دو غلط : مغالطۂِ خطائین
(شیبا اکرم)
(نوٹ:یہ تحریر John Capps اور Donald Capps کی کتاب You’ve got to be kidding میں بیان کیے گئے مغالطوں میں سے ایک مغالطہ “Two Wrongs” کا اردو ترجمہ ہے۔)
مغالطہ ہائے مفروضہ کی تیسری قسم مغالطۂِ خطائین(Two Wrongs) ہے۔ اس میں یہ دعویٰ شامل ہے کہ’’ دو غلط مل کر ایک درست بناتے ہیں۔‘‘ یہ دعویٰ کہ دو غلط مل کر درست بناتے ہیں ،صریحاً مغالطہ آمیز بیان ہے۔ جب یہ بات واضح ہے کہ دوغلط مل کر دو غلط ہی بناتے ہیں،تو پھر تنقیدی سوچ میں غرق افراد کے لیے یہ بات بتانا کیوں ناگزیر ہے کہ دو غلط مل کر درست نہیں بناتے ہیں ؟ بظاہر معقول ترین وجہ یہ بیان کی جاتی ہے ___جس میں اس مغالطے کو مخصوص انداز میں پیش کیا جاتاہے کہ دو غلط مل کر درست کیسے بناتے ہیں ___’’ایسا کرنا ٹھیک ہے کیونکہ ایسا پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے ۔‘‘ ایک عام مثال اپنے اعمال کے جواز کے لیے یہ بنیاد بنانا کہ ہم ویساہی کر رہے ہیں جیسا کسی نے ہم سے کیا تھا ۔’’ اس نے میرے ساتھ ایسا کیا، اور اس نے غلط کیا۔ اس لیے اس کے ساتھ ایسا کرنا مکمل حق بجانب ہے۔‘‘یہ جواز خاندانوں سے ہوتا ہوا قوموں تک گیا، جنہوں نے ماضی میں غلط سلوک کیا یا برُااستعمال کیا۔
’’مغالطۂِ خطائین کی دلیل کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ گزشتہ عمل آئندہ کے لیے جواز ہے۔ چونکہ میرے یا ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہے تو میر ابھی حق ہے کہ اس یا ان کے ساتھ ایسا ہی کروں ۔ لیکن درحقیقت گزشتہ عمل خود کسی عمل کے لیے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، اور یہ حقیقت ہے کہ ایسا گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ،صرف تاریخی دلچسپی کاعمل ہے ۔ کسی سابقہ عمل کے رد عمل کے ارادے سے آئندہ کسی عمل کی موزونیت کا فیصلہ کرنے کی بجائے ہمیں خود اس عمل کی نوعیت طے کرنا ضروری ہے۔
اس لطیفے میں مغالطۂِ خطائین پیش کیا گیا ہے۔
ایک بوڑھے گلہ بان کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے میں ریل روڈ کی وکالت ایک نامور وکیل کر رہا تھا ۔ گلہ بان کا بیل زمین کے اس حصے سے غائب ہو گیا تھا جہاں سے ریل روڈ گزر رہی تھی ۔گلہ بان چاہتا تھا کہ ہرجانے کے طو رپر اسے معقول رقم اداکی جائے ۔مقدمے کے آغاز سے قبل ہی وکیل اس گلہ بان کو عدالت کے کمرے سے باہر ایک کونے میں لے گیا اور اسے معاملہ عدالت سے باہر ہی نمٹانے پہ قائل کرنے کی کوشش کی۔ وکیل نے سر توڑ کو شش کی اور وہ گلہ بان سے اپنے مطالبے کی نصف رقم لینے پر آمادہ ہو گیا۔ جب گلہ بان نے مقدمہ برخواست کرنے کے لیے دستخط کیے اور چیک لیاتو وکیل، گلہ بان سے معاملہ نمٹاکر اپنی کامیابی پر اترانے لگا۔ ’’جانتے ہو، بڑے میاں ، تمہیں یہ بات بتانے کے قابل بھی نہیں سمجھتا لیکن بہرحال میں نے تمہیں بیوقوف بنا ڈالا۔میں کیس کسی صورت نہیں جیت سکتا تھا۔انجینئر سویا ہوا تھا اور فائر مین بھی (caboose)کیبوس میں تھاجب ٹرین صبح کے وقت تمہاری زمین سے گزر رہی تھی میرے پاس تو پیش کرنے کے لیے ایک گواہ تک نہ تھا۔میں نے تمہیں چقمہ دے دیا ___ہاہاہاہاہا‘‘
بوڑھے گلہ بان نے جواب دیا:
’’عزیز نوجوان، تمہیں ایک بات بتاؤں ، مجھے خود کیس جیتنے کی ذرا امید نہ تھی، پھر آج صبح وہ مردود بیل واپس گھر آگیا۔‘‘
وکیل کا خیال ہے کہ وہ گلہ بان پر غالب آ گیا، لیکن در حقیقت گلہ بان نے بھر پور طریقے سے وکیل پر غلبہ حاصل کیا۔ چونکہ وکیل شیخی بھگارتا ہے( اور وکیل چونکہ زیادہ پسند نہیں کیے جاتے)اس لیے ہمیں خوشی ملتی ہے کہ گلہ بان غالب آگیا۔
تنقیدی سوچ کے تناظر میں جو بات اس لطیفے کو دلچسپ بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہنے پر مائل ہو جائیں گے، ’’ارے، اس کیس میں تو دو غلط مل کے درست نتیجہ پیدا کر رہے ہیں۔ ‘‘ وکیل نے گلہ بان سے غلط کیا لیکن گلہ بان کے غلط نے سب درست کر دیا، لیکن یہ دراصل ٹھیک نہیں ہے۔ ایک تیسری پارٹی بھی تو شامل تھی۔ ریل روڈ کمپنی __جسے گلہ بان کو بیل کی قیمت کا نصف ادا کرنا تھا، جج اور دوسرے سرکاری عملے کا دکھی ہونا بھی حق بجانب تھا کیونکہ انہیں ایک ایسے کیس پر وقت ضائع کرنا پڑا جو ختم کیا جا سکتا تھا، اگر گلہ بان اس صبح کورٹ میں داخل ہو کر یہ بیان دے دیتا کہ اس کا بیل صحیح سلامت گھر واپس آگیا ہے ۔
