نواز لیگ، تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
از، ملک تنویر احمد
سیدنا عیسی (علیہ السلام) اپنے حواریوں سے شکوہ کناں ہوئے کہ تم بھی بہت عجیب لوگ ہو کہ اونٹ نگل جاتے ہو اور مچھر چھاننے کے شوق میں مبتلا رہتے ہو۔ پاکستان مسلم لیگ نواز سے بھی یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ٹھہرے گا کہ کہاں کرپشن کی وہ ہو شربا داستانیں جو اس کی قیادت سے نتھی ہیں اور کہاں ان کی چیخ و پکار جو عمران خان کی جانب سے خیبر پختونخواہ حکومت کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر ان کے حلق سے بر آمد ہو رہی ہے۔
عمران خان نے خیبر پختونخواہ حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے جو کرایہ ادا کیا وہ کمرشل و سرکاری کراے سے کم ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو عمران نے بہت ہی ستم ڈھایا کہ ان کا اپنے سیاسی حریفوں کے مقابلے میں مقدمہ ہی قومی دولت کا ضیاع اور اس کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف ہے۔قومی احتساب بیورو نے اس پر نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا بیڑا اٹھا دیا ہے اب انتظار ہے کہ ان تحقیقات سے کیا بر آمد ہوتا ہے۔ عمران خان نے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا اور اس کی ادائیگی میں اگر ہیر پھیر کی تو پھر یہ ان کے اس مقدمے اور موقف کو اخلاقی جواز کے جوہر سے محروم کر دے گی جو انہوں نے اس سیاسی اشرافیہ کے خلا ف اٹھا رکھا ہے جو تین عشروں سے زائد اس ملک کے اقتدار و اختیار پر قابض ہیں۔
عمران خان کی طرز سیاست اور موقع پرستوں اور ابن الوقتوں کا ان کے گرد اکٹھے پہلے ہی ہدف تنقید بنا ہوا ہے کہ وہ بھی اسی روایتی سیاست کے شناور بن چکے ہیں جو ایک مافیا کی طرح اس ملک کے جسم و جاں سے جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے لیکن ان کا مالی بے ضابطگی اور قومی وسائل و دولت کی لوٹ مار سے ابھی تک پاک تھا۔ اگر’’ عاشقان عمران‘‘ سرکاری ہیلی کاپٹر کے ااستعمال کو کم نر خوں مستعار لینے کے عمل کو ایک خفیف سی بے ضابطگی کے مترادف ٹھہرا کر اس سے جان خلاصی کرانا چاہیں گے تو اس سے بات نہ بنے گی کیونکہ ان کے قائد نے بحر سیاست میں تو انہی بنیادوں پر تلاطم کھڑا کیا تاکہ بد عنوان سیاسی اشرافیہ اس ملک کے وسائل و دولت کو بے رحمی اور ظالمانہ طریقے سے لوٹنے کی مرتکب ہوئی ہے۔
عمران خان پر لگے ان الزاامات کی بیل جلد سے جلد منڈھے چڑھے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔تاہم سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے ایشوپر پاکستان مسلم لیگ نواز کا رویہ بھی عجب ٹھہرا کہ جس کی قیادت پر مالی کرپشن اور بد عنوانیوں کے الزامات کہ نہ تھمنے والا سلسلہ ہو وہ کس منھ سے ایسی مخالفین کی کرپشن پر سیاست کر رہی ہے۔ مولانا عبد الکلا م آزاد نے کہا تھا ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔ نواز لیگ کی طرز سیاست دیکھ کر یقین ہو چلا ہے کہ اس کے سینے میں دل ہی ناپید نہیں بلکہ آنکھوں سے شرم کا پانی بھی ختم ہو چکا ہے۔ اے بندگان خدا! تم کس منھ سے کرپشن کے خلاف نعرہ زن ہو۔ ریمنڈ بیکر کی کتاب Capitalism’s Archilles Heel میں نواز لیگ کی قیادت کی کرپشن کے قصے کیا کم تھے کہ پھر پانامہ لیکس نے مزید اس کا بھانڈا پھوڑ ڈالا۔
