دو قومی نظریہ اور پاکستان قومیت : حصہ سوم
اسد رحمٰن
پہلے دو حصوں میں ہم نے قوم، کمیونٹی اور ان کی ہندوستان میں مسلم سیاست میں موجود منطق اور حیثیت پہ نظر ڈالی اورپھر ان کا مذہب شریعت اور اقبال سے ایک جائزہ پیش کیا تاہم اس حصے میں ہماری کوشش براہ راست مسلم قومیت سے پیدا ہونے اثرات ہوں گے جنہوں نے موجودہ پاکستان میں موجود قومیتوں یا اتھنیٹیسز کی شناخت ، فیڈریشن کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں اور سیاست پہ اس طور سے اثرات ڈالے کہ جس کی وجہ سے مضبوط پاکستانی قومیت نہ ابھر سکی اور نہ ہی نمائندہ سیاسی ادارے پنپ سکے۔
آئیے سب سے پہلے جوہر صاحب کے اپنے مضمون سے ہی ایک اقتباس ہیش کر کے بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جوہر صاحب لکھتے ہیں ہم نے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کی دنیا میں کوئی شناخت نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جس کی کوئی شناخت یا ساکھ نہ ہو۔۔۔۔
صاحب مضمون نے شناخت سے بحث کا آغاز کیا جو کہ اپنے تئیں ایک ایسی غیر مستقل کیٹگری ہے کہ پوسٹ ماڈرن علمیات سے کشید کی گئی سیاسیت بھی اس کی محدودیت کو اب مان چکی ہے۔ اس کی ،محدودیت کی تفیہم کرنے کے لیے ہم مذہبی قومی سیکولر کسی طرح کی بھی مثال لے سکتے ہیں۔ مثلا کیا مسلمان ہونے کا مطلب زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ ایک ہی رہتا ہے؟ کیا روزمرہ کی زندگی میں مسلمان ہونے کے ساتھ فقہ و فرقہ کی اضافتیں اپنا وجود نہیں رکھتی؟
اسی طرح اگر ایک پنجابی شناخت کی بات کریں تو پھر اس شناخت کے اندر ذات، گوت اور مذہب کی بھی اپنی تفریق موجود ہے۔ اسی طرح ایک بنگالی مسلمان و ایک بہاری مسلمان، ایک کسان اور ایک مزارعہ مسلمان کیا یہ سب مسلمان ہونے کے باوجود ایک شناخت رکھتے ہیں؟ شناخت کی سیاست میں نفوذ پذیری اور استعمال ایک سٹریٹجک ہتھیار کے طور پہ ہوتا ہے جس کا مقصد زیادہ تر معاشی فوائد یا سیاسی اختیار کو حاصل کرنا گردانا جاتا ہے۔ تحریک پاکستان کی بھی کمیونٹی کو قوم قرار دینے کی کوشش دراصل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے شناخت کا ایک سٹریٹجک استعمال تھا۔ مسلمان جو بہت سارے گروہوں قومیتوں اور صوبوں میں تقسیم تھے ان کو کس بنیاد پہ ایک سیاسی پلیٹ فارم پہ اکٹھا کیا جا سکتا تھا[1]۔ مذہبی شناخت ایک اس لیے قوم کی جدید تعریف کے برعکس جو نئی تعریف سامنے لائی گی ایک تو اس کے پاس کوئی ایسا تاریخی سرمایہ نہیں تھا جو کہ عمومی طور پہ ایک گروہ کے اندر قوم بننے یا بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
