احسان اللہ احسان ، یہ صبح کے بُھولے شاعر نہیں
(مظفر نقوی)
2007ء میں تحریکِ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں طالبان کے 13 چھوٹے بڑے گروپس نے بیت اللہ محسود کو اپنا امیر مقرر کیا اور اگست 2009ء میں بیت اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود کوتحریکِ طالبان پاکستان کاامیر مقرر کیاگیا اوراس کی ہلاکت کے بعد قیادت کا قرعہ فال ملا فضل اللہ کے پاس آیا۔ تحریکِ طالبان ملافضل اللہ کی قیادت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور 2014ء میں مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور اُس سے تین مختلف جماعتوں نےجنم لیا، جن میں احرارالہند، جنوبی وزیرستان گروپ۔۔اور جماعت احرا رہیں۔
احرالہند بعد میں جماعت الاحرا رمیں ضم ہوگئیں۔خالد خراسانی کو اس کا امیر مقرر کیا گیا اور احسان اللہ احسان اس کا ترجمان مقرر کیاگیا جو کہ نوسال سے زائد عرصے سے تحریکِ طالبان سے وابستہ رہا اور ہر قتل واردات اورجملوں کے بعد اپنا مؤقف سوشل یہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے بیان کرتا اورمختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کرتارہا۔ جس میں پشاور ایئرپورٹ پہ حملہ، گلگت میں غیرملکیوں کاقتل، واہگہ بارڈر پہ خود کش حملہ پنجاب کے وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ پہ حملہ، اقبال پارک خود کش حملہ، ملالہ پہ جان لیوا حملہ یہ مارچ کے مہینے میں پارہ چنار میں ہونے والا خودکش دھماکہ ان سب کی ذمہ داری قبول کرتارہا اور بالآخر اس کو پاک فوج کے آگے سرنگوں ہوکر اپنی گرفتاری پیش کرناپڑی۔
جس میں اس نے اقرار کیا کہ اس نے زمانہ طالب علمی میں تحریکِ طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور مہمند ایجنسی کے ترجمان کے بعد ٹی ٹی پی کامرکزی ترجمان بن گیا۔ ٹی ٹی پی میں ایک مخصوص ٹولہ بےگناہ مسلمانوں سے تھا وصول کرتا، عوامی مقامات، سکولوں ، کالجوں میں دھماکے کرتا تھا اور اپنے اعترافی بیان میں احسان اللہ احسان نے طالبان قیادت کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا پول بھی کھول دیاکہ قرعہ اندازی کے ذریعے ملا فضل اللہ جماعت کا امیرمقرر ہوا۔ جس نے اپنے استاد صوفی محمد کی بیٹی سے زبردستی شادی کی اورقیادت خود تومحفوظ ٹھکانوں پرمشتمل ہوگئی۔مگر باقی جنگجؤں کو پاک فوج سے لڑنے کے لئے چھوڑ دیاگیا۔
اور کسی طرح سے ٹی ٹی پی کو افغانستان کی NDS اوربھارت کی RAW ایجنسیاں اہداف دیتی رہیں اور ددفراہم کرتی رہیں اور سلیم صافی کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ کس طرح خالد خراسانی 2015ء میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے بھارت روانہ ہوا۔
اب جب کہ ہمارے ہاتھ کامیاب مہرہ لگ چکاہے اورساری دنیا پہ یہ بات عیاں ہے کہ کس طرح بھارت اورافغانستان کی ایجنسیاں پاکستان میں خونی کھیل میں ملوث ہیں اور مددفراہم کررہی ہیں اور اس سے پہلے کلبوشھن یادیو نے بھی ایسے اعتراف کئے تھے۔ جب کہ فوج اور اداروں نے اپنا کام کردیا اورملزموں کوکٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ہماری سول گورنمنٹ اس کو اقوامِ متحدہ میں بھرپور طریقہ سے اپنے مقدمے کو پیش کرسکے گی کہ عالمی طاقتیں بھارت اورافغانستان کی ایجنسیوں کی پاکستان میں بڑھتی قتل وغارت کوروک سکیں۔احسان اللہ احسان اور ان جیسے لوگ ذرا بھی رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ صبح کے بھولے نہیں جو شام کو گھرآگئے یہ وہ جانور ہیں جو ہمارے جوانوں کے سرکاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے رہے اور ہمارے بچوں کو سکولوں میں لہولہان کرتے رہے۔
اور ہمارے کچھ صحافیوں نے یہاں تک کہا یہ احسان اللہ احسان شاعر بھی ہیں اورادیب بھی اور کسی کو تو ان سے حب الوطنی کی خوشبو بھی آنا شروع ہوگئی۔ شاید یہ وہ شاعر کو ادیب ہیں جن کو اپنے ادب میں نکھار پیدا کرنے کے لئے درد کی ضرورت تھی اور نہ انہوں نے ماؤں، بچوں اورمعصوم لوگوں کی آہوں اور سسکیوں سے مکمل کیا۔ایسے لوگ، قوم اور ریاست کے اوران 70 ہزار جانوں کے ذمہ دار ہیں جو ہم نے اس جنگ میں قربان کی ہیں۔یہ لوگ ذرا برابر رعایت کے مستحق نہیں۔