مشرق وسطیٰ سے یورپ تک بکھرے ہوئے مالی اثاثے اور جائیدادیں شریف فیملی کی قیادت کی مالی بے ضابطگیوں کے ایسے نشان ہیں کہ جو قومی وسائل و دولت کی لوٹ مار کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ پارک لین فلیٹس سے لے کر ایوان فیلڈ پراپرٹیز جیسے مہنگے اثاثے اور جائیدادیں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی ملکیت ٹھہرے ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں دائر ریفرنسز کے تحت سماعت ہو رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کو خدارا اب اس مخمصے سے باہر آ جانا چاہیے کہ وہ اس ملک میں پاکباز و شفاف قیادت کے علمبردار ہیں۔ اس مخمصے میں پھنسے رہنے سے وہ خود فریبی کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ نہ قوم کو دھوکا دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے خلاف چلنے والے ان مقدمات سے جان چھڑا سکتے ہیں جو ان کی مبینہ بد عنوانیوں اور بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنانے کے خلاف زیر سماعت ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت اس وقت عملاً کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے محاورے کی عملی تصویر بنتی چلی جا رہی ہے کہ جیسے جیسے ان کے گرد مالی بد عنوانیوں پر بنے ہوئے مقدمات کا گھیرا تنگ ہوتا چلا جا رہا ہے ویسے ویسے ان کی لہجے کی تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ عدالتو ں پر تابڑ توڑ حملے اور سیاسی حریفوں کی کردار کشی ان کا پرانا وتیرہ ہے اور اس سلسلے میں یہ ایک منظم مافیا کی طرح آپریٹ کرتے ہیں۔نوے کی دہائی میں سیاسی حریفوں کی کردار کشی کا جو گھناؤنا اور مکروہ کھیل انہوں نے کھیلا اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے اور عدالتوں پر حملے تو ہر ایک کے ذہن میں محفوظ ہیں۔میاں نواز شریف اور ان کی دختر کا مقدمہ عدالتوں کے خلاف بن نہیں پا رہا اس لیے بے سروپا الزامات اور ناٹک کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کارزار سیاست میں سرگرم رہنے کے ایک بیکار عمل میں مصروف ہیں۔
سیاسی مخالفین پر لاڈلے کی پھبتی کسنے سے پہلے انہیں اپنے اس ماضی پر بھی شرمندگی اور ندامت کا کھلے بندوں اظہار کرنا چاہیے جب نواز لیگ جسٹس قیوم، جسٹس سعید الزمان صدیقی اور جسٹس رفیق تارڈ جیسے جج حضرات کے فیصلوں سے فیض یاب ہوتی رہی ہے۔میاں صاحب او ر ان کی سیاست اخلاقیات کے جوہر سے تو روز اول سے ہی عاری تھی اور اب تو وہ قاعدے قرینے سے بھی تہی دامن ہے۔ایک آمر کی گود میں پل کر میدان سیاست میں وارد ہونے والے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل مشرف نے یقینی طور پر ایک غیر آئینی کام کیا تھا، میاں صاحب مشرف پر تو خوب گرجتے برستے ہیں اور اس کی بیرون ملک روانگی سے اپنا دامن چھڑا کر عدالتوں کو کہتے پھرتے ہیں کہ اس آمر کو تو واپس لا کر دکھاؤ لیکن دوسری جانب اسی آمر کی باقیات کو گلے لگانے میں ذرا سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد تھوک کے حساب سے ان کے ساتھیوں نے نواز لیگ جوائن کی لیکن مشاہد حسین کی واپسی نے تو سونے پر سہاگہ ہی کر ڈالا۔ مشاہد حسین سید مشرف کی مونچھ کا بال اور ان کی تخلیق کردہ قاف لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ مشاہد حسین سید نے قاف لیگ کے مخدوش سیاسی مستقبل کو بھاپنتے ہوئے اس کی ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگانے میں عافیت جانی۔ مشاہد حسین حالات کا رخ جانچنے کی صلاحیت کے حامل ایک ذہین شخص ہے لیکن میاں نواز شریف نے سیاست کے کس اصول، قاعدے او ر قرینے کے تحت اس شخص کی نواز لیگ میں واپسی کو قبول کیا جو اسی مشرف کا نفس ناطقہ بنا ہوا تھا جس کے خلاف وہ دہائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ عدالتیں اسے ملک میں واپس لانے کہ ہمت دکھائیں۔