لکھنے والوں کے دو بڑے قبیلے
از، فرحان خان
لکھنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پڑھنے والوں کو بہتر دنیا کا خواب دکھاتے ہیں۔ ان کے تخلیقی ذہن سے ایسے آئیڈیاز پھوٹتے ہیں جو سماج کے ارتقائی عمل کو رواں کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شخصیات کی پوجا کی بہ جائے علم اور جستجو کی راہ پر لگاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ان کے سب خواب پورے ہوں۔ لیکن وہ اپنے کام میں مسلسل جُٹے رہتے ہیں۔ عربی محاورے کے مطابق وہ بہتری کی انتہائی صورت کو مجسّم دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں تا کہ سماج مکمل نہیں توکم از کم اوسط درجے سے اوپر اٹھ سکے۔
یہ لوگ کسی وقتی صورتِ حال سے مایوس نہیں ہوتے۔ کسی شخصیت کے سِحر میں وہ اس انداز میں جکڑے ہوئے نہیں ہوتے کہ اس کے جانے یا بدل جانے سے وہ اپنے بہتر سماج کے خواب سے بھی دست بردار ہو جائیں۔ وہ ہر حال میں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ توازن کے ساتھ اپنی بات کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان تمام قوّتوں پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں جو کسی بھی شکل میں انسانوں کو غلام رکھنا چاہتی ہیں۔ لوگوں کے افکار پر ان کی مسلسل ہیمرنگ کے دُور رَس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ طویل اور صبر آزما عمل ہے۔ ایک لمبی دوڑ ہے۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو یہ کَشٹ اٹھانے سے گریز پا رہتے ہیں۔ وہ لمحۂِ موجود میں طاقت کے مِحوَر کے آس پاس رہنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ جو اس مِحوَر کا قرب حاصل نہ کر سکیں، وہ طاقت ور گروہوں کے بیانیے کی تائید کرتے ہیں۔
یہ گروہ سماج سے جڑے حقیقی سوالات میں الجھنے کی بَہ جائے لوگوں کو میٹھی گولیاں دینے کا کام کرتا ہے۔ ان کی تحریروں میں کوئی خیال اور ایسا آئیڈیا نہیں ہوتا جو سماج کی ہیئت میں کوئی بڑی اور بہتر تبدیلی لا سکے۔ وہ اپنے لفظوں کو سٹیٹس کو کی حامل قوتوں کی ترجمانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی کارگاہِ فکر سے اُن طاقت وروں کے لیے دلائل پھوٹتے ہیں جو لوگوں کو اپنی غلامی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ غلامی کا مفہوم آج کی دنیا میں ماضی کی نسبت مختلف ہے۔
غلامی کی اس جدید شکل کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کو ایسے وکیلوں کا ایک ہجوم میسر ہے۔ سہولیات اور طاقت کے مراکز کی بہ راہِ راست یا بالواسطہ پشت پناہی انہیں حاصل رہتی ہے۔
یہ اپنے آہنگ میں اکثر خود اعتمادی کا پہاڑ محسوس ہوتے ہیں۔ در اصل یہ خود اعتمادی نہیں بَل کہ پشت پر طاقت کی موجودگی کا پُر فریب احساس ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اب کوئی بھی خطرہ نہیں۔
لیکن طاقت کی نفسیات بڑی خود غرض سی ہوتی ہیں۔ طاقت ور گروہ ان پُر اعتماد بھونپووں کو بدلنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے۔ گویا اِن کی حیثیت اُن کے نزدیک ٹشو پیپرزکی سی ہے۔ استعمال کیا اور بِن کر دیا۔
خود فریبی میں مبتلاء ان دوسری قسم کے لوگوں میں سے چند ایک کو کبھی نہ کبھی زیاں کا احساس تو ہو جاتا ہے لیکن اس وقت ٹرین ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان کے ”اصولی موقف“ پر کوئی کان نہیں دھرتا اور وہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جاتے ہیں۔
یہ دو گروہ ہمیشہ آمنے سامنے رہتے ہیں اور یہ جنگ چلتی رہتی ہے۔ پہلے گروہ کے لوگ البتہ تاریخ میں امر ہوتے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ بڑا لکھنے والا وہ نہیں ہوتا جو لوگوں کو محض اَنٹرٹین کرے، ہاں وہ اچھا کاری گر ضرور ہو سکتا ہے۔
بڑا لکھنے والا وہ ہے جو سماج سے جڑے جینوئن سوالات کو ایڈریس کرتا ہے۔ وہ حقیقی سوالوں سے پہلو تہی کر کے کبھی بھی نہیں گزرتا۔ وہ خود کو انسانی برادری کا ایسا فرد سمجھتا ہے جس کی کچھ ذمے داریاں بھی ہیں۔
اپنی ذات کے گنبدِ بے در میں وہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ اس کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ نثر میں لکھے ہوں یا نظم و شعر میں ڈھلے ہوں، وہ جاودانی ہوتے ہیں۔ وہ مرتے نہیں بَل کہ رہتے زمانوں تک انسانوں کو اپنی جانب متوَجّہ رکھتے ہیں۔