شاید ہم کمپنی اور کورٹ پر ترس نہ کھائیں لیکن ان کے ساتھ بھی غلط ہوا، اس لیے اس معاملے میں دو غلط نے مل کر زیادہ غلط نتیجہ پیدا کیا، اور ان دونوں افراد کے عمل سے سچ بھی تو متاثر ہوا۔ اس لیے ہم اگر کمپنی اور کورٹ کو خاطر میں نہ بھی لائیں تو ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ ان دونوں کی حرکت سے سچ قربان ہوگیا۔
مغالطۂِ خطائین، یعنی دو غلط مل کہ درست نتیجہ اخذ کرتے ہیں، کا آغاز عموماً بچپن سے ہوتا ہے۔ عمو ماًبچوں میں یہ عام بات ہے کہ ایک بچہ اپنے دفاع میں دوسرے کو ضرب لگاتا ہے کیونکہ ’’اس نے مجھے پہلے ضرب لگائی تھی‘‘ سوچ کا یہ انداز اگرچہ طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔ جیسے کہ اس لطیفے سے ظاہر ہوتا ہے۔
میت کے جنازے پر ایک شخص اس کی ناک پر مکا مارتا ہے۔ جب دوسرے ماتم زدہ شخص نے سوال کیا ،
’’ارے بھائی، تم نے ایسی نیچ حرکت کیوں کی؟‘‘
تو اس شخص نے جواب دیا:
’’پہلے اس نے مجھے مکا مارا تھا۔‘‘
اس مغالطے کے ساتھ ایک یقینی مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلسل شدید نقصان سے بھرپور عمل کے طور پر جاری رہتا ہے۔ ہم اسے سیاسی اکھاڑے میں دیکھ سکتے ہیں۔
مکاریوں کا آغاز انہوں نے کیا۔ پس ہمیں بھی و یسا ہی جواب دینا پڑا۔ ہم خود پر انہیں کسی طرح بھاری نہیں پڑنے دیں گے لیکن تمام سماجی گروہ ___خاندان ، نسلیں ، اتھلیٹ ٹیمیں، کارو باری حریف وغیرہ__ سب نے اسے استعمال کیا ہے۔ چونکہ یہ اتنا عام ہے تویہ غور کرنا اہم ہے کہ اسے مغالطہ صرف اس بنا پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ غیر منطقی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ وہ افراد جن کے ساتھ غلط کیا گیا، کے پاس اور بہت سے طریقے ہیں(اخلاقی اور عقلی حوالے سے) اور ان کے پاس بھی جنہوں نے پہلے غلط کیا تھا(خلوص دل کے ساتھ معذرت ، غلطی کی تلافی وغیرہ) ،جو دوسرے شخص کے جوابی حملے کے انتظار کی بجائے زیادہ بہتر ہے۔
تاہم بعض حالات ایسے بھی ہیں جن میں جس شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ بھی جوابی حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کرے جو اس نے کیا ۔ کچھ معاملات میں کوئی تیسری پارٹی مداخلت کرتی ہے، اور شرائط طے کرتی ہے کہ کس طرح غلطی کرنے والا نقصان کی تلافی کرے۔ رائے ای فرینک ہاؤسر کے کیس پرغو ر کریں، جس نے خود کو’ کو کلس کلین‘ ( Ku Klux Klan) کا پادری قرار دیا۔
اس نے ایک خاتون کے آفس کی کھڑکی سے اس کی تصویر یں کھینچ کر اسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کبھی اسے فون پر ہراساں کرتا، اور کبھی دھمکی آمیز اشتہار بھیجتا۔ متاثرہ خاتون جو ایک سماجی کارکن تھی جس کا کام نسلی امتیاز کی شکایت کے معاملوں میں لوگوں کی معاونت کرنا تھا، اتنی خوفزدہ ہوئی کہ اس نے کام اور گھر بھی چھوڑ دیا، اور مسلسل رہائش بدلتی رہی۔ عدالت نے اس شخص کی کی گئی زیادتیوں کی سزا یوں سنائی کہ وہ بڑے اخباروں کو معذرت ناموں کی نقول بھیجے، معاشرے کی خدمت میں عمل پیرا ہو ، نسلی امتیاز کے خلاف مہم جوئی میں حصہ لے ،اور اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ متاثرہ خاتون اور اس کی بیٹی کو دے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زیادتی کرنے والے فرد کے لیے خلوص دل سے معافی مانگنا ہی کافی ہے، لیکن معاملہ ہر گز یوں نہیں ہے۔ متاثرہ فرد کی عزت نفس کی بحالی صرف قانونی طور پر غلطی کے مرتکب شخص کو ویسے حا لات سے دوچار کر کے ہو سکتی ہے۔
ایک اور تشفی بخش بات اس یقین کا تقاضا ہے کہ دراصل اس طرح اہم اقدار کا تبادلہ ہوتا ہے اور قصور وار شخص معاشی رابطے میں بھی بندھا رہتا ہے۔ ایک بات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ قصوروار شخص کو اس برداشت کے مرحلے سے گزارنا اور ’’برابری کا بدلہ ‘‘لینے کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا ارتکاب دو مختلف عمل ہیں۔