ایک اور رات کو جب تاریکی چھانے لگے تھی ترکی کی فوج کے ایک حصہ نے اپنے ملک کو فتح کرنے کی مہم شروع کی۔ ہیلی کاپٹر، جنگی جہاز، ٹینک، مشین گنیں اور اپنے منحوس عزائم لئے انہوں نے ایک ایسی وحشت کا آغاز کیا جس سے تُرک عوام کی تاریخ گو کہ کچھ زیادہ نا واقف نہیں ہے۔ باقی دُنیا کی
طرح ہمارے ہاں بھی عام عوام کی جانب سے اس مہم جوئی پر بڑے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔
شروع شروع میں صورتحال واضح نہیں تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غیر واضح صورتحال کے بھی پر چیز کی طرح اپنے ضمنی فوائد ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک کی جمہوری حکومتیں اس انتظار میں رہیں کہ کب کوئی فیصلہ کن موڑ آتا ہے؛ وہ اپنے اپنے مقامی حلقوں اور عوام کو مطمئن کرنے کے لئے مذمتی بیانوں کے مسودے تیار کروانے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر اندر سے کسی نئے فوجی گروہ کو گلے لگانے کا سوچ رہی تھیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے تعلق رکھنا اور نبھانا آسان ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی صورتحال بڑے دھیان سے دیکھنے والی تھی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ غیر واضح حالات بہت سے چہروں پر مَلے کریم پاؤڈر کو آن کی آن میں دھو ڈالتے ہیں، یہی کل رات کو ہوا۔ پاکستان کی برقی صحافت کے کئی محبوب اور نام نہاد محبِ وطن چہرے اپنی سماجی ذرائع ابلاغ کے بِلوں سے سنسنی خیز لفظوں کے دوش پر بغلیں بجاتے دیکھے جا سکتے تھے؛ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان کے دلوں کی تمناؤں کی تعبیر کہیں اور ظہور پذیر ہوگئی ہو۔ ان کے اس ذہنی، اخلاقی اور سیاسی گدلے پن کے لئے ہمارے پاس کوئی لفظ اب باقی نہیں بچا۔ آپ اگلے دنوں میں بھی دیکھ سکیں گے کہ ان کے تبصروں کے زیادہ تر موضوعات اس ناستلجیائی (nostalgic) نفسیات کے پردوں میں آشکار ملیں گے کہ ترکی کی فوجی مہم جُوئی کیونکر نا کامی کا شکار ہوئی۔
پاکستان میں عوامی سطح پر البتہ اس مہم جُوئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان تنقید کاروں میں سے تو ایک گروہ ایسا ہے جو طیب اردگان کی انسانی حقوق، بنیادی شہری اور صحافیانہ آزادیوں پر لگائی گئی قدغنوں اور قیدو بند کے روا ضابطوں کے باوجود اس کی حکومت کا فوجی مہم جُوئی کے ذریعے خاتمہ نہیں چاہتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں بدترین جمہوریت، کہ جس کی ایک مثال طیب اردگان کی شکل میں ترکی میں موجود ہے، وہ بھی ایک غیر منتخب گروہ اور اقتدار پر قابض فوج سے بہتر ہے۔ دوسرا گروہ البتہ ان لوگوں کا ہے جن کو طیب اردگان کی شکل میں ایک شخص ایسی تقریر کی لذت فراہم کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے انہیں اپنے خوابوں کی کسی متبرکہ اُمّہ اور اس کے کسی نئے صلاح الدین ایوبی کی موہوم فنتاسیوں کا کوئی عکس نظر آتا ہے۔ کئی خودساختہ تجزیہ کار اس منظرنامہ پر بھی بحث کررہے ہیں کہ ترکی کی افواج اور پاکستان کی افواج کی مہم جوئی کی صلاحیتوں میں کون کون سی تقابلی خوبیاں اور خامیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
المختصر، ترکی کی فوجی مہم جُوئی کو مجموعی طور پر پاکستان میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ ہماری افواج کے ٹویٹر ہینڈل سے البتہ ابھی تک اس واقعہ پر کوئی ردعمل نہیں آیا، اور سمجھداری کی بات تو یہ ہے کہ ایسا ردعمل آنا بھی نہیں چاہئے۔ البتہ اسلام آباد میں وہ بدنامِ بحث و تجزیہ پینا فلیکس بینر جو کسی کے آ جانے کی منتیں کررہے تھے،آج صبح میں غیب نظر آئے ہیں۔ ان بینروں کے اترنے کو لگتا ہے جیسے صرف کسی “طاقتور ادراکی ٹویٹ” ہی کا انتظار تھا۔
اس سارے سلسلے میں، البتہ، دو باتوں کا ذکر کرنا بر محل نظر آتا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ کہ تُرک عوام کی جرات، اپنے حقِ انتخاب کی حفاظت اور اُن کی مثبت غیرت کو سلام کرنے کو جی کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ وہاں کی افواج کے ایک حصے نے اسلحہ، بارود، ہیلی کاپٹروں، جنگی جہازوں، ٹینکوں سے لیس ہوکر اپنے ہی مُلک پر حملہ کردیا تو ان ترک عوام نے ان کے نا پاک عزائم کے سامنے اپنا سینہ تان دیا۔ اور فتح، عزت، غیرت اور مثبت ردعمل کی ہوئی۔ اوردوسری بات، اب کی بار ذرا پاکستان کی طرف آئیے، یہاں بھی ابھی ابھی خبریں گردش میں ہیں کہ تیزی سے معروف ہوئی ماڈل، قندیل بلوچ، کو قتل کردیا گیا ہے۔ اوّلین قرائن بتا رہے ہیں کہ اس کے بھائی نے اسے “اپنی کسی غیرت” کے تصور کو بچانے کے لئے قتل کیا ہے۔
دیکھ لیجئے معاشروں اور قوموں کے فرق، کہ ایک جگہ طاقتور کی توپ و تفنگ کے آگے ڈٹ جانے سے غیرت تعبیر ہے اور دوسری جگہ ایک عورت کو مار کر غیرت کے الاؤ جلائے جا رہے ہیں۔ کچھ غیرتیں دکھانے سے عزت و اکرام بڑھتے ہیں اور کچھ سے صرف مردانہ جھوٹی اناؤں کے بُلبلے پھٹتے ہیں!