں کہ ہم کمال کی عزت نہیں کرتے ۔۔۔ جانتے ہو وہ کمال کون ہیں وہ ہیں تو گنے چُنے جو تم میں سے بہتر اور دنیا میں تمھیں مقابلے کے قابل بنانے والے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں وہ ڈاکٹر عبدالسلام،ڈاکٹرادیب رضوی جیسے لوگ ہیں لیکن افسوس تم نے اُن کے ساتھ کیا کیا۔کرپشن، جھوٹ فریب دغابازی تم میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے اور اوپر سے تم عَرب و عجم کی حکمرانی کے خواب بھی دیکھتے ہوارے بھائی اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہے ہم میں ہر شخص اتنی کرپشن کر رہا ہے جتنا اس کا جبڑہ کھا سکتا ہے جتنے اسکے ہاتھ سمیٹ سکتے ہیں۔اپنی گلی کوچوں میں دیکھو، روڈ کنارے ریڑھی والوں کو دیکھو ایک چھوٹاسا قبضہ مافیا بنے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ کریشن نہیں کہ روڈ پر قبضہ کر کے کمائی کی جائے اور کیا یہ رزق حلال ہے ۔ یہی نہیں روڈ کنارے جو مزدور صبح کے وقت بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی قبضہ مافیا ہیں راہگیروں کیلئے بنائے راستے پر قابض ہیں ۔میڈیا کو دیکھو یہاں ریٹنگ کے چکر میں کیا نہیں کیا جاتا۔ یہاں قانون کو کیا نام دوں 1957 اور1961 کے کیس پر فیصلہ 2016 میں ہوتا ہے اوراگر کوئی بڑا نام ہے اور اُسے پیمرا کانوٹس ملے تو یہی عدالت اُسے چند سانسوں میں فیصلہ دے دیتی ہے ۔ یہاں پیدا ہونے پر ماؤں کی زندگیاں خطرے میں اور مرنے سے پہلے قبریں تیار کر دی جاتی ہیں جاؤ ایدھی قبرستان اور کراچی کے دیگر قبرستان دیکھ لو۔یہاں علم پر طبقاتی نظام کی اجارہ داری ہے یہاں زندہ تو زندہ ہیں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے ۔ یہاں اپنے فائدے کیلئے اللہ اور رسولؐ کا نام بیچا جاتا ہے یہ تو عام سی باتیں ہیں ۔پاکستان میں گنے چنے چند نام جنہیں دنیا عزت سے جانتی ہے انہیں بھی سیاست کی نظر کیا گیا اَب ایدھی صاحب کو ہی دیکھ لیں اگر ایدھی صاحب گوروں کے دیس میں ہوتے تو کم ازکم اُن کی وفات پر ایسے جہالت پر مبنی جملے سُننے کو نہ ملتے کہ اَرے بھائی وہ تو قادیانی ہیں وہ تو ایجنٹ ہیں ان کے لئے دعا ہی جائز نہیں افسوس ہوتا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں ہم اس قدر ظالم قوم ہیں کہ ہم اپنے ہیرو کو بھی نہیں پہچانتے۔

ہاں ہم مذمت کرنے والے ہیں یا بین کرنے والے یا جنازوں کو ہائی جیک کرنے والے ہیں ۔ آؤ ایک بات بتاؤں ہے ذرا تکلیف دہ لیکن بخدا سچ ہے وہ کچھ یوں کہ کھیل کی دنیا کے دو عظیم کھلاڑی ایک گوروں (یہود و نصارا) کے دیس میں اورایک اسلام کے قلعے کا رہائشی۔ ایک کا نام محمد علی اور ایک کا نام جہانگیر خان دونوں کھیل کے شعبے کے عظیم ترین کھلاڑی۔

ایک انگریزوں کے دیس میں جس کی انگریز نے اتنی پذیرائی کی کہُ اس کی  زندگی کے متعلق بے شمار فلمیں بنائی جن میں Ali,The greatest ,Ali the fighterاور بے شمار فلمیں اور ڈاکومینٹری شامل ہیں اس کے ساتھ اگر میں انعام واکرام کا تذکرہ کروں تو ایک آدھ موٹی کتاب بن ہی جائے جو نوازشات اُس عظیم کے لئے یہود ونصارا نے کی. اب میں اپنے عظیم کھلاڑی جو ابھی حیات ہیں اُن کا تذکرہ کروں بس ایک ٹھنڈی سانس بھر رہا ہوں باقی آپ سمجھ گئے ہوں گے

میں جہانگیر خان سے معافی کا طالب ہوں کہ ہم آپ جیسے عظیم لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور شاہد ہم وہ قوم ہیں جو کسی کی موت کے بعد ہی اُس کی کارکردگی کو سُراہتے ہیں اور ہاں ہم کارکردگی کو سراہتے نہیں بلکہ اِس قدر پستی میں چلے گئے ہیں کہ ہم موت کو بھی کیش کرواتے ہیں ۔ اور اگر ضرورت پڑے تو جنازے بھی ہائی جیک کرتے ہیں ایدھی صاحب کی روح سے معذرت کے ساتھ کہ غریبوں کا مسیحا ،غریبوں کے درمیاں رہنے والا، مسکنت پر خوش رہنے والا اور سب سے بڑھ کر پروٹوکول کا سب سے بڑا مخالف جب دنیا سے گیا تو اُسے غریبوں سے دور کر دیا گیا تاریخ لکھے گی کہ کیسے اشرافیہ نے ایک غریب دوست شخص کے جنازے کو اپنے فوٹو سیشن کے لئے اُس کے دوستوں اور چاہنے والوں سے دور کر دیا ۔۔