قوم پرستی کے دو سب سے موثر اور جدید شارح بینڈکٹ اینڈرسن اور ارنسٹ گیلنر دونوں ہی جدید قوم پرستی کو ایک ارتقائی تبدیلی کا مظہر سمجھتے ہیں گلنر کے نزدیک قوم پرستی بنیادی طور پہ ایک ایسا سیاسی اصول ہے جس کے نزدیک سیاست اور قوم کی حد بندی کا یونٹ ایک ہوتا ہے۔ اسی طرح قوم ایک ایسی ایتھنک اکائی کو کہا جاتا ہے جو کہ اپنے آپ کو دوسعرے گروہوں سے جدا اکائی کے طور پہ جانے۔ اس تفریق کے اصولی معیار عمومی طور پہ زبان ، ثقافت علاقہ اور مذہب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی قومی سوال اپنے ابتدائی دنوں میں ہی ایک سیاسی تحریک کی شکل میں ابھرنا شروع ہو گیا تھا اس لیے اس کو خطرہ قرار دے دیا گیا اور آج تک پاکستان میں اس بارے میں کوئی مستند تحقیق موجود نہیں ۔ ابتدا سے ہی قوم کو مذہب کی چرخی پہ چڑھا کے اس پہ تنقید و تحقیق کو ایک جرم بنا دیا گیا۔ جس کے باعث آج تک قوم ریاست اور ایتھنسٹی کے درمیان موجود فرق کی تفہیم ہمارے پاپولر ڈسکورس میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی تحریکیں تاریخ کے کچھ مخصوص حالات میں منظرِ عام پہ آتی ہیں اور اپنی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے سیاست کی نوعیت کو بدل دہتی ہیں اور اس کے بعد پھر ایک نیا بندوبست سامنے آتا ہے جو کہ ایک نئی نارمل حالت کی تشکیل کرتا ہے۔
پاکستان کے نظریہ قومیت کو مذہب کے ساتھ جوڑنے سے جہاں اسلام ازم کا ایک نیا سیاسی نظریہ پیدا ہوا وہیں پہ پاکسان میں قوم کی تشکیل بھی نہیں ہو پائی جس کی ایک بنیادی وجہ مذہب کے ایک غیر تاریخی تصور کی پناہ لے کر پاکستان میں موجود دیگر شناختوں کا گلا گھونٹنا تھا۔ جوہر صاحب نے بالکل درست کہا ہر قوم کی ایک شناخت ہوتی ہے لیکن جناب وہ شناخت دھرتی زبان تاریخ اور کسی گروہ کی ممبرشپ سے آتی ہے اس رو سے تو پاکستانی شناخت نے مقامی شناختوں پہ جبر کی حاکمیت قائم کر کے نو آبادیاتی پالیسی کی ہی یاد تازہ کر دی۔’؛
کسی بھی گروہ کا جہاں قوم بننے کے لیے ایک علیحدگی کے نظریے کا شعور ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح اتنا ہی ضروری یہ ہوتا ہے کہ ایک قوم ایک ایتھنسٹی بھی ہو۔ یعنی اس کی زبان ثقافت اور تاریخ سے ایک گہری جڑت ہو۔ اس تناظر میں پاکستان ایک قوم ہے ہی نہیں بلکہ چند لاکھ سرمایہ دار فوجی ملااور بیوروکریٹ اس شناخت کی آڑ لے کر دوسری شناختوں اور نچلے طبقے کے حقوق دبائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان اگر ایک قوم ہوتی تو اس کی ایک مشترکہ تاریخ زبان اور ثقافت ہوتی۔ جبکہ پچھلی ستر سالہ تاریخ پہ ہی اگر نظر دوڑا لی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ سوائے پنجابیوں کے قریبا تمام ایتنھک گروہ ریاست سے آزادی کا مطالبہ کر چکے ہیں اور وہ اپنے آپ کو پاکستانی ماننے پہ بھی آمادہ نہیں ہیں بلکہ اپنی علاقائی شناختوں اور زبانوں کو زیادہ فخر سے سامنے لاتے ہیں۔ اسی طرح سے پاکستانی سیاست بھی اپنی ایتھنک یا صوبائی اکائیوں میں ہے تقسیم ہو چکی ہے اور کوئی بھی ایک قومی جماعت ایسی موجود نہیں جو کہ چاروں صوبوں میں موجود ہو ایسے میں رابطے کی زبان کو قومی زبان قرار دے دینے سے اور اس کے پھیلاؤ کو قومی وحدت قرار دیے دینا کوئی اتنی دانشمندانہ بات نہیں کیونکہ آج بھی روزمرہ کی بول چال میں اردو کا حصہ بہت زیادہ نہیں ہے۔
جیسا کہ اوپرذکر کیا جا چکا کہ ایک مضبوط قومیت کی تشکیل کے لیے صرف زبان یا صرف مذہب کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے تاریخ کا ایسا تصور نہیات لازمی ہے جو کہ اس قوم کے باشندوں کو جڑت کا ایک تاریخی پس منظر دے سکے۔ تاریخ کا ایسا تصور لوک داستانوں ، لٹریچر اور آرٹ کی صورت مقامی بولی کے توسط سے نئی نسلوں تک پہنچتا ہے جس کے باعث روایت اور تاریخ کے ساتھ مغائرت کی بجائے ایک تسلسل کا احساس شعور اور عمومی رویوں و پریکٹس میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ایسا شعور کا احساس ہی اشرافیہ کو نچلے طبقات سے جوڑتا ہے (چاہے اس جڑت کی نوعیت استحصالی ہوتی ہے) جو کہ پھر سیاست اور اس کی ادارہ جاتی تشکیل (ریاست) کو ایک تسلسل میں باندھتی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کا کسی قسم کی ادارہ جاتی تشکیل کی طرف نہ جانا بھی اپنے ہی دھرتی کے لوگوں سے مغائرت برتنا بھی کہیں نہ کہیں پاکسناتی شناخت پہ اصرار میں ہی پنہاں ہے۔
جوہر صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ ہر آدمی کی ایک شناخت ہوتی ہے لیکن کیا کبھی آپ نے کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جو کہ اپنی شناخت کو ہمسائے کی شناخت سے جوڑ کر ہی واضح کرنے کے قابل ہو؟ پاکستانی قومیت کا مذہبی تصور منفی شناخت کا اعلٰی نمونہ ہے۔ پاکستان کی شناخت اور اس کی خارجہ پالیسی اسی منفیت کی چھایا تلے پچھلے ستر سال سے جینے پہ موجود ہیں۔ کوئی بھی جرنیل ہو یا سیاسی حکمران اس شناخت کو اتارنے کے قابل نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی عدالتوں کا سربراہ جج آج بھی ہندو اور ہندوستان کے بنا اپنی شناخت تصورِ قوم تصورِ انصاف کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کی خارجہ اور داخلی پالیسی آج بھی ہندوستان کی مخالفت میں طے کی جاتی ہیں نہ کہ کسی اعلٰی اخلاقی یا آدرشی اصول کی بنیا پہ یا پھر اپنے عوام کی فلاح کو سامنے رکھ کر۔ اگر دنیا میں جرمنی نہ ہو تب بھی فرانس رہے گا لیکن اگر دنیا میں ہندوستان نہ ہو تو کیا تب بھی جوہر صاحب اور دوسرے اسلامسٹ حضرات پاکستان کی تعریف کر پائیں گے؟ ایسے منفی شناخت کے ساتھ کوئی مثبت اور عوام دوست معاشی پالسی بنانا اور انسان دوست سیاست کے راستے میں رکاوٹ نہ کھڑی کرنا کس حد تک ممکن ہے اس پہ بات اگلے حصے میں کریں گے۔
کتابیات
1۔ Arthur Helweg, Punjabi Identity: A structural/ symbolic Analysis
2-Nationlism – Oxford Concise Dictionary of Politics
[1] واحد دھاگہ تھا جو کہ ان تمام کثیر لسانی ثقافتی گرہوں کو آپس میں جوڑتا تھا۔ عائشہ جلال کی جناح صاحب پہ کی جانے والی تحقیق میں انہوں نے جناح صاحب کو ایک ایسے سیاست دان کے طور پہ ثابت کیا ہے جو کہ اسلام کو ایک سیاسی سٹریٹجی کے طور پہ استعمال کر رہا تھا۔